توجہ کے مستحق بلدیاتی ادارے
بلدیاتی ادارے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے ادارے ہیں جو مسلسل بے توجہی کا شکار ہیں
جماعت اسلامی کراچی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے عوامی مفاد کا ایک فیصلہ جلد ہی کردیا کہ فیصلہ سنتے ہی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے مقررکیے گئے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سرکاری ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے جذبات میں آ کر استعفیٰ دے دیا کیونکہ انھیں یہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے سوا کراچی کی تمام سیاسی پارٹیوں اور عوامی حلقوں نے عدالت عالیہ کے فیصلے کو سراہا تھا جس کے نتیجے میں شہریوں کو کے الیکٹرک کے کندھوں پر رکھ کر چلائی گئی کے ایم سی کی گولی سے نجات ملی اور عدلیہ نے بلدیہ عظمیٰ کو کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس وصولی سے روک دیا۔
فاضل جسٹس حسن ظہیر رضوی نے قرار دیا کہ کے ایم سی یہ ٹیکس بجلی کے بلوں میں کیوں وصول کر رہی ہے تاکہ شہری یہ ٹیکس نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے۔
عدالت یہ ٹیکس ریکوری بجلی بلوں کے ذریعے کرائے جانے پر روکتی ہے کہ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل موجود ہے جو وصولی کرے۔ دھمکی کے طور پر مستعفی ہونے والے ایڈمنسٹریٹر عدالتی فیصلے سے اس لیے مایوس ہوئے کہ عدالتی فیصلہ نہ آتا تو بلدیہ کو سالانہ سوا تین ارب روپے اس جبری ٹیکس کے ذریعے وصول ہوتے۔
ملک کی سب سے بڑی بلدیہ کے اختیارات محدود رکھنے اور بلدیاتی اداروں کو آئین کی دفعہ A-140 کے تحت اختیارات نہ دیے جانے کی متعدد درخواستیں سالوں سے زیر التوا ہیں۔ کے پی صوبے میں جب بلدیہ اعلیٰ پشاور کے لیے پی ٹی آئی کا میئر منتخب نہ ہو سکا تھا تو وہاں کی پی ٹی آئی حکومت نے نو منتخب میئر کے چارج سنبھالنے سے قبل ہی بلدیہ پشاور سمیت کے پی کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کم کردیے تھے جس کے خلاف حکومت مخالف بلدیاتی نمایندوں نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن کرایا گیا تھا جس کی تکمیل میں صوبائی حکومتوں نے ایک سال کی تاخیر کے بعد بلدیاتی اداروں کو اختیارات محدود کرکے چارج دیا تھا اور ایک سال تک ملک بھر میں نو منتخب بلدیاتی عہدیداروں کے ہوتے ہوئے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو بلدیہ اداروں پر مسلط رکھا گیا تھا جو آئینی خلاف ورزی تھی جس پر کسی صوبے میں عدالت کی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
بلوچستان میں پہلے بلدیاتی الیکشن ہوئے مگر ایک سال سے زائد عرصے تک نومنتخب بلدیاتی عہدیداروں کو چارج نہیں دیا گیا اور بعد میں بلدیاتی عہدیداروں سے جان چھڑانے کے لیے بلوچستان کے بلدیاتی ادارے سب سے پہلے توڑ دیے گئے تھے۔
سب سے زیادہ ظلم پنجاب کے نومنتخب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ہوا کیونکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہوئے تھے اور اکثریت (ن) لیگ کے عہدیداروں کی تھی جب کہ پی ٹی آئی کی کامیابی معمولی تھی۔ 2018 میں پنجاب میں اکثریت (ن) لیگ کو ملی تھی مگر حکومت پی ٹی آئی کی بنوائی گئی تھی جس نے آتے ہی پنجاب کے بلدیاتی عہدیدار برطرف کرکے اپنے ایڈمنسٹریٹر مقررکردیے تھے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں جنھوں نے من مانے بلدیاتی نظام مسلط کیے تھے جنھیں آئین کے تحت اختیارات حاصل نہیں تھے۔ دونوں صوبوں میں پی پی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے اور دونوں صوبوں میں دونوں پارٹیوں نے حکومتی وسائل استعمال کرکے اکثریت حاصل کی تھی اس لیے وہاں بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت پوری کی تھی جب کہ پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں انتقامی طور پر (ن) لیگ کے تمام بلدیاتی عہدیدار برطرف کردیے تھے۔
پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے خاتمے کے بعد لاہور کے لارڈ میئر اور دیگر بلدیاتی عہدیداروں نے لاہور ہائی کورٹ میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لیے درخواستیں دیں جس پر عدالت نے حکومت پنجاب سے جواب مانگا مگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنے اس غیر آئینی اقدام کا جواب دینے کی بجائے ٹال مٹول کرتی رہی جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور دو سال بعد سپریم کورٹ نے حکومتی اقدام غیر قانونی قرار دے کر انھیں بحال کرنے کا حکم دیا مگر پی ٹی آئی حکومت نے کئی ماہ عمل نہکیا تو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دی گئی جس پر جب فیصلہ آیا تو بلدیاتی اداروں کی مدت میں دو تین ماہ باقی تھے۔
سپریم کورٹ نے دوبارہ بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیا تو حکومت نے آخری چند ہفتوں کے لیے بلدیاتی ادارے بحال کیے جو کوئی کام کرسکے نہ فنڈز ہونے کی وجہ سے کارکردگی دکھا سکے۔
پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے 2018 میں اقتدار میں آتے ہی بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈز روک دیے تھے جنھیں بعد میں ختم کردیا تھا مگر دو سال تک بلدیاتی عہدیداروں کے عوامی مسائل بڑھے اور منتخب بلدیاتی ادارے اپنی نصف مدت بھی پوری نہ کرسکے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی ہوا۔ کے پی میں بھی اختیارات کم کیے جانے کی درخواستیں زیر التوا ہیں جہاں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے 8 ماہ ہو چکے ہیں مگر کے پی حکومت انھیں چارج نہیں دے رہی۔
بلدیاتی ادارے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے ادارے ہیں جو مسلسل بے توجہی کا شکار ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر فوری عمل نہیں ہوتا جس پر کسی حکومت کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں ہوتا۔ آئینی خلاف ورزی کے باوجود اب تک کسی حکومت کو سزا نہیں ملی ۔