اٹک جیل میں ملاقاتی خواتین کو ہراساں کرنے سمیت بدترین جرائم کا انکشاف

صوبائی انٹیلی جنس سینٹر کی رپورٹ میں سپرنٹنڈنٹ سمیت 8 اہل کاروں کے مبینہ رشوت خوری میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے

جیل میں منشیات کی خرید و فروخت عام ہے (فوٹو فائل)

سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی کےبعد ڈسڑکٹ جیل اٹک کے حوالے سےبھی صوبائی انٹیلی جنس سینٹر محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ سامنے آگئی، جس میں ملاقاتی خواتین کو ہراساں کرنے سمیت کئی دیگر بدترین جرائم ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی انٹیلی جنس سینٹر کی خصوصی رپورٹ میں ڈسڑکٹ جیل اٹک میں ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے علاوہ جیل سپرنٹنڈنٹ ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 8 اہل کاروں کے مبینہ رشوت خوری میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جیل میں اسیر منشیات فروش جن پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں، خواتین کے ذریعے منشیات جیل میں منگواتے ہیں۔ منشیات جیل کی کینٹین پر منگوائی جاتی ہے، جسے جیل کا اہلکار وہاں سے اندر پہنچاتا ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جیل کےاندر منشیات فروشی میں ملوث عناصر اس قدر بااثر ہیں کہ وہ بے خوف ہوکر دھڑلے سے کام کرتے ہیں۔

جیل میں ہر قسم کی منشیات مہنگے داموں دستیاب ہے جب کہ لنگر خانے پر بھی رشوت لی جاتی ہے، جہاں تقریباً 100 اسیران تعینات کیے گئے ہیں، مگر 70 ایسے ہیں جو 5 ہزار فی کس ماہانہ دے کر مشقت نہیں کرتے اور ان کی جگہ غریب اسیران سے مشقت کروائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک اہلکار نے لنگر خانے پر رشوت وصولی سے انکار کرکے خود کو تبدیل بھی کروا لیا ہے۔


انٹیلی جنس سینٹر کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جیل میں چند ادویات ہی دی جاتی ہیں۔ دیگر ادویہ کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے لکھوا کر باہر سے منگوائی جاتی ہیں، غریب اسیران کو سہولت میسر نہیں۔ جیل میں اسیران سے ملاقات کے لیے دن مقرر ہیں، تاہم ملاقاتی کی حیثیت دیکھ کر 500 سے 2 ہزار روپے وصول کرکے کسی بھی دن ملاقات کروادی جاتی ہے جب کہ صاحبِ ثروت افراد 10 ہزار روپے تک دے کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرےمیں روبرو ملاقات کرسکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عام اسیران کو جیل مینوئل کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے، تاہم جیل کے باہر سے ایک ہزار روپے میں پسند کا ناشتہ، 5 ہزار روپے میں چکن کڑاہی اور 10 ہزار روپے میں مٹن کڑاہی فراہم کی جاتی ہے۔ منشیات مقدمے کا سزا یافتہ قیدی ماہانہ 50 ہزار روپے دے کر جیل کا لباس نہ پہننے و دیگر سہولیات لینے میں خودکفیل ہے۔

خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قتل کے جرم میں ایک پولیس اہلکار بھی 30 ہزار ماہانہ دے کر سہولیات سے مستفید ہورہا ہے۔ جس قیدی کو صاحب ثروت دیکھتے ہیں، الزامات عائد کردیے جاتے ہیں، جب 6 سے 7 ہزار ماہانہ دینا شروع کردے تو پھر گھومنے پھرنے کی آزادی دے دی جاتی ہے۔

جیل میں منشیات کے ریکارڈ یافتہ اسیران کے بار بار قید ہونے کی وجہ سے تعلقات بن چکے ہیں، وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ڈسڑکٹ جیل میں مذکورہ معاملات پر اعلیٰ سطح کی انکوائری کروائی جائے ۔ نیز جیل میں ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کی تمام ترذمے داری خواتین جیل اسٹاف کی ہونی چاہیے۔
Load Next Story