سیلاب زدگان عالمی برادری اور امداد کی تقسیم
پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ وہ عالمی تباہی ہے جس کی قیمت پاکستان کے عوام ادا کررہے ہیں
ابھی 2005کے خوفناک زلزلے کے متاثرین اور 2010کے متاثرین سیلاب کی بحالی اور آبادکاری کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا تھا کہ حالیہ قیامت خیز بارشوں کے باعث تباہ کن سیلاب نے آ دبوچا۔
اگرچہ محکمہ موسمیات نے عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے طوفان کی آمد سے بہت پہلے آگاہ کردیا تھا لیکن ہمارے متعلقہ اداروں نے اپنی روایتی غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے۔ ہمارے میڈیا کا کردار لائق تحسین ہے کہ اْس نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا منظرنامہ پیش کرکے متعلقہ اداروں کی کوتاہی اور کاہلی کو بے نقاب کردیا۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے اِن اداروں کے ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی کرکے قوم کو آگاہ کیا جائے مگر تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
ہمارے میڈیا کو اِس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ اْس نے اِس صورتحال کی تشہیر کرکے ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف اندرونِ ملک کے فلاحی اداروں نے بلکہ اقوامِ متحدہ اور دنیا بھر کے امدادی اداروں نے سیلاب متاثرین کی بڑے پیمانہ پر دل کھول کر مدد کی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اپنی گوں نا گوں مصروفیات میں سے قیمتی وقت نکال کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس با نفسِ نفیس اصل صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بہت بڑے پیمانہ پر امداد کی ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تباہ کاری نہ صرف آج کا مسئلہ ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ آیندہ ایسی صورتحال کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ سنگین صورتحال پیش آسکتی ہے کیونکہ پاکستان گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا ہدف ہے۔گلوبل وارمنگ کا خطرہ ایک عرصہ سے تشویش کا موضوع ہے جس پر عالمی سطح پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ جاری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اْس خطہ میں واقع ہے جو گلوبل وارمنگ کا سب سے زیادہ نشانہ بنا ہوا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا سب سے کم حصہ اور اس کے ذمے دار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہیں۔
یہ بات قابل تعریف ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے دنیا بھر کی توجہ گلوبل وارمنگ کے سنگین مسئلہ کی جانب مبذول کرائی ہے اور پاکستان پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ہمارے گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں اور گرمی کی لہر 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکی ہے جو اسے کرہ ارض کا گرم ترین مقام بنا رہی ہے۔عالمی حدت کے تباہ کن اثرات سے آنے والے سیلاب کے سبب پاکستان کا ایک تہائی حصہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ وہ عالمی تباہی ہے جس کی قیمت پاکستان کے عوام ادا کررہے ہیں۔اب تک پورے پاکستان میں پچھلے تیس سال کی نسبت 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جب کہ سندھ میں اِس کی شرح 465 فیصد اور بلوچستان میں 437 فیصد رہی ہے۔
ملک بھر میں مرد، خواتین اور بچوں سمیت 1325 افراد لقمہ اجل بنے۔ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں 16 لاکھ 88 ہزار گھر، 246 رابطہ پل، 5 ہزار 735 کلومیٹر پر محیط سڑکیں اور 7 لاکھ 50 ہزار مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔
اوّل یہ کہ ہمارے تمام متعلقہ ادارے انتہائی چوکس اور الرٹ رہیں تاکہ ہنگامی صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں اور تمام ممکنہ اقدامات کو بروئے کار لایا جاسکے اور ناگزیر نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔پشتوں، پلوں اور بندوں کو مناسب حد تک بلند اور مضبوط سے مضبوط تر رکھا جائے۔
نشیبی علاقوں میں تعمیرات کی تعمیر کو روکا جائے اور دیگر ممالک کے تجربہ سے اس سلسلے میں فائدہ اٹھایا جائے۔مثلاً رومانیا نے باقاعدہ موسمیاتی حکمت ِ عملی تیار کی اور ایک منصوبہ بنایا جس سے اس کو خاطر خواہ فائدہ ہوا۔دوسری مثال میکسکو کی ہے جس نے ایک تعلیم یافتہ افرادی قوت کی مدد سے موسمیاتی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ایک ایکشن پلین مرتب کیا،کیونکہ مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے طوفانوں اور سیلابوں کے امکانات نہ صرف موجود ہیں بلکہ اْن میں اضافہ ہونے کے خدشات موجود ہیں ۔
اس لیے ضروری ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ایک موثر ادارہ قائم کیا جائے جو جدید ترین ٹیکنالوجی اور حکمت عملی سے لیس ہو۔علاوہ ازیں ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لیے رضاکاروں کو تربیت دی جائے اور اْن کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جیسا کہ سابق صدر ایوب خان کے دورِ حکمرانی میں ہوا کرتا تھا۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بیرونی ممالک اور اداروں کی مدد سے ایک خصوصی فنڈ قائم کیا جائے اور اسے اخوت جیسے قابلِ اعتبار ادارے کی نگرانی میں رکھا جائے تاکہ سو فیصد ایمانداری، دیانت اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔