زرعی ایمرجنسی
ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی پانی کی وجہ سے رواں برس زرعی پیداوار شدید متاثر ہو گی
گزشتہ چند روز گاؤں میں گزرے لیکن ماحول بہت سوگوار تھا، میرے ماموں کا انتقال ہو گیاتھا۔فاتحہ خوانی میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملاقات رہی۔ سرسبز پہاڑوں میں گھری وادی سون کی بارانی زمینیں بارشوں سے سیراب ہونے کے لیے اﷲ کی رحمت کی مرہون منت ہیں۔
پہاڑی علاقوں کے کاشتکار محدود قطعات زمین کے مالک ہوتے ہیں اور اگر قسمت یاوری کرے اور سیکڑوں فٹ کی گہرائی سے پانی نکالنے کی کوئی سبیل ہو جائے تو بارانی کاشتکاروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کسانوں کے مسائل نہری علاقوں کے کسانوں سے قدرے مختلف ہیں لیکن ایک قدر ضرور مشترک ہے کہ زرعی مصنوعات کی گرانی نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔
گاؤں کے سادہ اور نیک نیت احباب ہم شہروں میں رہنے والوں کو بہت باخبر سمجھتے ہیں اور اگر کسی کا تھوڑا بہت تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو تو اس سے یہ توقع اور امید باندھ لی جاتی ہے کہ ان صاحب کو تو ملک اور دنیا کی تمام خبروں کاعلم ہو گا اور حکومت کی اصل کارکردگی اور کمزوریوں سے بھی آگاہ ہوں گے۔
اسی امید کے سہارے ان کے بے شمار سوالات ہوتے ہیںجن میں سب سے بڑا سوال یہ آرہا ہے کہ حکومت کاشتکاروں کے لیے کسی ایسے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیوں نہیں کرتی جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور ملکی ضروریات کو اپنے ہاں زرعی پیداوار کو بڑھا کر پورا کیا جا سکے اور جو زرمبادلہ بیرون ملک سے مہنگی اجناس کی درآمد پر خرچ کیا جاتا ہے، وہی سبسڈی کی صورت میں اپنے کاشتکاروں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ امداد زرعی پیداوارمیں اضافے کا باعث بن جائے گی اور کاشتکاروں کے گلے شکوے بھی دور ہو جائیں گے۔
پاکستان میں اس وقت دنیا کی مہنگی ترین کیمیائی کھاد ہے، حیرت انگیز حد تک مہنگی کیڑے مار ادویات ہیں، بیج بھی مہنگائی کی حدوں کو چھو کر آگے بڑھ گئے ہیں جب کہ بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں کی گرانی سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں۔
یہ وہ بنیادی اشیاء ہیں جن کی مدد سے کھیت آباد ہوتے ہیں اورزرعی پیداوار حاصل کی جاتی ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کسی حکومت یا حکمران نے اس پر قابل ذکر توجہ نہیں دی، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ہمارے زرعی ملک میںکاشتکار یا زمیندار حکمران کم ہی آئے ہیں ۔
صوبہ پنجاب میں ایک طویل مدت تک صنعتکاروں کی حکومت رہی 'سب سے زرخیز زمینیں بھی پنجاب کی ہیں نہروں کا جال بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کر پا رہے جب کہ ہمارے ہمسائیہ ملک میں مشرقی پنجاب اور ہریانہ میں کاشتکاروں کو ہر ممکن سہولتیں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی پیداوار بھی ہم سے زیادہ ہے اور جنس کی قیمت بھی مناسب ہے۔ ہمارے ہاں جب کسی زرعی جنس کی قلت ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہمسائیہ ملک کی طرف ہی نظر اٹھتی ہے جو ایک فطری امر ہے ۔
بات زرعی اجناس کی قلت اور گرانی سے شروع کی تھی جس کے متعلق گاؤں کے چوپالوں اور بیٹھکوں میں گفتگو اور بحثیں ہورہی ہیں۔ ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں نے زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ ڈیزل سے ٹریکٹر چلتا ہے ، زرعی مشینری اور کھیت سے منڈی تک باربرداری بھی ڈیزل کی مرہون منت ہے۔
ڈیزل اوربجلی سے ٹیوب ویل بھی چلتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں کاشتکاروں کوہر طرح کی زرعی مشینری کی سہولت دستیاب ہے لیکن ان آلات کو چلانے کے لیے مہنگا تیل استعمال ہوتا ہے جو پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ کئی روز سے کسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ان کے دو ہی مطالبات سامنے آئے ہیں جن میں بجلی کے فکس فی یونٹ نرخ اور کیمیائی کھادوں کی قیمتو ں میں کمی شامل ہے۔
خبریں یہ بتارہی ہیں کہ اقتدار کے سب سے بڑے ایوان سے ان مجبور اور پریشان حال کسانوںکے مطالبات پر شروع میں تو کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن جب انھوں نے بڑے گھر کی گھنٹی بجانے کی کوشش کی تو چند ایک رہنماؤں نے ان سادہ دل اور جفا کش پاکستانیوں کے کھردرے ہاتھوں سے ہاتھ ملائے اور وزیر اعظم پاکستان نے ان کسانوں کے نمایندوں کو اپنے بڑے گھر میں بلا لیا ہے۔
میں ٹیلی ویژن پر کسانوں کے نمایندوں کے بیانات دیکھ رہا تھا، ان کے ارادے مصمم ہیں اور وہ اپنے مطالبات جائز ہیں۔دیکھتے ہیں کہ صنعتکار وزیر اعظم کاشتکار بھائیوں کے مطالبات کو کس طرح سمجھتے اور ان کے حل کے لیے کیا احکامات دیتے ہیں۔
ویسے تو ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی پانی کی وجہ سے رواں برس زرعی پیداوار شدید متاثر ہو گی اور آیندہ چند ماہ بعد اجناس کی شدید قلت کا خدشہ نہیں بلکہ یقین ظاہر کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی محسوس کی جارہی کہ حکومت ملک بھر میں زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرے، کسانوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں فوری کمی کی جائے ،کھادوں کے نرخوں کو کنٹرول اور کسانوں کو ڈیزل کی فراہمی کے لیے کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے سستا ڈیزل صرف کسانوں کو ہی دستیاب ہو۔ حکوتیں چاہئیں تو کیا نہیں کر سکتیں، بس تھوڑی توجہ اور درد دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔
پہاڑی علاقوں کے کاشتکار محدود قطعات زمین کے مالک ہوتے ہیں اور اگر قسمت یاوری کرے اور سیکڑوں فٹ کی گہرائی سے پانی نکالنے کی کوئی سبیل ہو جائے تو بارانی کاشتکاروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کسانوں کے مسائل نہری علاقوں کے کسانوں سے قدرے مختلف ہیں لیکن ایک قدر ضرور مشترک ہے کہ زرعی مصنوعات کی گرانی نے سب کو پریشان کررکھا ہے۔
گاؤں کے سادہ اور نیک نیت احباب ہم شہروں میں رہنے والوں کو بہت باخبر سمجھتے ہیں اور اگر کسی کا تھوڑا بہت تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو تو اس سے یہ توقع اور امید باندھ لی جاتی ہے کہ ان صاحب کو تو ملک اور دنیا کی تمام خبروں کاعلم ہو گا اور حکومت کی اصل کارکردگی اور کمزوریوں سے بھی آگاہ ہوں گے۔
اسی امید کے سہارے ان کے بے شمار سوالات ہوتے ہیںجن میں سب سے بڑا سوال یہ آرہا ہے کہ حکومت کاشتکاروں کے لیے کسی ایسے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیوں نہیں کرتی جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور ملکی ضروریات کو اپنے ہاں زرعی پیداوار کو بڑھا کر پورا کیا جا سکے اور جو زرمبادلہ بیرون ملک سے مہنگی اجناس کی درآمد پر خرچ کیا جاتا ہے، وہی سبسڈی کی صورت میں اپنے کاشتکاروں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ امداد زرعی پیداوارمیں اضافے کا باعث بن جائے گی اور کاشتکاروں کے گلے شکوے بھی دور ہو جائیں گے۔
پاکستان میں اس وقت دنیا کی مہنگی ترین کیمیائی کھاد ہے، حیرت انگیز حد تک مہنگی کیڑے مار ادویات ہیں، بیج بھی مہنگائی کی حدوں کو چھو کر آگے بڑھ گئے ہیں جب کہ بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں کی گرانی سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں۔
یہ وہ بنیادی اشیاء ہیں جن کی مدد سے کھیت آباد ہوتے ہیں اورزرعی پیداوار حاصل کی جاتی ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کسی حکومت یا حکمران نے اس پر قابل ذکر توجہ نہیں دی، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ہمارے زرعی ملک میںکاشتکار یا زمیندار حکمران کم ہی آئے ہیں ۔
صوبہ پنجاب میں ایک طویل مدت تک صنعتکاروں کی حکومت رہی 'سب سے زرخیز زمینیں بھی پنجاب کی ہیں نہروں کا جال بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کر پا رہے جب کہ ہمارے ہمسائیہ ملک میں مشرقی پنجاب اور ہریانہ میں کاشتکاروں کو ہر ممکن سہولتیں مل رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی پیداوار بھی ہم سے زیادہ ہے اور جنس کی قیمت بھی مناسب ہے۔ ہمارے ہاں جب کسی زرعی جنس کی قلت ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہمسائیہ ملک کی طرف ہی نظر اٹھتی ہے جو ایک فطری امر ہے ۔
بات زرعی اجناس کی قلت اور گرانی سے شروع کی تھی جس کے متعلق گاؤں کے چوپالوں اور بیٹھکوں میں گفتگو اور بحثیں ہورہی ہیں۔ ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں نے زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ ڈیزل سے ٹریکٹر چلتا ہے ، زرعی مشینری اور کھیت سے منڈی تک باربرداری بھی ڈیزل کی مرہون منت ہے۔
ڈیزل اوربجلی سے ٹیوب ویل بھی چلتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں کاشتکاروں کوہر طرح کی زرعی مشینری کی سہولت دستیاب ہے لیکن ان آلات کو چلانے کے لیے مہنگا تیل استعمال ہوتا ہے جو پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
گزشتہ کئی روز سے کسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے وفاقی دارالحکومت میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ان کے دو ہی مطالبات سامنے آئے ہیں جن میں بجلی کے فکس فی یونٹ نرخ اور کیمیائی کھادوں کی قیمتو ں میں کمی شامل ہے۔
خبریں یہ بتارہی ہیں کہ اقتدار کے سب سے بڑے ایوان سے ان مجبور اور پریشان حال کسانوںکے مطالبات پر شروع میں تو کوئی توجہ نہیں دی گئی لیکن جب انھوں نے بڑے گھر کی گھنٹی بجانے کی کوشش کی تو چند ایک رہنماؤں نے ان سادہ دل اور جفا کش پاکستانیوں کے کھردرے ہاتھوں سے ہاتھ ملائے اور وزیر اعظم پاکستان نے ان کسانوں کے نمایندوں کو اپنے بڑے گھر میں بلا لیا ہے۔
میں ٹیلی ویژن پر کسانوں کے نمایندوں کے بیانات دیکھ رہا تھا، ان کے ارادے مصمم ہیں اور وہ اپنے مطالبات جائز ہیں۔دیکھتے ہیں کہ صنعتکار وزیر اعظم کاشتکار بھائیوں کے مطالبات کو کس طرح سمجھتے اور ان کے حل کے لیے کیا احکامات دیتے ہیں۔
ویسے تو ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی پانی کی وجہ سے رواں برس زرعی پیداوار شدید متاثر ہو گی اور آیندہ چند ماہ بعد اجناس کی شدید قلت کا خدشہ نہیں بلکہ یقین ظاہر کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی محسوس کی جارہی کہ حکومت ملک بھر میں زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرے، کسانوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں فوری کمی کی جائے ،کھادوں کے نرخوں کو کنٹرول اور کسانوں کو ڈیزل کی فراہمی کے لیے کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے سستا ڈیزل صرف کسانوں کو ہی دستیاب ہو۔ حکوتیں چاہئیں تو کیا نہیں کر سکتیں، بس تھوڑی توجہ اور درد دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔