سوئیڈش سائنس دان نے طب کا نوبل انعام اپنے نام کرلیا
سوانتے پابو کو یہ انعام معدوم ہوجانےوالے انسانوں کے جینوم اور انسانی ارتقاء کے حوالے سےکی جانےوالی دریافتوں پر دیا گیا
سوانتے پابو (تصویر: گیٹی امیج)
سوئیڈن کے سوانتے پابو نے فزیولوجی یا میڈیسن کے میدان میں اس سال کا نوبل انعام اپنے نام کرلیا۔
نوبل کمیٹی کے مطابق سوئیڈش سائنس دان کو یہ انعام معدوم ہوجانے والے انسانوں کے جینوم اور انسانی ارتقاء کے حوالے سے کی جانے والی دریافتوں پر دیا گیا ہے۔
پیر کے روز نوبل کمیٹی کا کہنا تھا کہ اپنی تحقیق کے ذریعے سوانتے پابو نے آج کے انسان کی معدوم قسم نِینڈرتھل کے جینوم کو ساخت دے کر بظاہر ناممکن دِکھنے والی چیز کو ممکن کر دِکھایا۔ انہوں نے ڈینیسووا نامی انسانی قسم کی دریافت بھی کی جو اس سے قبل نامعلوم تھی۔
میکس پلینک انسٹیٹیوٹ کے شعبہ جینیات کے ڈائریکٹر سوانتے پابو کے متعلق جیوری نے بتایا کہ انہوں نے 70 ہزار قبل معدوم انسانی قسم سےموجودہ نوعِ انسانی میں افریقا سے مشرقِ وسطیٰ ہجرت کرجانے کے بعد ہونے والی جینیاتی منتقلی بھی دریافت کی۔
جیوری کا کہنا تھا کہ دورِ حاضر کے انسانوں میں جینز کی یہ قدیم منتقلی آج بھی مطابت رکھتی ہے، جس کی مثال ہمارے مدافعتی نظام کا انفیکشنز پر دِکھایا جانے والا ردِ عمل ہے۔
سوانتے پابو کی اس تحقیق سے سائنس کی ایک نئی شاخ ' پیلیوجینومکس' طلوع ہوئی ہے۔ معدوم نوعِ انسانی اور موجودہ انسانوں کے درمیان فرق کرنے والے تمام جینیاتی تفرقات کو سامنے لا کر ان کی دریافتوں نے اس تحقیق کو بنیاد فراہم کی جو یہ جاننے کے لیے کی جارہی ہے کہ ہمیں کیا چیز منفرد انسان بناتی ہے۔
اپنے کیریئر کی ابتداء میں سوانتے نِینڈرتھلز کے ڈی این اے کا مطالعہ کرنے کے لیے جدید جینیاتی تکنیک کے استعمال کے امکان پر توجہ تھی۔ تاہم، انہیں انتہائی تکنیکی مسائل کا جلد ہی احساس ہوگیا کیوں کہ وقت کے ساتھ ڈی این اے کیمیائی اعتبار سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور چھوٹے ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ہزاروں سال بعد ڈی این اے انتہائی قلیل مقدار میں بچتے ہیں اور جو بچتے ہیں بیکٹیریا اور دورِ حاضر کے انسان سے متاثر ہوتے ہیں۔
پوسٹ ڈاکٹرل طلب علم کی حیثیت سے انہوں نے ارتقائی حیاتیات(ایوولوشنری بائیولوجی) کو بدل کر رکھ دینے والے ایلن وِلسن کےساتھ نِینڈرتھلز کے ڈی این اے کے مطالعے کے لیے طریقے وضع کرنے شروع کیے۔
1990 میں سوانتے بطور پروفیسر یونیورسٹی آف میونیخ کا حصہ بن گئے اور قدیم ڈی این اے پر اپنا کام جاری رکھا۔ انہوں نے نِینڈرتھل کے مائیٹوکونڈریا کے ڈی این اے کے تجزیے فیصلہ کیا۔ مائیٹوکونڈریا کسی خلیے کا ایک ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنا ڈی این اے رکھتا ہے۔
مائیٹوکونڈریل جینوم چھوٹا ہوتا ہے اور خلیے میں جینیاتی معلومات کا ایک چھوٹا سا حصہ رکھتا ہے لیکن یہ ہزاروں نقول میں موجود ہونے کی وجہ سے کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اپنے جدید طریقہ کار سے سوانتے نے 40 ہزار سال پُرانی ہڈی کے ٹکڑکے کے مائیٹوکونڈریل ڈی این اے کے حصے کوساخت دی۔ لہٰذا پہلی بار ہمیں معدوم انسانوں کی ساخت تک رسائی ہوئی۔موجودہ انسانوں اور چِمپینزیوں سے موازنے سے معلوم ہوا کہ نِینڈرتھلز جینیاتی اعتبار سے مختلف تھے۔
ڈینیسووا کی دریافت
2008 میں سائبیریا کے جنوبی حصے میں واقع ڈینیسووا غار سے 40 ہزار سال پُرانی انگلی کی ہڈی کا ایک ٹکڑا ملا۔ ہڈی پر موجود ڈی این اے حیران کن طور پر محفوظ تھے، جس کو سوانتے کی ٹیم نے ترتیب دی۔
موازنہ کرنے پر ڈی این اے کی یہ ساخت، نِینڈرتھلز اور موجودہ انسانوں کے ڈی این اے سے منفرد نکلی، جس کے بعد ٹیم کی ایک نئی نوعِ انسانی کی دریافت سامنے آئی جس کو ڈینیسووا کا نام دیا گیا۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ڈی این اے کی ساخت کے موازنے سے یہ معلوم ہوا کہ ڈینیسووا اور موجودہ انسانوں کے درمیان بھی دی این اے کی منتقلی وقوع پزیر ہوئی۔ یہ تعلق سب سے پہلے میلینیشیا اور دیگر جنوب مشرقی ایشیاء کے حصوں میں دیکھا گیا جہاں لوگوں میں 6 فیصد تک ڈینیسووا ڈی این اے ہے۔
سوانتے پابو کی دریافتیں انسان کی ارتقائی تاریخ کے متعلق نیا فہم سامنے لاتی ہیں۔