جعلی ادویات

ڈریپ کراچی کی طرح پورے ملک میں جعلی دواساز کمپنیوں اورذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کرے توادارے کی ساکھ قائم ہوسکتی ہے

فوٹوفائل

پاکستان میں ریگولیٹری اتھارٹیز کے قیام کی بنیاد پرویز مشرف کے دور میں پڑی، ان ریگولیٹری اتھارٹیز سے عام آدمی کی زندگی بہتری سے ابتری کی جانب ہی نظر آتی ہے۔

ان اتھارٹیز کے قیام میں بنیادی سوچ شاید کسی قومی پالیسی اور بہتری کی رہی ہو مگر بادی النظر میں یہ اتھارٹیز پرویز مشرف نے اپنے مارشل لائی ساتھیوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے نظریے کے تحت قائم کی تھیں، ہر جگہ اس وقت پرویز مشرف کے ان ساتھیوں کو بھاری معاوضوں پر سربرا ہی کے منصب عطا کیے گئے جو نواز شریف کی حکومت کے خلاف 12اکتوبر 1999 کوکی جانے والی بغاوت کے موقع پر کسی نہ کسی طرح جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے ساتھی تھے۔

مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے صدر کے منصب تک پہنچنے والے جنرل پرویز مشرف نے انتظامی انفرا اسٹرکچر میں ان ریگو لیٹری اتھارٹیز کو خود مختار اداروں کے طور پر داخل کیا اور یہ اتھارٹیز وزارتوں کے زیر انتظام کام کرنے کے بجائے خود مختار اداروں کی طرح ایک اٹانومس باڈیز کی شکل میں ملکی معیشت اور انتظامی امور پر پنجے گاڑ کے باقاعدہ ایک عفریت کے طور پر عوام کا خون چوسنے والے فیصلے کرتی رہیں۔

نیپرا کے قیام کے بعد بجلی کے نرخوں میں گزشتہ 23 سال میں کئی سو گنا اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے اور بڑھتے ہوئے نرخوں کا یہ بے لگام گھوڑا مستقل سر پٹ دوڑنے میں مصروف ہے۔

اوگرا نے یہی کمال دکھایا ہے کہ اس ادارے کے قیام سے قبل بجٹ کے موقع پر سال میں ایک بار یا پھر کسی منی بجٹ کی صورت میں ایک آدھ بار پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا تعین کیا جاتا تھا لیکن اوگرا کے قیام کے بعد پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافوں کا ایک ایسا میکنزم بنا دیا گیا ہے جس کے تحت سال میں 26/25 بار قیمتوں میں ردو بدل ہوتا ہے اور کمی شاذونادر ہوتی ہے مگر اضافہ ہوشربائی کی حد تک کیا جاتا ہے۔

نادرا کے قیام سے قبل قومی شناختی کارڈ اور ب فارم سمیت قومی رجسٹریشن کی تمام دستاویزات عوام کو بغیر کسی فیس اور رقم کی ادائیگی کے حکومت پاکستان جاری کرتی تھی مگر اب قومی شناختی کارڈ سمیت تمام دستاویزات جو ہر شہری کا بنیادی حق ہیں کو مختلف نرخوں کے عوض فراہم کی جاتی ہیں۔


اسی طرح ڈریپ یعنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان، کے قیام سے لوگوں کو بنیادی طور پر ادویات کی فراہمی بلا تعطل فراہم کیے جانے کی ضمانت دی گئی لیکن مختلف ادوار میں فارماسیوٹیکل کمپنیز کے مالکان کی جیبیں بھرنے میں ہی معاونت کی گئی ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں اس ادارے سے اس وقت کے وزیر صحت نے اچانک ادویات کی قیمتوں میں 400% سے زیادہ قیمتیں بڑھوانے کا کام بھی لیا اور آج بھی دوائوں کی قیمتیں غریب آدمی کی پہنچ سے دور نظر آتی ہیں۔

ہر ادارے میں جہاں بڑی تعداد بد عنوان اور کرپشن زدہ عناصر سے بھری پڑی ہے وہاں ان ہی اداروں میں ایسے ایماندار اصول پسند اوعوام کو آسانیاں فراہم کرنے والے کچھ افسران بھی ہوتے ہیں جو عام آدمی کی طرح سوچتے ہیں۔

کراچی ادویہ سازی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا پیداواری مرکز ہے۔ تمام بین الاقوامی دوا ساز کمپنیز کے علاوہ یہاں قومی دوا ساز اداروں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ ان سب کے باوجود ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی جعلی دوا ساز کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو شہر میں جعلی اور نقلی دوائیں بنا کر ہول سیل مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں۔ ڈریپ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جعلی دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرے اور دوائوں کی ذخیرہ اندوزی کو بھی روکے۔

حال ہی میں سیلابی صورتحال نے ملک بھر میں جو تباہی مچائی سندھ کا ایک بڑا حصہ بھی اس کی زد میں آیا ہے اور سیلاب کے نتیجے میں جمع ہونے والے پانی کی وجہ سے سندھ بالخصوص کراچی میں بھی ڈنگی مچھروں کی بڑے پیمانے پر افزائش ہوئی جس کے نتیجے میں سندھ کے دیگر شہروں سمیت کراچی میں بھی ڈنگی بخار کے مریضوں کی بڑی تعداد متاثرہوئی۔

اس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوا ساز اداروں اور ڈسٹری بیوٹرز نے شہر سے بخارکی ادویات کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کردی لیکن سندھ میں ڈریپ کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرسول شیخ نے عوام کی اس پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کا استعمال کیا اور ڈریپ نے شہر میں مختلف کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں کروڑوں کی تعداد میں بخار کی ادویات، گولیاں گوداموں سے بر آمد کیں اور ہول سیل مارکیٹوں پر چھاپوں کے دوران جعلی ادویات بھی پکڑیں، جس کے نتیجے میں جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں پر بھی کارروائی کی گئیں، ڈریپ کی ان کارروائیوں کا عملہ اگرچہ مختصرہے مگر کام کی لگن اور قومی ذمے داری کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتی۔

کراچی میں ان کارروائیوں کو دیکھ کر یہ اندازہ کہ ادارے جس نیت سے بھی بنائے جائیں اگر ان میں فرض شناس افراد ذمے دار عہدوں پر ہوں تو اداروں کی بدنامی کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے نیک نامی کی سند دلوا دیتے ہیں، اگر ڈریپ کراچی کی طرح پورے ملک میں جعلی دواساز کمپنیوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرے تو ادارے کی ساکھ قائم ہوسکتی ہے۔
Load Next Story