افغانستان کا شدید اقتصادی بحران

امریکا 7 ارب ڈالر مالیت کے افغان ذخائر کو غیر منجمد کرنے سے انکاری ہوچکا ہے

اگست 2021میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان کے مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں جسکی وجہ سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک عدم استحکام اور عدم تحفظ کا شکار بن سکتے ہیں۔

افغانستان شدید انسانی بحران میں پھنسا ہوا ہے، دوسری جانب امریکا 7 ارب ڈالر مالیت کے افغان ذخائر کو غیر منجمد کرنے سے انکاری ہوچکا ہے، جس کے باعث افغانستان شدید اقتصادی بحران سے بھی دوچار ہے۔ افغانستان میں غربت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ والدین اپنے بچے کو بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تقریبا دس لاکھ بچے کم خوراک ملنے کے باعث امراض کا شکار ہیں، افغان نژاد خاتون، محبوبہ راوی جو آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہیں، ان کے کابل میں پانچ یتیم خانے، چھ اسکول اور ایک فری میڈیکل سینٹر قائم ہیں۔

محبوبہ راوی کا کہنا ہے کہ کئی خاندان جو افغانستان سے باہر یتیم افغان بچوں کو گود لینا چاہتے ہیں مگر کہا جا رہا ہے کہ طالبان ایسا نہیں ہونے دینگے اور چاہیں گے یہ یتیم بچے ان کی فورس کا حصہ بنیں۔ مذکورہ افغان سماجی رہنما کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی جاری صورتحال سے پوری طرح واقف ہیں۔ عوام کی اکثریت مرد و زَن سب ہی شدید اعصابی دبائو اور غیر یقینی حالات کا شکار ہیں، بچے خوف زدہ ہیں، پورا افغان معاشرہ ایک عجیب سی گھٹن کا شکار لگتا ہے۔


موجودہ طالبان حکومت نے شروع میں خواتین کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں نہیں لگائی تھیں۔ اسی طرح خواتین کو کام کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ پہلے گرلز اسکول بند کیے گئے ، پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبات پر شٹل کاک برقعہ کی پابندی لازمی قرار دے دی گئی۔


دکھ اس بات کا ہے کہ افغانستان معدنی دولت سے مالا مال ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی معدنیات زمین میں دفن ہیں۔ اس وقت افغانستان میں کان کنی سے چھ سو ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ افغانستان میں آئرن اور ماربل، سونا اور کوئلہ کانوں سے نکالا جا رہا ہے۔ افغانستان میں افیون کی برآمد سے 416 ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے، اس کے باوجود وہاں غربت و افلاس کا راج ہے۔ طالبان حکومت کے قیام پر واشنگٹن حکومت نے افغان سینٹرل بینک کے امریکا میں موجود تقریباً نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کیا تھا۔

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے صدر اور سی ای او ڈیوڈ ملی بینڈ نے امریکی کانگریس کی ایک سماعت میں قانون سازوں کو بتایا کہ '' چھ ماہ پہلے افغانستان ایک غریب ملک تھا ایک بہت غریب ملک۔ آج افغانستان ایک فاقہ کش ملک ہے۔ امریکی سینیٹ کی انسداد دہشتگردی کی ذیلی کمیٹی کی اس سماعت کے دوران ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ '' ان کا عملہ میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس کی تصدیق کر سکتا ہے کہ افغان کرنسی کی قیمتوں میں ایک چوتھائی کمی اور غربت کی وجہ سے افغان شہری خوراک کے حصول کے لیے اپنے اعضاء بیچ رہے ہیں۔''

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ایشیا ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین کے مطابق '' انسانی حقوق کے میدان میں طالبان کی بْری شہرت اور حال ہی میں مظالم سامنے آنے کی وجہ سے ڈونر حکومتوں کی جانب سے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کو امداد دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ قابلِ فہم ہے تاہم '' پہلے سے بگڑی صورتحال کو مزید گھمبیر ہونے سے بچانے کے لیے، ڈونرز فوری طور پر ایسی عالمی ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد پر متفق ہوں جو خوراک، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ہنگامی مدد دے سکتی ہیں، اور طالبان کی شمولیت سے براہ راست امداد کا منصوبہ بھی بنائیں۔


نومبر 2021 میں طالبان حکومت نے امریکی کانگریس کے نام ایک کھلے خط میں افغان عوام اور ملک کو درپیش معاشی بحران سے آگاہ کیا ، طالبان حکومت نے واشنگٹن پر ایک مرتبہ پھر زور دیا ہے کہ وہ پابندیاں ہٹائے اور افغان مرکزی بینک کے امریکا میں رکھے گئے 7 ارب ڈالر کے منجمد اثاثے '' غیر مشروط طور پر'' جاری کرے تاکہ طالبان ملک کے گہرے ہوتے معاشی اور انسانی بحران سے نمٹ سکیں مگر تاحال بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آئی بلکہ رواں سال 31 جولائی کو امریکا نے کابل میں ایک ڈرون حملہ کرکے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارنے کا دعویٰ کیا۔

امریکا نے اس سے قبل متعدد بار پاکستان پر بھی ڈورن اٹیک کیے جس کا آغاز 2004 میں ہوا مگر اس سال صرف ایک ڈرون اٹیک ہوا تھا، 2004 سے شروع ہونے والا ڈرون اٹیک کا سلسلہ 2013تک بلا تعطل جاری رہا،مبصرین کے مطابق سال 2010 میں سب سے زیادہ ڈرون اٹیک ہوئے ، جن کی تعداد 122 ہے، انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2010 میں امریکی ڈرون جملوں سے 900افراد لقمہ اجل بنے۔

امریکا کی جانب سے اس قسم کے ڈرون اٹیک کا سلسلہ پاکستان، افغانستان سمیت دیگر شورش زدہ علاقوں جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کا امن متاثر ہوتا ہے ، جس کی جانب اقوام عالم کو توجہ دینا بے حد ضروری ہے تاکہ ان ڈرون حملوں کی روک تھام ہو سکے،2001 میں شروع ہونے والی یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی۔ 2001 سے لے کر 2021 تک امریکا کے 2461 فوجی اور 3846 کانٹریکٹر ہلاک ہوئے۔

افغانستان کی فوج اور پولیس کا جانی نقصان 66 ہزار بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کے 1144 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔اس جنگ میں 47 ہزار 245 افغان شہری اور طالبان سمیت دیگر حریف گروہوں سے تعلق رکھنے والے 51 ہزار 191 افراد ہلاک ہوئے۔ پینٹاگان کے مطابق افغانستان میں امریکا کے فوجی آپریشنز پر 2001 سے اب تک 824 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔

''برائون یونیورسٹی'' کی تحقیق کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں عسکری آپریشن پر 23 کھرب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔افغانستان سے انخلا کے دوران کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 26 اگست کو ہونیوالے دھماکوں میں 13 امریکی فوجی اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔طالبان پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پیچیدہ پابندیوں، نیز امریکا، ای یو اور کئی حکومتوں کی پابندیوں پر نظرثانی ہونی چاہیے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ اْن پابندیوں کی وجہ سے غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے انسانی امداد کی فراہمی متاثر نہ ہو۔

امریکا نے عادت کے مطابق افغانستان میں جنگی ماحول پیدا کیا اور تباہی مچا کر چلا گیا، افغانستان کے موجودہ حالات کا ذمے دار امریکا ہے مگر وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوسرے ممالک کو اس بھیانک کھیل کا ذمے دار بنانا چاہتا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے اس کے لیے اقوام متحدہ کو اس جانب توجہ دیکر امریکا سے افغان ذخائر کو غیر منجمد کرانا چاہیے تاکہ وہاں غذائی بحران کا مسئلہ حل ہو ورنہ افغانستان کا بحران خطے کے دوسرے ممالک کے لیے وبال جان بن سکتا ہے۔
Load Next Story