ظلم و زیادتی کی نئی مثال
کیا یہ عالمی جبر ہے کہ افغان طالبان بھی آگے بڑھ کر اُسی رُوس سے مصافحے، معانقے اور معاہدے کررہے ہیں
ساری دُنیا29ستمبر2022کی ستمگر تاریخ یوں یاد رکھے گی کہ اس روز رُوسی فوج اور حکمرانوں نے کمزور ، ہمسایہ ملک، یوکرائن، کے چار اہم حصے غصب کرکے انہیں باقاعدہ رُوس میں ضَم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ان چار غصب شدہ حصوں کے نام یوں ہیں: ڈو نیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زپوریشا۔ یہ چاروں علاقے یوکرائن کے کُل رقبے کا15فیصد بنتے ہیں۔ رُوس نے ان چاروں علاقوں میں ایک نام نہاد ریفرنڈم بھی کروایا جس میں رُوسی خواہش کے عین مطابق مذکورہ چاروں علاقوں کے یوکرائنی شہریوں نے رُوس کے ''حق'' میں ووٹ دے کر فیصلہ سنایا کہ ہم رُوس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اگلے روز رُوسی دارالحکومت کے جارج ہال میں رُوسی صدر، ولادیمیر پیوٹن، نے مذکورہ چاروں غصب شدہ علاقوں کی اہم شخصیات کی موجودگی میں اُس معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اب یہ چاروں علاقے رُوس کا باقاعدہ حصہ کہلائیں گے۔
چاروں مذکورہ غصب شدہ یوکرائنی علاقے رُوسی سرحد سے متصل ہیں۔ اِس موقع پر رُوسی صدر نے اپنے پُر جوش خطاب میں جو کہا، وہ سفاکی اور زیادتی کا شاہکار ہے۔ امریکی صدر نے مگر اعلان کیا ہے کہ ہم رُوسی صدر کے اس الحاقی اقدام کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ رُوس پہلے بھی ہمسایہ ملک، کریمیا، پر قبضہ کرکے اسے رُوس میں شامل کر چکا ہے ۔
مذکورہ معاہدے کے بعد رُوسی صدر کے حکم پر ماسکو کے ''ریڈ اسکوائر'' میں ''انضمام '' کا جشن منایا گیا۔ اِس کا معنی و مطلب تو پھر یہ ہُوا کہ دُنیا کے جس ملک کے پاس اسلحے کی طاقت ہوگی، وہ اپنے کمزور ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑے گا اور غصب شدہ اور زیر قبضہ علاقوں کو بزورِ بندوق اپنے ملک میں شامل کر لے گا۔ طاقت کا یہ اسلوب کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں ۔ گذشتہ 7ماہ سے رُوس نے یوکرائن پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
اِن 7مہینوں کے دوران آٹھ ملین یوکرائنی شہری مغربی ممالک میں بطور مہاجر پناہ گیر ہو چکے ہیں۔ رُوسی زیادتیوں کے موجب اتنی ہی تعداد میں یوکرائنی شہری اپنے ہی وطن میں گھروں سے بے گھر (Displace) ہو چکے ہیں۔
رُوس اِس دوران 10ہزار کے قریب یوکرائنی فوجیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ یوکرائن کو شاباش کہ ابھی تک اُس نے اپنے طاقتور ترین دشمن کے سامنے ہار نہیں مانی۔ اور یہی بات رُوسی صدر کے اعصاب کو توڑ رہی ہے ۔ رُوسی صدر نے یوکرائن سے کہا ہے کہ ہتھیار ڈال دیں اور مجھ سے مذاکرات کریں لیکن یوکرائنی صدر، ولادیمیر زلنسکی، اِس ڈھب پر آنے سے انکاری ہیں اور ہر محاذ پر ڈٹے ہُوئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی یوکرائن کی فوجی، سفارتی اور مالی اعانت و حمائت کررہے ہیں۔ آج دُنیا خوراک اور توانائی کے جن مہیب بحرانوں میں مبتلا ہے، اِس کی بڑی وجہ رُوس کی یوکرائن کے خلاف زیادتیاں ہیں۔
پچھلے پچاس برسوں کے دوران کسی آزاد ملک اور آزاد عوام کے خلاف رُوس کی یہ دوسری بڑی زیادتی ہے۔ زیادتی ہی نہیں ، بلکہ ظلمِ عظیم ہے ۔ 43سال قبل رُوس (جو اُس وقت سوویت یونین کہلاتا تھا)نے نہتے ، کمزور اور بے بس افغانستان میں فوجیں داخل کی تھیں۔
تقریباً ایک عشرہ تک رُوسی فوجی اور حکمران نہتے افغانوں کا خون بہاتے رہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا لکھتا ہے کہ افغانستان پر رُوسی یلغار کے دس برسوں کے دوران رُوس کے اپنے 15سے 20ہزار فوجی ہلاک ہُوئے اور 15لاکھ سے زائد افغان شہید ہوئے۔ 4ملین سے زائد افغانی پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے اور آج تک بیشتر افغان مہاجرین واپس نہیں جا سکے ۔ تیس لاکھ سے زائد افغانوں نے ایران میں پناہ لی۔یہ مہاجرین بھی آج تک ایران سے واپس اپنے وطن واپس نہیں گئے۔
کیا اِسے ہم اپنی معاشی اور عالمی مجبوریاں سمجھیں کہ رُوس کے مذکورہ مظالم اور صریح زیادتیوں کے باوجود پاکستان آج رُوس کی طرف نامہ و پیام بھیج رہا ہے؟ ہمارے سابق وزیر اعظم، جناب عمران خان، رُوس کی سبھی زیادتیوں اور مظالم کے باوصف ماسکو کے دَورے پر چلے گئے اور مبینہ طور پر رُوس سے سستے تیل اور سستی گندم کے سِودے کرتے رہے۔
اگرچہ اِن سَودوں کی رُوسی حکام تصدیق نہیں کرتے لیکن خان صاحب اور اُن کے حواری اِس مبینہ سَودے پر بضد ہیں ۔خان صاحب کے بعد وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف کی قیادت میں، موجودہ اتحادی حکومت بھی، اُسی رُوس سے سستا تیل اور سستی گندم خریدنے کی کوشش میں ہے جس رُوس کو ہم سرکاری سطح پر غاصب، قاہر، جابر ، قابض اور مسلمانوں کا قاتل قرار دیتے رہے ہیں ۔ رُوس توسیع پسندی کے لالچ میںکل تک جو مظالم نہتے اور کمزور افغانستان پر ڈھا رہا تھا، آج وہی مظالم یوکرائن پر ڈھا رہا ہے ۔ افغانستان مگر رُوس کے سامنے جھکا نہ یوکرائن کے آزاد منش عوام ظالم اور غاصب رُوس کے سامنے جھک رہے ہیں ۔
ہم یہ حیران کن اور رُوح پرور نظارے دیکھ رہے ہیں کہ یوکرائن کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ، فوجی وردی پہنے اور جدید بندوقوں سے لَیس ہو کر، مادرِ وطن کی آزادی کی خاطر ، جنگی مورچوں میں آزادی کے تحفظ کے ترانے گاتے ہیں ۔ یہ مناظر مہیب اور طاقتور رُوسی حکمران کے اعصاب کو شل کر رہے ہیں ۔
کیا یہ عالمی جبر ہے کہ افغان طالبان بھی آگے بڑھ کر اُسی رُوس سے مصافحے، معانقے اور معاہدے کررہے ہیں جس رُوس نے بیدردی اور بیدریغی سے معصوم افغانوں کا برسہا برس تک خون بہایا؟ وہی رُوس جس سے افغان طالبان برسوں میدانِ جنگ میں نبرد آزما رہے ۔ اور آخر ، امریکی تعاون سے، قاہر اور ہیبت ناک رُوس کو افغان سر زمین سے مار بھگایا ۔ آج اُسی رُوس سے افغان طالبان حکمران تجارتی معاہدے کر رہے ہیں۔
حالانکہ ابھی تو رُوس نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم بھی نہیں کیا ہے ۔یکم اکتوبر 2022 کو ''رائٹر'' نے خبر دی ہے کہ افغان طالبان حکومت کے عبوری وزیر انڈسٹری و کامرس، حاجی نورالدین عزیزی، نے ماسکو جا کر ولادیمیر پیوٹن کی رُوسی حکومت سے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں ۔
عزیزی صاحب خود بتاتے ہیں کہ اِس معاہدے کے مطابق : رُوس ، افغانستان کو (سالانہ)10لاکھ ٹن گیس، 10لاکھ ٹن ڈیزل، 5لاکھ ٹن ایل پی جی اور20لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔ امریکہ نے بوجوہ افغان طالبان حکومت پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اِس کارن بھی شائد افغان حکام رُوس کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہُوئے ہیں ۔ کہا مگر یہ یہی جائیگا: میر کیا سادے ہیں کہ بیمار ہُوئے جس کے سبب /اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں!!
ان چار غصب شدہ حصوں کے نام یوں ہیں: ڈو نیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زپوریشا۔ یہ چاروں علاقے یوکرائن کے کُل رقبے کا15فیصد بنتے ہیں۔ رُوس نے ان چاروں علاقوں میں ایک نام نہاد ریفرنڈم بھی کروایا جس میں رُوسی خواہش کے عین مطابق مذکورہ چاروں علاقوں کے یوکرائنی شہریوں نے رُوس کے ''حق'' میں ووٹ دے کر فیصلہ سنایا کہ ہم رُوس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اگلے روز رُوسی دارالحکومت کے جارج ہال میں رُوسی صدر، ولادیمیر پیوٹن، نے مذکورہ چاروں غصب شدہ علاقوں کی اہم شخصیات کی موجودگی میں اُس معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اب یہ چاروں علاقے رُوس کا باقاعدہ حصہ کہلائیں گے۔
چاروں مذکورہ غصب شدہ یوکرائنی علاقے رُوسی سرحد سے متصل ہیں۔ اِس موقع پر رُوسی صدر نے اپنے پُر جوش خطاب میں جو کہا، وہ سفاکی اور زیادتی کا شاہکار ہے۔ امریکی صدر نے مگر اعلان کیا ہے کہ ہم رُوسی صدر کے اس الحاقی اقدام کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ رُوس پہلے بھی ہمسایہ ملک، کریمیا، پر قبضہ کرکے اسے رُوس میں شامل کر چکا ہے ۔
مذکورہ معاہدے کے بعد رُوسی صدر کے حکم پر ماسکو کے ''ریڈ اسکوائر'' میں ''انضمام '' کا جشن منایا گیا۔ اِس کا معنی و مطلب تو پھر یہ ہُوا کہ دُنیا کے جس ملک کے پاس اسلحے کی طاقت ہوگی، وہ اپنے کمزور ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑے گا اور غصب شدہ اور زیر قبضہ علاقوں کو بزورِ بندوق اپنے ملک میں شامل کر لے گا۔ طاقت کا یہ اسلوب کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں ۔ گذشتہ 7ماہ سے رُوس نے یوکرائن پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
اِن 7مہینوں کے دوران آٹھ ملین یوکرائنی شہری مغربی ممالک میں بطور مہاجر پناہ گیر ہو چکے ہیں۔ رُوسی زیادتیوں کے موجب اتنی ہی تعداد میں یوکرائنی شہری اپنے ہی وطن میں گھروں سے بے گھر (Displace) ہو چکے ہیں۔
رُوس اِس دوران 10ہزار کے قریب یوکرائنی فوجیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ یوکرائن کو شاباش کہ ابھی تک اُس نے اپنے طاقتور ترین دشمن کے سامنے ہار نہیں مانی۔ اور یہی بات رُوسی صدر کے اعصاب کو توڑ رہی ہے ۔ رُوسی صدر نے یوکرائن سے کہا ہے کہ ہتھیار ڈال دیں اور مجھ سے مذاکرات کریں لیکن یوکرائنی صدر، ولادیمیر زلنسکی، اِس ڈھب پر آنے سے انکاری ہیں اور ہر محاذ پر ڈٹے ہُوئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی یوکرائن کی فوجی، سفارتی اور مالی اعانت و حمائت کررہے ہیں۔ آج دُنیا خوراک اور توانائی کے جن مہیب بحرانوں میں مبتلا ہے، اِس کی بڑی وجہ رُوس کی یوکرائن کے خلاف زیادتیاں ہیں۔
پچھلے پچاس برسوں کے دوران کسی آزاد ملک اور آزاد عوام کے خلاف رُوس کی یہ دوسری بڑی زیادتی ہے۔ زیادتی ہی نہیں ، بلکہ ظلمِ عظیم ہے ۔ 43سال قبل رُوس (جو اُس وقت سوویت یونین کہلاتا تھا)نے نہتے ، کمزور اور بے بس افغانستان میں فوجیں داخل کی تھیں۔
تقریباً ایک عشرہ تک رُوسی فوجی اور حکمران نہتے افغانوں کا خون بہاتے رہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا لکھتا ہے کہ افغانستان پر رُوسی یلغار کے دس برسوں کے دوران رُوس کے اپنے 15سے 20ہزار فوجی ہلاک ہُوئے اور 15لاکھ سے زائد افغان شہید ہوئے۔ 4ملین سے زائد افغانی پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے اور آج تک بیشتر افغان مہاجرین واپس نہیں جا سکے ۔ تیس لاکھ سے زائد افغانوں نے ایران میں پناہ لی۔یہ مہاجرین بھی آج تک ایران سے واپس اپنے وطن واپس نہیں گئے۔
کیا اِسے ہم اپنی معاشی اور عالمی مجبوریاں سمجھیں کہ رُوس کے مذکورہ مظالم اور صریح زیادتیوں کے باوجود پاکستان آج رُوس کی طرف نامہ و پیام بھیج رہا ہے؟ ہمارے سابق وزیر اعظم، جناب عمران خان، رُوس کی سبھی زیادتیوں اور مظالم کے باوصف ماسکو کے دَورے پر چلے گئے اور مبینہ طور پر رُوس سے سستے تیل اور سستی گندم کے سِودے کرتے رہے۔
اگرچہ اِن سَودوں کی رُوسی حکام تصدیق نہیں کرتے لیکن خان صاحب اور اُن کے حواری اِس مبینہ سَودے پر بضد ہیں ۔خان صاحب کے بعد وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف کی قیادت میں، موجودہ اتحادی حکومت بھی، اُسی رُوس سے سستا تیل اور سستی گندم خریدنے کی کوشش میں ہے جس رُوس کو ہم سرکاری سطح پر غاصب، قاہر، جابر ، قابض اور مسلمانوں کا قاتل قرار دیتے رہے ہیں ۔ رُوس توسیع پسندی کے لالچ میںکل تک جو مظالم نہتے اور کمزور افغانستان پر ڈھا رہا تھا، آج وہی مظالم یوکرائن پر ڈھا رہا ہے ۔ افغانستان مگر رُوس کے سامنے جھکا نہ یوکرائن کے آزاد منش عوام ظالم اور غاصب رُوس کے سامنے جھک رہے ہیں ۔
ہم یہ حیران کن اور رُوح پرور نظارے دیکھ رہے ہیں کہ یوکرائن کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ، فوجی وردی پہنے اور جدید بندوقوں سے لَیس ہو کر، مادرِ وطن کی آزادی کی خاطر ، جنگی مورچوں میں آزادی کے تحفظ کے ترانے گاتے ہیں ۔ یہ مناظر مہیب اور طاقتور رُوسی حکمران کے اعصاب کو شل کر رہے ہیں ۔
کیا یہ عالمی جبر ہے کہ افغان طالبان بھی آگے بڑھ کر اُسی رُوس سے مصافحے، معانقے اور معاہدے کررہے ہیں جس رُوس نے بیدردی اور بیدریغی سے معصوم افغانوں کا برسہا برس تک خون بہایا؟ وہی رُوس جس سے افغان طالبان برسوں میدانِ جنگ میں نبرد آزما رہے ۔ اور آخر ، امریکی تعاون سے، قاہر اور ہیبت ناک رُوس کو افغان سر زمین سے مار بھگایا ۔ آج اُسی رُوس سے افغان طالبان حکمران تجارتی معاہدے کر رہے ہیں۔
حالانکہ ابھی تو رُوس نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم بھی نہیں کیا ہے ۔یکم اکتوبر 2022 کو ''رائٹر'' نے خبر دی ہے کہ افغان طالبان حکومت کے عبوری وزیر انڈسٹری و کامرس، حاجی نورالدین عزیزی، نے ماسکو جا کر ولادیمیر پیوٹن کی رُوسی حکومت سے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں ۔
عزیزی صاحب خود بتاتے ہیں کہ اِس معاہدے کے مطابق : رُوس ، افغانستان کو (سالانہ)10لاکھ ٹن گیس، 10لاکھ ٹن ڈیزل، 5لاکھ ٹن ایل پی جی اور20لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔ امریکہ نے بوجوہ افغان طالبان حکومت پر جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اِس کارن بھی شائد افغان حکام رُوس کی طرف ہاتھ بڑھانے پر مجبور ہُوئے ہیں ۔ کہا مگر یہ یہی جائیگا: میر کیا سادے ہیں کہ بیمار ہُوئے جس کے سبب /اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں!!