سیلاب سے متاثرہ لوک گلوکارہ خیمہ بستی میں سرچھپانے پر مجبور
پہلی مرتبہ گھر کے کسی مرد کے بغیر بس میں تنہا کراچی کا سفر کیا ریلیف کیمپ سے خیمہ بستی میں منتقل کردیا گیا،سونھ لغاری
سندھ میں آنے والے سیلاب نے صوفی گلوکارہ سونھ لغاری کی زندگی کا رخ تبدیل کردیا، صوفیانہ کلام کے ذریعے امن و آشتی اور تحمل کا عالمگیر پیغام عام کرنے والی لوک گلوکارہ کا گھر سیلاب کی نذر ہوگیا، بے سروسامانی کا شکار لوک گلوکارہ ریلیف کیمپوں کے دھکے کھاتی ہوئی سندھ حکومت کی جانب سے ملیر میں قائم کی جانے والی خیمہ بستی میں سرچھپانے پر مجبور ہوگئی۔
ملیر میں قائم خیمہ بستی کے ایک گرد آلود کیمپ میں فرش پر بچھے پلاسٹک پر اپنے چار سالہ بیٹے کو گود میں لیے بیٹھی فکر مند خاتون سندھ کی ابھرتی ہوئی لوک گلوکارہ سونھ لغاری ہیں۔ سونھ لغاری گزشتہ آٹھ سال سے ثقافتی محفلوں، لوک میلوں اورنیشنل میڈیا کے شوز میں صوفیانہ کلام پیش کرتی رہی ہیں۔ ان کے زیادہ تر کلام ان کے والد کے لکھے ہوئے ہیں جو خود بھی ان دنوں سیلاب سے پیدا ہونے والی آزمائش سے گزررہے ہیں۔
سونھ لغاری نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی زندگی کے امتحان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، پہلے اپنے فن کا لوہا منوانے کے لیے سخت مشکلات سے گزرنا پڑا، ان کے اپنوں نے ان کی مدد نہ کی ثقافت کی ترویج کے سرکاری اداروں نے بھی انہیں نظر انداز کیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور صوفیاء کرام سے محبت کی طاقت سے اپنا مقام بنانے کے لیے سرگرم رہیں۔ انہوں نے 2017میں شادی کے بعد جھڈو میں سکونت اختیار کی جہاں ایک وڈیرے کی اراضی پر کچہ مکان بناکر زندگی کو امیدوں کے سپرد کیا تاہم حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ان کے اس کچے آشیانے کو بھی بکھیر دیا۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ سیلاب کے پانی میں گھر ڈوبنے لگا تو وہ اپنے شوہر کے ہمراہ کمر تک پانی میں کھڑے ہوکر گرہستی کو بچانے اور پانی کی نکاسی میں مصروف رہیں جس سے ان کا چند ہفتوں کا حمل بھی ضایع ہوگیا اور اسی حالت میں ان کے شوہر نے انہیں شہر جانے والی ایک بس میں چار سال کے بچے کے ساتھ بٹھاکر مدد کی امید میں روانہ کردیا۔سونھ لغاری کے مطابق انہوں نے پہلی مرتبہ گھر کے کسی مرد کے بغیر بس میں تنہا سفر کیاجیسے تیسے کراچی پہنچیں اور ریلیف کیمپ میں پناہ لی اور پھر انہیں خیمہ بستی میں منتقل کردیا گیا۔
سونھ لغاری کے مطابق خیمہ بستی میں کوئی خاص سہولیات نہیں مل رہیں، دن بھر سخت گرمی اور گرد مٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے دوپہر کا کھانا تاخیر سے ملنا معمول ہے اسی طرح رات کا کھانا نصف شب کے قریب ملتا ہے جبکہ دیہات میں رہنے والے شام ڈھلے ہی کھانا کھاکر سونے کے عادی ہیں۔
ان کا چار سالہ بچہ علی بھی ان کے ہمراہ ہے جس کے لیے وہ زیادہ فکرمند ہیں، سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے ان کے شوہر کا روزگار بھی چلا گیا۔ سونھ لغاری کہتی ہیں کہ انہیں سندھ حکومت کے محکمہ ثقافت سے یہ شکایت ہے کہ اس محکمہ نے فنکاروں کو نظر انداز کیا اور اس صورتحال میں بھی کوئی ان فنکاروں کو پوچھنے والا نہیں جو سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے دیگر متاثرین کے ساتھ در بہ در ہیں۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ صوفیانہ کلام اور موسیقی سے انہیں بچپن سے لگاؤ تھا اور وہ عالمگیر شہرت یافتہ لوک گلوکارہ عابدہ پروین کو اپنا روحانی استاد سمجھتی ہیں۔ سونھ لغاری کے مطابق ان مشکل حالات میں صوفیاء کرام کی نسبت سے اللہ پر یقین ہی ان کی طاقت ہے اور وہ مشکلات سے گھبراتی ہیں تو صوفیانہ کلام گنگنا لیتی ہیں جس سے انہیں ہمت ملتی ہے۔
لوک گلوکارہ کہتی ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ وہ صرف اپنے لیے سہولتوں کا مطالبہ نہیں کرسکتیں ان کی نظر میں تمام متاثرین ایک جیسے ہیں سب ہی ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں بالخصوص عورتیں اور بچے ان حالات میں سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ سونھ لغاری کہتی ہیں وہ اپنی لوک گلوکاری سے متاثرین کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے سرکاری سرپرستی اور صوفیائے کرام سے عقید ت رکھنے والوں کا تعاون درکار ہے۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے کر ایسا انسان بنانا چاہتی ہوں جو دکھی انسانیت کے لیے کام کرے اور دنیا بھر میں امن و محبت کا پیغام عام کرنا ان کی زندگی کا مشن ہے جو سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے عارضی طور پر رکا تو ہے لیکن حالات بہتر ہوتے ہی وہ دوبارہ لوک گلوکاری کے ذریعے امن و آشتی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا شروع کردیں گی۔
ملیر میں قائم خیمہ بستی کے ایک گرد آلود کیمپ میں فرش پر بچھے پلاسٹک پر اپنے چار سالہ بیٹے کو گود میں لیے بیٹھی فکر مند خاتون سندھ کی ابھرتی ہوئی لوک گلوکارہ سونھ لغاری ہیں۔ سونھ لغاری گزشتہ آٹھ سال سے ثقافتی محفلوں، لوک میلوں اورنیشنل میڈیا کے شوز میں صوفیانہ کلام پیش کرتی رہی ہیں۔ ان کے زیادہ تر کلام ان کے والد کے لکھے ہوئے ہیں جو خود بھی ان دنوں سیلاب سے پیدا ہونے والی آزمائش سے گزررہے ہیں۔
سونھ لغاری نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کی زندگی کے امتحان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، پہلے اپنے فن کا لوہا منوانے کے لیے سخت مشکلات سے گزرنا پڑا، ان کے اپنوں نے ان کی مدد نہ کی ثقافت کی ترویج کے سرکاری اداروں نے بھی انہیں نظر انداز کیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور صوفیاء کرام سے محبت کی طاقت سے اپنا مقام بنانے کے لیے سرگرم رہیں۔ انہوں نے 2017میں شادی کے بعد جھڈو میں سکونت اختیار کی جہاں ایک وڈیرے کی اراضی پر کچہ مکان بناکر زندگی کو امیدوں کے سپرد کیا تاہم حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ان کے اس کچے آشیانے کو بھی بکھیر دیا۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ سیلاب کے پانی میں گھر ڈوبنے لگا تو وہ اپنے شوہر کے ہمراہ کمر تک پانی میں کھڑے ہوکر گرہستی کو بچانے اور پانی کی نکاسی میں مصروف رہیں جس سے ان کا چند ہفتوں کا حمل بھی ضایع ہوگیا اور اسی حالت میں ان کے شوہر نے انہیں شہر جانے والی ایک بس میں چار سال کے بچے کے ساتھ بٹھاکر مدد کی امید میں روانہ کردیا۔سونھ لغاری کے مطابق انہوں نے پہلی مرتبہ گھر کے کسی مرد کے بغیر بس میں تنہا سفر کیاجیسے تیسے کراچی پہنچیں اور ریلیف کیمپ میں پناہ لی اور پھر انہیں خیمہ بستی میں منتقل کردیا گیا۔
سونھ لغاری کے مطابق خیمہ بستی میں کوئی خاص سہولیات نہیں مل رہیں، دن بھر سخت گرمی اور گرد مٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے دوپہر کا کھانا تاخیر سے ملنا معمول ہے اسی طرح رات کا کھانا نصف شب کے قریب ملتا ہے جبکہ دیہات میں رہنے والے شام ڈھلے ہی کھانا کھاکر سونے کے عادی ہیں۔
ان کا چار سالہ بچہ علی بھی ان کے ہمراہ ہے جس کے لیے وہ زیادہ فکرمند ہیں، سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے ان کے شوہر کا روزگار بھی چلا گیا۔ سونھ لغاری کہتی ہیں کہ انہیں سندھ حکومت کے محکمہ ثقافت سے یہ شکایت ہے کہ اس محکمہ نے فنکاروں کو نظر انداز کیا اور اس صورتحال میں بھی کوئی ان فنکاروں کو پوچھنے والا نہیں جو سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے دیگر متاثرین کے ساتھ در بہ در ہیں۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ صوفیانہ کلام اور موسیقی سے انہیں بچپن سے لگاؤ تھا اور وہ عالمگیر شہرت یافتہ لوک گلوکارہ عابدہ پروین کو اپنا روحانی استاد سمجھتی ہیں۔ سونھ لغاری کے مطابق ان مشکل حالات میں صوفیاء کرام کی نسبت سے اللہ پر یقین ہی ان کی طاقت ہے اور وہ مشکلات سے گھبراتی ہیں تو صوفیانہ کلام گنگنا لیتی ہیں جس سے انہیں ہمت ملتی ہے۔
لوک گلوکارہ کہتی ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ وہ صرف اپنے لیے سہولتوں کا مطالبہ نہیں کرسکتیں ان کی نظر میں تمام متاثرین ایک جیسے ہیں سب ہی ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں بالخصوص عورتیں اور بچے ان حالات میں سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ سونھ لغاری کہتی ہیں وہ اپنی لوک گلوکاری سے متاثرین کے لیے فنڈ اکھٹا کرنا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے سرکاری سرپرستی اور صوفیائے کرام سے عقید ت رکھنے والوں کا تعاون درکار ہے۔
سونھ لغاری کہتی ہیں کہ اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے کر ایسا انسان بنانا چاہتی ہوں جو دکھی انسانیت کے لیے کام کرے اور دنیا بھر میں امن و محبت کا پیغام عام کرنا ان کی زندگی کا مشن ہے جو سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے عارضی طور پر رکا تو ہے لیکن حالات بہتر ہوتے ہی وہ دوبارہ لوک گلوکاری کے ذریعے امن و آشتی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا شروع کردیں گی۔