مردم شماری سے میانمار کے مسلمانوں کی قسمت بدل پائے گی

گذشتہ کئی ماہ سے میانمار کے مسلمان جنگی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں امن و چین ان کے لیے ناپید ہوچکا ہے


آصف زیدی March 23, 2014
دہشت کے سائے میں جیتی دنیا کی مظلوم ترین اقلیت اپنی شناخت حاصل کرنا چاہتی ہے فوٹو : فائل

میانمار(برما) میں مسلمانوں کا امن و سکون چھینا جاچکا ہے اور قتل و غارت گری کی مسلسل کارروائیوں نے علاقے میں مسلمان مردوخواتین اور بچوں کے لیے زندگی انتہائی مشکل بنادی ہے۔

گذشتہ کئی ماہ سے میانمار کے مسلمان جنگی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں امن و چین ان کے لیے ناپید ہوچکا ہے۔



میانمار کے تقریباً8 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے، اس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے انھیں مشکل ترین اور خراب حالات میں رہنے والی اقلیت قرار دیا جارہا ہے، جو اسلامی دنیا کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی آبادیوں کو مسلمان دشمن کبھی مذہب کے نام پر نشانہ بناتے ہیں تو کبھی رنگ و نسل مسلم آبادی پر شب خون مارنے کا جواز بن جاتے ہیں۔



ان کے لیے سفر کرنا محال، تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل، بنیادی صحت کی سہولتوں سے مستفید ہونا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ میانمار کے ہر مسلمان گھر میں پیدا ہونے والے بچے کی خوشی سے زیادہ والدین کو اس کے تحفظ اور خوش حال و اطمینان بھرے مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔

میانمار کے روہنگیا مسلمان اس وقت شدید کرب کے عالم میں ہیں اور اقوام عالم سے ہم دردی کے چند بول نہیں بل کہ قیام امن کے لیے ٹھوس اقدامات کے خواہش مند ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ راکھین (Rakhine)ریاست ہے، جہاں بچوں کی ذبح شدہ لاشیں، گھروں میں آگ، مختلف ہتھیاروں سے مردوخواتین کا قتل عام صرف ایک دن کا واقعہ نہیں، میانمار کے مسلمانوں نے قیامت صغریٰ کے یہ مناظر بار بار دیکھے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ میانمار کی حکومت بھی ان کی حالت زار پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، وہ انھیں بنگلادیش سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین قرار دیتی ہے اور حکام بالا انھیں قانونی شناخت دینے سے بھی انکاری ہیں۔



اب میانمار کے مسلمانوں کو ایک اور بڑے چیلینج کا سامنا ہے، کیوں کہ رواں ماہ کے آخر میں ملک میں مردم شماری کی جارہی ہے، روہنگیا مسلمان انتہائی مشکل حالات میں بھی سرخ رو ہونے کے لیے پُرعزم ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں مسلمان کیمپوں میں شب و روز بسر کررہے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں انھیں ان کی شناخت مل جائے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی قومی مردم شماری میں شناخت کا مرحلہ طے ہوجانے سے اگر انھیں کچھ اطمینان ملے گا، لیکن مسلمانوں کے لیے مزید مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ میانمر میں آخری بار مردم شماری 1983 میں کی گئی تھی اور اب تک انھی اعدادوشمار پر انحصار کیا جارہا ہے، اُس مردم شماری میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی قرار دیا گیا تھا۔



اب عالمی مبصرین کے مطابق بے گھری، جنگ و جدل اور مسلسل حملوں کا عذاب سہنے والے مسلمانوں کو مردم شماری کے بعد اپنے حالات بہتر ہونے کی امید ہے، لیکن حالات و واقعات کے تناظر میں ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم روہنگیا مسلمانوں کے لیے کوئی اچھی خبر لائے گا۔

میانمار میں مردم شماری اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہورہی ہے اور مسلمان چاہتے ہیں کہ انھیں روہنگیا مسلمان کے طور پر پہچان دے دی جائے۔ برسوں بعد کرائی جانے والی نئی مردم شماری سے مسلمانوں سمیت تمام قومیتوں کے بارے میں تازہ اعدادوشمار میسر آئیں گے اور روہنگیا مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کو اس سے فائدہ پہنچے گا، لیکن یہ سوال عالمی سیاسی حلقوں میں گردش کررہا ہے کہ کیا واقعی میانمار کے مسلمان کچھ اچھا دیکھ پائیں گے؟



میانمار کے انتہاپسند بدھوں نے گذشتہ کئی سال سے مسلمانوں کو جس ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا ہے، اس نے ملک کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب مسلمان شدید احساس عدم تحفظ کا شکار ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی شناخت بھی عزیز ہے اور وہ تمام مشکلات کے باوجود چاہتے ہیں کہ انھیں مسلمان ہی سمجھا اور جانا جائے۔ اب تو حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے عارضی مہاجر کیمپوں پر بھی یلغار کی جارہی ہے اور انھیں اس خطے سے مٹانے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔

حالت یہ ہے کہ سفر کے دوران، بازاروں میں چلتے پھرتے یا اپنے معمولات میں مشغول مسلمانوں کو بربریت کا نشانہ بنانے کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ میانمار پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ماہرین و مبصرین کو خدشات لاحق ہوگئے ہیں کہ قومی سطح پر مردم شماری سے معاملات مزید بگڑ جائیں گے، بہت سے مسلمان جو خوش قسمتی سے زندہ بچ گئے ہیں، ظلم و ستم کی داستانوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے جن کے دوران ان کے پیارے چھین لیے گئے۔

مردم شماری کے حق میں کھڑے ہونے والے مسلمانوں نے اپنے ان بہن بھائیوں کو بھی میانمار چھوڑنے سے روکا ہے جو کشیدہ حالات کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑ کر کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو کشتیوں سے اتارا گیا، اس بارے میں حالات سے خوفزدہ ہوکر اچھے مستقبل کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر جانے والوں نے بتایا کہ عین روانگی کے وقت ہمارے دیگر مسلمان بھائیوں نے ہمیں روکا اور کہا کہ مردم شماری انتہائی اہم معاملہ ہے اور ہمیں اس میں لازمی شرکت کرنا ہوگی۔ اگر ہم مردم شماری میں شریک نہیں ہوئے تو ہمارا حال پوچھنے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔



4جنوری1948 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے میانمار (سابقہ برما) میں مسلمان اب بھی غلاموں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ برما کی ممتاز سیاسی شخصیت اور امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی بھی مسلمانوں کی حالت زار کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہ کرسکیں۔ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے انفرادی سطح پر کوششیں کی ہوں اور مسلمانوں پر روا مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہو لیکن روہنگیا مسلمانوں کے بدترین حالات زندگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا۔ گذشتہ کچھ عرصے سے روہنگیا مسلمانوں کے مسلسل قتل عام پر بھی ان کی خاموشی نے مختلف حلقوں میں سوال اٹھائے تھے کہ ایسا کیوں ہے؟ چند روز قبل آنگ سان سوچی نے ایک انٹرویو میں میانمار کی مجموعی سیاسی صورت حال کے حوالے سے کہا،''تشدد کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک میں قانون کی حکم رانی ہو۔

میں اس بارے میں لوگوں سے مسلسل بات کرتی رہتی ہوں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاید عوام ہی اس میں سنجیدہ نہیں۔ میرے نزدیک قانون کی حکم رانی اہم ترین چیز ہے، لیکن ایسا ہر کوئی نہیں سوچتا۔'' آنگ سان سوچی کے مطابق راکھین ریاست کی موجودہ صورت حال کا اہم سبب بھی قانون کی حکم رانی نہ ہونا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے موثر اور جامع اقدامات کرے جن کی وجہ سے تشدد کے بدترین واقعات کا سدباب ہوسکے۔ اسی طرح قانون کی بالادستی نظر آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں جہاں مختلف برادریوں اور طبقات کے درمیان کشیدگی ہو تو ارباب اختیار کو پہلی ترجیح قیام امن کو دینی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا اصل حل کیا ہوسکتا ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ قانون کی حکم رانی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے سب سے زیادہ مخالف اراکان طبقے کے لوگ ہیں، جن میں اکثریت بدھوں کی ہے، وہ کسی طور مسلمانوں کو خوش نہیں دیکھنا چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر وقت کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بنائیں اور ان پر عمل بھی کریں۔ ان کی اس اسلام اور مسلمان دشمنی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ روہنگیا مسلمان یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ بدھوں کی اہم عبادت گاہ ''مراک یوMrauk U'' کسی زمانے میں مسجد تھی۔ اس دعوے نے بھی بدھوں کو مسلمانوں کا پکا دشمن بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اپنی انتہاپسندی اور شدت پسندی کے تمام ہتھیار مسلم آبادی پر آزمانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ ایک ہی رات میں میانمار سے تمام مسلمانوں کو نکال دیں یا ختم کردیں۔ بدھ انتہا پسندوں کی بہیمانہ کارروائیوں نے ہی معاملات کو بگاڑ دیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی سرپرستی کی وجہ سے بھی انتہاپسند بدھ کھل کر موت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔



روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اراکان پروجیکٹ کے کرس لیوا نے میانمر کی ابتر صورت حال اور مسلمانوں کے تحفظات و توقعات کے حوالے سے کہا کہ قومی مردم شماری کے وقت قتل و غارت گری کی تازہ وارداتیں ہر ایک کے لیے انتہائی تشویش ناک ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب میانمار میں اعلان شدہ مردم شماری کو مسلمان شاید اپنی بقا کا اہم موڑ قرار دے رہے ہیں، تو دوسری جانب مسلمانوں کے مخالفین کو یہ ڈر ہے کہ مردم شماری کے اعدادوشمار کی روشنی میں مسلمانوں کو کہیں کچھ حقوق نہ مل جائیں۔ ایسا ہونا بعید از قیاس ہے کیوںِکہ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے مسائل حل کرنے اور انھیں ان کے بنیادی حقوق دینے میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اگر میانمار کی حکومت اپنے عوام اور مسلمانوں کے دکھ درد کا اندازہ کرپاتی تو اتنے بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہی نہیں ہوتا۔

عالمی ادارے انٹرنیشنل کرائسز گروپ International Crisis Group (ICG)کے حالیہ سروے میں بھی کہا گیا ہے کہ میانمار میں گذشتہ چند برسوں سے جاری سیاسی کشیدگی اور مسلمانوں کے قتل عام کے پے درپے واقعات کے بعد مردم شماری کا فیصلہ ملک میں جاری کشیدگی اور خون خرابے کو بڑھاوا دینے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ قومی مردم شماری کے ذریعے پورے میانمار خاص طور پر راکھین ریاست میں حالات کو امن کی جانب لے جایا جائے۔ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مسلمانوں کو بھی اس پلیٹ فارم پر آنے کا موقع ملے۔ دوسری جانب انتہا پسند بدھوں نے روہنگیا مسلمانوں کو ہر حال میں اپنے زیردست رکھنے اور انھیں سیاسی و سماجی طور پر کچلنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ بہت سے انتہا پسند بدھ سیاسی راہ نما تو روہنگیا مسلمانوں کو الگ شناخت دینے کے بھی سخت مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روہنگیا کوئی گروپ نہیں بلکہ صرف ایک اصطلاح ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ میانمار کی حکومت کی جانب سے برسوں قبل ہونے والی مردم شماری میں بھی مسلمانوں کے خلاف اس طرح کارروائی کی گئی کہ ان کی آبادی کو اعدادوشمار کے برعکس کم دکھایا گیا۔



آبادی کے لحاظ سے میانمار میں 89 فی صد بدھ ازم کے ماننے والے ہیں، جب کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا تناسب 4,4 فی صد ہے، یہاں تقریباً ایک فیصد ہندو بھی بستے ہیں۔ برما کی آزادی کے بعد سے لے کر تاحال وہاں رہنے والے مسلمانوں کے حالات زندگی میں خون خرابے، حملوں اور مظالم وزیادتیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بھی اس سارے خونی کھیل میں انتہاپسند بدھوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ مختلف ادوار میں میانمار میں برسراقتدار آنے والی سول اور فوجی حکومتوں نے مسلمانوں پر سب سے بڑا ظلم تو انھیں ملک کی شہریت نہ دے کر کیا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو فلاحی کاموں کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ شاید حکم رانوں کو یہ ڈر ہے کہ مسلمان اپنے فلاحی کاموں اور بہتر رویے سے بدھوں کے بھی ایک طبقے میں اپنی جگہ بنالیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں کوشش کی جاتی رہی کہ روہنگیا کے مسلمانوں پر اتنے مظالم ڈھائے جائیں کہ وہ خود ہی تنگ آکر میانمار چھوڑدیں۔ اس کے علاوہ اگر حکومتوں کو لگتا ہے کہ انھیں مسلمانوں کے خلاف اپنے مذموم ارادوں میں مشکل پیش آرہی ہے تو وہ زورزبردستی سے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک کی جانب دھکیل دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کے قابل ہی نہ رہیں۔



میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار انتہائی افسوسناک ہے لیکن اس سے زیادہ قابل افسوس چیز عالم اسلام کا روہنگیا مسلمانوں پر ہر روز گزرنے والے سانحات پر خاموشی اختیار کرنا ہے۔ مسلم دنیا کا عام آدمی اس پر کرب میں بھی مبتلا ہے اور بڑے اسلامی ممالک کے رویے پر حیرت زدہ بھی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک اتحاد و یکجہتی کے ساتھ میانمار کے مسلمانوں کے لیے آواز بھی اٹھائیں اور ان کی مدد کے لیے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی اقدامات بھی کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں