معیشت اور سیاسی استحکام
پاکستان کی معیشت پچھلے چار پانچ برس سے جس بحران سے دوچار چلی آ رہی ہے
پاکستان کی معیشت پچھلے چار پانچ برس سے جس بحران سے دوچار چلی آ رہی ہے' ایسا شاید گزری دو دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان خارجہ محاذ پر بھی تنہائی کا شکار ہوا اور معاشی تنزلی کا بھی شکار ہو گیا۔
اس صورت حال کی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس حد تک بگڑے کہ نوبت جنگ کے خطرات تک پہنچ گئی' اس دوران ہی کورونا وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پاکستان بھی اس کی زد میں آ گیا۔
کورونا وباء نے دو سال تک عالمی معیشت کو منجمد رکھا اور اسی طرح پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے' بہرحال پاکستان کی معیشت کورونا وباء کے خطرات سے نکلنے میں کسی حد کامیاب ہو گئی ہے لیکن خارجہ پالیسی کی بے سمتی کی وجہ سے پاکستان کے امریکا اور یورپی یونین سے تعلقات میں سردمہری آ گئی' یہی نہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی تعلقات میں ٹھہراؤ دیکھنے میں آیا۔
اس صورت حال کے اثرات عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں پر بھی پڑے' اسی دوران ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا' یوں ان تمام عوامل نے مل کر پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا' صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں شروع ہو گئیں' جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک سری لنکا دیوالیہ ہوا تو خطرات زیادہ بڑھتے نظر آئے' بہرحال موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
پاکستان نے امریکا' یورپی یونین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو زیادہ بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس کے مثبت اثرات نظر آئے' آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے اور معاہدہ ہو گیا۔ اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع مل گیا اور ملک کے اندر بہتری کا آغاز ہونے کی امید پیدا ہوئی۔ اب پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے واضح اشارے سامنے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے، جب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے تو انھوں نے بڑی محنت کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو ہینڈل کیا اور معاہدہ کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ گو اس کی پاکستان کے عوام کو بھاری قیمت بھی چکانی پڑی کیونکہ حکومت کو آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرنا پڑا' اب وزارت خزانہ کی ذمے داریاں اسحاق ڈار کے کندھوں پر آگئی ہیں اور وہ ملکی معیشت کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے جا رہے ہیں۔
اب پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت سیاسی استحکام کی ہے' اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہو جائے گی۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی موجودہ قدر کو غیرحقیقی قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ڈالر کی قدر 200روپے سے بھی نیچے لائیں گے۔
ادھر اقوام متحدہ کی پاکستان کے لیے 800ملین ڈالر گرانٹ دینے کی نئی اپیل نے بھی ملکی معیشت پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگل اور بدھ کوبھی روپے کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ روپے کی قدر میں بتدریج استحکام سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی اور قرضوں کے حجم میں 1800ارب روپے کی کمی بھی ہوئی اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں مثبت سرگرمیاں دیکھنے میں آئی۔ سونے کے نرخ بھی کم ہوئے ہیں۔یہ سب مثبت اشارے ہیں۔
ادھر پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مقامی نمایندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا ہے کہ قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے کیے گئے پالیسی وعدے نافذ العمل رہیں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق انھوں نے برطانوی میڈیا کو بتایاکہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سپورٹ پروگرام کے تحت ساتویں اور آٹھویں جائزوں کے حصے کے طور پر کیے گئے پالیسی وعدے نافذ العمل رہیں گے جب کہ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کرنسی مارکیٹ کی قدر میں ہیر پھیر کرنے والے آٹھ بینکوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کر دی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ اب تک دو ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس بھی معطل کر چکے ہیں' بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ آگے بڑھے، اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ ایکشن ضرور لے گا اگر اسٹیٹ بینک کارروائی نہیں کرے گا تو وزارت خزانہ رجوع کرے گی، فنانشل سیکٹر کے بارے میں غیر سنجیدہ بات نہیں کرنا چاہتے ۔
پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے جو تباہی ہوئی ہے، اس کے حوالے سے عالمی برادری کا کردار خاصا بہتر رہا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اچھا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے اقوام عالم پاکستان میں ہونے والی تباہی سے آگاہ ہوئی اور انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہوا، انھیں اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سب صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کی وجہ سے ہوا ہے ۔
ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک ماحولیاتی آلودگی اور زہریلی گیسز کے اخراج کے ذمے دار ہیں اور وہ اس حوالے سے کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ حقائق اپنی جگہ رہے ، لیکن دنیا نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا اور پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھی۔عالمی مالیاتی اداروں نے بھی مثبت کردار ادا کیا، امریکا ، یورپی یونین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عوامی جمہوریہ چین، ترکی اور قطر نے بھی پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔
عالمی برادری اس کٹھن وقت میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے' اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی کی کامیابی کہا جا سکتا ہے لیکن اب سب سے بڑی ضرورت ملک کے اندر سیاسی استحکام کی ہے کیونکہ اس کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ابھی تک موجود ہے' عمران خان مسلسل احتجاج کی کال دے رہے ہیں'دوسری طرف یہ امر خوش آیند ہے کہ اسلام آباد میں جاری کسانوں کا احتجاج خوش اسلوبی سے ختم ہو گیا ہے' پاکستان میں اگر سیاسی استحکام آ جائے تو اس کے معیشت پر مزید اچھے اثرات پڑیں گے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے لیے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں' ان مواقعے سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے ' اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں 'ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں' سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔ملک میں گھیراؤ جلاؤ کی سیاست انتشار کے سوا کچھ نہیں دے گی' پاکستان کو معیشت کو بہتر بنانے اور ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان کی اشد ضرورت ہے' اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے انتظامی' لیگل اور جوڈیشل سسٹم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
قوانین میں ابہام اور ذومعنویت نے آئین کی عملداری کو بھی متاثر کیا ہے اور کریمینل جسٹس سسٹم کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ مبہم قوانین اور پیچیدہ ادارہ جاتی عمل ہے جس کی وجہ سے ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا' ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے میں لیڈر ہی لیڈر نظر آتے ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن اور کارکنوں کا کیڈر کہیں نظر نہیں آتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے اندر ہی جمہوریت نہیں ہوگی' سیاسی جماعتوں کا اپنا کوئی آئین اور ضابطہ نہیں ہو گا تو ان جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی ذہنی استعداد اور ترجیحات کیا ہوں گی' اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اس صورت حال کی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس حد تک بگڑے کہ نوبت جنگ کے خطرات تک پہنچ گئی' اس دوران ہی کورونا وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پاکستان بھی اس کی زد میں آ گیا۔
کورونا وباء نے دو سال تک عالمی معیشت کو منجمد رکھا اور اسی طرح پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے' بہرحال پاکستان کی معیشت کورونا وباء کے خطرات سے نکلنے میں کسی حد کامیاب ہو گئی ہے لیکن خارجہ پالیسی کی بے سمتی کی وجہ سے پاکستان کے امریکا اور یورپی یونین سے تعلقات میں سردمہری آ گئی' یہی نہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی تعلقات میں ٹھہراؤ دیکھنے میں آیا۔
اس صورت حال کے اثرات عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں پر بھی پڑے' اسی دوران ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا' یوں ان تمام عوامل نے مل کر پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا' صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں شروع ہو گئیں' جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک سری لنکا دیوالیہ ہوا تو خطرات زیادہ بڑھتے نظر آئے' بہرحال موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
پاکستان نے امریکا' یورپی یونین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو زیادہ بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا اور اس کے مثبت اثرات نظر آئے' آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے اور معاہدہ ہو گیا۔ اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع مل گیا اور ملک کے اندر بہتری کا آغاز ہونے کی امید پیدا ہوئی۔ اب پاکستان کی معیشت میں بہتری کے امکانات پیدا ہونے کے واضح اشارے سامنے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف کی معاشی ٹیم متحرک انداز میں کام کر رہی ہے اور اس کے اہداف واضح ہیں اور سمت بھی درست ہے، جب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ تھے تو انھوں نے بڑی محنت کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو ہینڈل کیا اور معاہدہ کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ گو اس کی پاکستان کے عوام کو بھاری قیمت بھی چکانی پڑی کیونکہ حکومت کو آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرنا پڑا' اب وزارت خزانہ کی ذمے داریاں اسحاق ڈار کے کندھوں پر آگئی ہیں اور وہ ملکی معیشت کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے جا رہے ہیں۔
اب پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت سیاسی استحکام کی ہے' اگر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو گیا اور عالمی مالیاتی اداروں کی عملی مدد اور دوست ملکوں کا تعاون ملنے میں کامیابی ہوئی تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہو جائے گی۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی موجودہ قدر کو غیرحقیقی قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ڈالر کی قدر 200روپے سے بھی نیچے لائیں گے۔
ادھر اقوام متحدہ کی پاکستان کے لیے 800ملین ڈالر گرانٹ دینے کی نئی اپیل نے بھی ملکی معیشت پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگل اور بدھ کوبھی روپے کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ روپے کی قدر میں بتدریج استحکام سے سرمایہ کاروں کی دلچسپی اور قرضوں کے حجم میں 1800ارب روپے کی کمی بھی ہوئی اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں مثبت سرگرمیاں دیکھنے میں آئی۔ سونے کے نرخ بھی کم ہوئے ہیں۔یہ سب مثبت اشارے ہیں۔
ادھر پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مقامی نمایندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا ہے کہ قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے کیے گئے پالیسی وعدے نافذ العمل رہیں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق انھوں نے برطانوی میڈیا کو بتایاکہ پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سپورٹ پروگرام کے تحت ساتویں اور آٹھویں جائزوں کے حصے کے طور پر کیے گئے پالیسی وعدے نافذ العمل رہیں گے جب کہ قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کرنسی مارکیٹ کی قدر میں ہیر پھیر کرنے والے آٹھ بینکوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کر دی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ اب تک دو ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس بھی معطل کر چکے ہیں' بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ آگے بڑھے، اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ ایکشن ضرور لے گا اگر اسٹیٹ بینک کارروائی نہیں کرے گا تو وزارت خزانہ رجوع کرے گی، فنانشل سیکٹر کے بارے میں غیر سنجیدہ بات نہیں کرنا چاہتے ۔
پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے جو تباہی ہوئی ہے، اس کے حوالے سے عالمی برادری کا کردار خاصا بہتر رہا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اچھا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے اقوام عالم پاکستان میں ہونے والی تباہی سے آگاہ ہوئی اور انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہوا، انھیں اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سب صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کی وجہ سے ہوا ہے ۔
ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک ماحولیاتی آلودگی اور زہریلی گیسز کے اخراج کے ذمے دار ہیں اور وہ اس حوالے سے کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ حقائق اپنی جگہ رہے ، لیکن دنیا نے پاکستان کے موقف کو تسلیم کیا اور پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھی۔عالمی مالیاتی اداروں نے بھی مثبت کردار ادا کیا، امریکا ، یورپی یونین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عوامی جمہوریہ چین، ترکی اور قطر نے بھی پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔
عالمی برادری اس کٹھن وقت میں پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے' اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی کی کامیابی کہا جا سکتا ہے لیکن اب سب سے بڑی ضرورت ملک کے اندر سیاسی استحکام کی ہے کیونکہ اس کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ابھی تک موجود ہے' عمران خان مسلسل احتجاج کی کال دے رہے ہیں'دوسری طرف یہ امر خوش آیند ہے کہ اسلام آباد میں جاری کسانوں کا احتجاج خوش اسلوبی سے ختم ہو گیا ہے' پاکستان میں اگر سیاسی استحکام آ جائے تو اس کے معیشت پر مزید اچھے اثرات پڑیں گے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے لیے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں' ان مواقعے سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے ' اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں 'ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں' سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔ملک میں گھیراؤ جلاؤ کی سیاست انتشار کے سوا کچھ نہیں دے گی' پاکستان کو معیشت کو بہتر بنانے اور ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور امن و امان کی اشد ضرورت ہے' اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے انتظامی' لیگل اور جوڈیشل سسٹم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
قوانین میں ابہام اور ذومعنویت نے آئین کی عملداری کو بھی متاثر کیا ہے اور کریمینل جسٹس سسٹم کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ مبہم قوانین اور پیچیدہ ادارہ جاتی عمل ہے جس کی وجہ سے ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا' ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے میں لیڈر ہی لیڈر نظر آتے ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن اور کارکنوں کا کیڈر کہیں نظر نہیں آتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے اندر ہی جمہوریت نہیں ہوگی' سیاسی جماعتوں کا اپنا کوئی آئین اور ضابطہ نہیں ہو گا تو ان جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی ذہنی استعداد اور ترجیحات کیا ہوں گی' اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔