استعفے منظوری کیس پارلیمان کو نیچا دکھانے والی پٹیشن نہیں سنیں گے جسٹس اطہر من اللہ
جو آپ ڈائریکٹ نہیں کر سکتے وہ اس کورٹ کے ذریعے ان ڈائریکٹ کروانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمان کی بالادستی نیچا دکھانے والی کوئی پٹیشن نہیں سنیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کس ملک میں ہوتا ہے کہ کوئی کہے میری مرضی کے مطابق جاؤ تو آئین مانتے ہیں ورنہ نہیں مانتے۔
تحریک انصاف کے 10 ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے آئینی طریقے کے بغیر استعفے منظور کیے جانے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
پٹیشنرز کی جانب سے وکیل علی ظفر نے عدالت میں پیش ہوکر دلائل دیے کہ آرٹیکل 64 کے تحت پراسس کومکمل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہیں، کیا پارٹی نے ان کے خلاف ایکشن لیا ۔ اس پٹیشن کا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ پارٹی پالیسی ہے ؟ ۔پہلے یہ پٹیشنرز اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔ پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں، اس کے خلاف نہیں، جس پر عدالت نے سوال کیا کہ تو پھر یہ کیوں وہاں جانا چاہتے ہیں؟ پچھلی پٹیشن اس سے مختلف تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ سیاسی معاملات ہیں اور ان کے حل کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ یہ مطمئن کریں کہ یہ 10 ارکان پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں ۔ اگر یہ کیس ہے تو پھر ٹھیک ہے۔
سیاسی تنازعات دُور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے۔ آپ کو ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہییں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ اس کیس میں پٹیشنرز کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جینوئن استعفے جمع کروائے ۔ یہ اسپیکر کے پاس واپس جانے کا نہیں بلکہ صرف ٹیکنیکل ایشو ہے ۔
وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ پٹیشنرز نے اپنی مرضی سے جینوئن استعفے دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔ عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ آڈیو لیکس آئی ہیں کہ اسپیکر دوسری پارٹی ممبران کے ساتھ اس سے متعلق بات کر رہا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں ابھی ایم این ہیں کیونکہ ہم نے 123 استعفے دیے تھے جو اکٹھے منظور نہیں کیے گئے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے استعفے مشروط تھے اگر وہ اکٹھے تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر ہم ایم این اے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے، ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ کیا آپ کا مؤقف ہے کہ پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا؟ اگر ایسا ہے پھر تو آپ اب پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف یہ ارکان نہیں جا رہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ اسپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا ۔ کُل 123 ارکان نے استعفے دیے تھے، سب کو منظور ہونا چاہیے تھا۔آڈیو لیک میں سامنے آچکا کہ کیسے صرف 11ارکان کے استعفے منظور کیے گئے۔ ہم نے مشروط استعفے دیے تھے۔ ہمارا سیاسی مقصد تمام 123نشستیں خالی کرنا تھا۔ اگر ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ پارلیمنٹ کو مانتے نہیں دوسری طرف آپ کہتے ہیں ایک Formality کرنا چاہتے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے گی ۔ اگر یہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں تو یہ بیان حلفی جمع کرائیں۔ پھر عدالت ان کی پٹیشنز کو دیکھے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتیں 70 سال میں سیاسی معاملات میں بہت زیادہ ملوٹ رہی ہیں، جس کا اس ادارے کو نقصان بھی ہوا ۔ اگر آپ پارٹی پالیسی کے ساتھ جا رہے ہیں تو عدالت اس درخواست کو Entertain نہیں کرے گی۔ اگر تو آپ پارلیمنٹ واپس جانے کے لیے آئے ہیں تو پھر عدالت یہ کیس سنے گی۔ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ان کے استعفے جینوئن تھے تو پھر کیس غیر متعلقہ ہوجاتا ہے۔
وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت میں ان سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان 10 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے۔ ایک بار رکنیت بحال ہو پھر واپسی کے سوال پر جواب دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو جو عزت ملنی چاہیے وہ 70 سال میں نہیں دی گئی۔ اس ملک کے عوام نے انہیں پارلیمنٹ میں بھیجا ہے ۔ سیاسی معاملات کا حل پارلیمنٹ ہی میں ہے۔ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟۔ جب تک پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور نہیں ہوتے، ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں یا نہیں؟ یہ تو پی ٹی آئی کے رویے میں تضاد ہے۔ 11 لوگ نہیں پہلے باقی تو پارلیمنٹ چلے جائیں، سیاسی معاملات وہاں حل کریں ۔ سیاسی جماعت اپنے کنڈکٹ سے ثابت تو کرے ۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے ان 11 پٹیشنرز کے استعفے واپس ہو جائیں پھر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپسی کے حوالے سے سوچے گی۔ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور 11 ارکان کو نکال دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں۔ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں۔ پٹیشنرز اور سیاسی جماعت پارلیمنٹ جائیں، لیکن پہلے نیک نیتی تو ثابت کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک دفعہ پارلیمنٹ جائیں پھر یہ پٹیشن یہاں لے کر آئیں، ہم سنیں گے۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں انہوں نے نکال دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان 11 نہیں، میں باقی کی بات کر رہا ہوں، پارٹی نیک نیتی تو ثابت کرے۔ اگر یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کر رہے ہیں تو عدالت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو پارلیمنٹ ہی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز باتوں سے نہیں، آپ نے اپنے کنڈکٹ سے ثابت کرنی ہے۔ پٹیشنرز کیا چاہتے ہیں کہ عوام، جنہوں نے ان کو منتخب کیا، انہیں بغیر نمائندگی چھوڑ دیا جائے۔ یہ کورٹ آپ کے سیاسی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں کرے گی ۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اگر ان پٹیشنرز کے استعفے واپس ہو جائیں تو پارٹی پارلیمنٹ جانے سے متعلق پارٹی دیکھے گی۔ جب تک پٹیشنرز کے نوٹیفیکیشن معطل نہیں ہوں گے، تو یہ کیسے اسپیکر کے پاس جا سکتے ہیں ۔ اگر آپ نوٹیفکیشن معطل کر دیتے ہیں تو ہم اسپیکر کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف کہہ کر رہے ہیں پارلیمنٹ نہیں مانتے اور اس وجہ سے ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے ۔ یہ عدالت آپ کے سیاسی ڈائیلاگ میں سہولت کاری نہیں کرے گی۔ کل تک وقت دے دیتے ہیں آپ نیک نیتی ثابت کریں، پارلیمنٹ جائیں، ہم پٹیشن سن لیں گے ۔ اس عدالت کے مدنظر سیاسی جماعت کا مکمل احترام ہے، یہ منتخب نمائندے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ جائیں، سیاسی عدم استحکام ختم کریں اور پارلیمنٹ کو احترام دیں ۔ اس ملک کا سب سے بڑا فورم پارلیمنٹ ہے، وہاں جا کر اپنے سیاسی معاملات حل کریں۔ آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں، پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے آدھے گھنٹے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنرز سے بات کر لیتا ہوں پھر بتاتا ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گھنٹہ لے لیں اور بتائیں۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔
کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہونے پر وکیل علی ظفر نے عدالت کو دلائل دیے کہ ہمارا کیس ہے کہ استعفے منظوری کا فیصلہ اسپیکر نے نہیں کیا۔ ہمارے استعفوں کی منظوری کا فیصلہ غیر متعلقہ لوگوں نے کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان چیزوں میں نہ جائیں۔ اس موقع پر وکیل نے آڈیو لیک میں موجود ایاز صادق سمیت دیگر افراد کے نام پڑھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے خیال میں قاسم سوری نے جو کیا،وہ ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اگر کوئی اسے تسلیم نہیں کرتا تو پھر ہم پٹیشن کیوں سنیں؟۔اگر کوئی پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرتا، کہتا ہے بائیکاٹ بھی کریں گے، مانیں گے بھی نہیں ۔ عدالتیں ماضی میں سیاسی عدم استحکام کا حصہ رہی ہیں، ہم اس میں نہیں جائیں گے۔
وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت دیکھے کہ اسپیکر کا استعفے منظوری کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ ہم پٹیشنرز حقیقت میں پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں لیکن باقی پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جا رہے، دوسری طرف یہ کہہ رہے ہیں ۔ آپ کو 5 دن دے دیتے ہیں، آپ کنڈکٹ سے ثابت کریں، جس پر وکیل نے استدعا کی کہ آپ ان 10 پٹیشنرز کی حد تک الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ واپس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ سیاسی ہو گا، عدالت اس سے دُور رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو اس متعلق کچھ نہیں کہہ رہے۔ پٹیشنرز کہہ رہے کہ سیاسی جماعت کی پالیسی کا احترام کرتے ہیں۔ پھر یہ واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟۔ وکیل نے بتایا ہو سکتا ہے کہ بعد میں پارٹی طے کرے کہ اسمبلیوں میں واپس جانا ہے۔ ہو سکتا ہے طے کریں کہ اسمبلی میں جا کر کسی بل کی مخالفت کرنی ہے، مگراس صورت میں ہمارے 11 ارکان واپس نہیں جا سکیں گے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا عدالت آپ کے استعفے منظوری کا نوٹیفکیشن اس لیے معطل کرے کہ آپ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر سکیں؟وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت نے اس پٹیشن میں پارٹی کی پالیسی کو نہیں دیکھنا۔ عدالت نے پٹیشنر کی حد تک کیس دیکھنا ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔آپ پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ پٹیشنر واقعی پارلیمنٹ میں واپسی چاہتے ہیں۔ پھر وہ کہہ دیں کہ دباؤ میں استعفا دیا اور غلطی مان کر اب واپسی چاہتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشنرز کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، عوام کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو اس طرح ہو گیا کہ کوئی وکیل پٹیشن کرے اور کہے کہ میں عدالت کو مانتا ہی نہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے ۔وکیل نے جواب دیا میں نے پہلے بھی کہا اب بھی کہتا ہوں پارلیمنٹ کو مانتے ہیں۔ہمیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی Opportunity تو دی جائے ۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے جواب دیا آپ تو Opportunity لینا ہی نہیں چاہ رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ سے بالادست نہیں۔ پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں۔ آج بھی کوئی سول سپریمیسی کی بات نہیں کر رہا۔ اپنے کنڈکٹ سے اس عدالت کو مطمئن کریں کہ پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ نے شکور شاد کے خلاف کارروائی کی، کیا اس طرح ان پٹیشنرز کے خلاف بھی کارروائی کریں گے؟۔یا تو کہتے ہم سے غلطی ہو گئی، پریشر میں استعفا دیا اب ہم واقعی پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان 10 اراکین اسمبلی کے بیانات میں تضادات ہیں۔یہ بیان حلفی دے دیں ہم پارٹی پالیسی کو نہیں مانتے تو کیس سن لیتے ہیں۔ آپ کا کیس یہ ہے کہ آپ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ نہیں مانتے ۔ آپ کہتے ہیں اسمبلی توڑ دی تھی تو اب وہ ختم ہے ۔ جو آپ ڈائریکٹ نہیں کر سکتے وہ اس کورٹ کے ذریعے ان ڈائریکٹ کروانا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعت کہتی ہے نہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں نہ پارلیمنٹ کو۔ پٹیشنر کے کیس کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اسپیکر نے ٹھیک کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو نیچا دکھانے والی کسی پٹیشن کو نہیں سنیں گے۔ 123 اراکین اسمبلی نے خود کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، استعفی منظور کریں۔ اگر کہتے ہیں ہم فیصلہ کر دیں تو آج ہی کردیں گے مہلت لینی ہے تو سوچ کر بتا دیں ۔ عدالت اس حوالے سے نہ نوٹس نہ کوئی ڈائریکشن دے گی۔
وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی جمع کرانے کے معاملے پر بھی کچھ وقت درکار ہو گا۔ عدالت نے بغیر کسی حکم کے کیس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت اسپیکر کو 122 ارکان کو سن کا آئینی تقاضا پورا کرنے کی ہدایت کرے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پٹیشنرز اسپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے ۔
درخواست گزاروں میں علی محمد خان ، فضل محمد خان ، شوکت علی درخواست گزاروں میں شامل ، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر شاندانہ گلزار، فخر زمان خان ، فرخ حبیب، اعجاز شاہ ، جمیل احمد اور محمد اکرم شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے 10 ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے آئینی طریقے کے بغیر استعفے منظور کیے جانے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
پٹیشنرز کی جانب سے وکیل علی ظفر نے عدالت میں پیش ہوکر دلائل دیے کہ آرٹیکل 64 کے تحت پراسس کومکمل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہیں، کیا پارٹی نے ان کے خلاف ایکشن لیا ۔ اس پٹیشن کا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ پارٹی پالیسی ہے ؟ ۔پہلے یہ پٹیشنرز اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔ پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں، اس کے خلاف نہیں، جس پر عدالت نے سوال کیا کہ تو پھر یہ کیوں وہاں جانا چاہتے ہیں؟ پچھلی پٹیشن اس سے مختلف تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ سیاسی معاملات ہیں اور ان کے حل کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ یہ مطمئن کریں کہ یہ 10 ارکان پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں ۔ اگر یہ کیس ہے تو پھر ٹھیک ہے۔
سیاسی تنازعات دُور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے۔ آپ کو ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہییں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ اس کیس میں پٹیشنرز کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جینوئن استعفے جمع کروائے ۔ یہ اسپیکر کے پاس واپس جانے کا نہیں بلکہ صرف ٹیکنیکل ایشو ہے ۔
وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ پٹیشنرز نے اپنی مرضی سے جینوئن استعفے دیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔ عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ آڈیو لیکس آئی ہیں کہ اسپیکر دوسری پارٹی ممبران کے ساتھ اس سے متعلق بات کر رہا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں ابھی ایم این ہیں کیونکہ ہم نے 123 استعفے دیے تھے جو اکٹھے منظور نہیں کیے گئے۔
اگر استعفے اکٹھے منظور نہیں ہوئے تو درخواست گزار اب بھی رکن اسمبلی ہیں، وکیل
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے استعفے مشروط تھے اگر وہ اکٹھے تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر ہم ایم این اے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے، ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ کیا آپ کا مؤقف ہے کہ پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا؟ اگر ایسا ہے پھر تو آپ اب پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف یہ ارکان نہیں جا رہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ اسپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا ۔ کُل 123 ارکان نے استعفے دیے تھے، سب کو منظور ہونا چاہیے تھا۔آڈیو لیک میں سامنے آچکا کہ کیسے صرف 11ارکان کے استعفے منظور کیے گئے۔ ہم نے مشروط استعفے دیے تھے۔ ہمارا سیاسی مقصد تمام 123نشستیں خالی کرنا تھا۔ اگر ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ پارلیمنٹ کو مانتے نہیں دوسری طرف آپ کہتے ہیں ایک Formality کرنا چاہتے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے گی ۔ اگر یہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں تو یہ بیان حلفی جمع کرائیں۔ پھر عدالت ان کی پٹیشنز کو دیکھے گی۔
عدالتیں 70 سال میں سیاسی معاملات میں بہت زیادہ ملوث رہیں، جس کا ادارے کو نقصان ہوا، چیف جسٹس
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتیں 70 سال میں سیاسی معاملات میں بہت زیادہ ملوٹ رہی ہیں، جس کا اس ادارے کو نقصان بھی ہوا ۔ اگر آپ پارٹی پالیسی کے ساتھ جا رہے ہیں تو عدالت اس درخواست کو Entertain نہیں کرے گی۔ اگر تو آپ پارلیمنٹ واپس جانے کے لیے آئے ہیں تو پھر عدالت یہ کیس سنے گی۔ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ان کے استعفے جینوئن تھے تو پھر کیس غیر متعلقہ ہوجاتا ہے۔
وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت میں ان سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان 10 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے۔ ایک بار رکنیت بحال ہو پھر واپسی کے سوال پر جواب دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو جو عزت ملنی چاہیے وہ 70 سال میں نہیں دی گئی۔ اس ملک کے عوام نے انہیں پارلیمنٹ میں بھیجا ہے ۔ سیاسی معاملات کا حل پارلیمنٹ ہی میں ہے۔ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔
جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے، وہ پارلیمان میں جائیں، چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟۔ جب تک پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور نہیں ہوتے، ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں یا نہیں؟ یہ تو پی ٹی آئی کے رویے میں تضاد ہے۔ 11 لوگ نہیں پہلے باقی تو پارلیمنٹ چلے جائیں، سیاسی معاملات وہاں حل کریں ۔ سیاسی جماعت اپنے کنڈکٹ سے ثابت تو کرے ۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے ان 11 پٹیشنرز کے استعفے واپس ہو جائیں پھر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپسی کے حوالے سے سوچے گی۔ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور 11 ارکان کو نکال دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں۔ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں۔ پٹیشنرز اور سیاسی جماعت پارلیمنٹ جائیں، لیکن پہلے نیک نیتی تو ثابت کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک دفعہ پارلیمنٹ جائیں پھر یہ پٹیشن یہاں لے کر آئیں، ہم سنیں گے۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں انہوں نے نکال دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان 11 نہیں، میں باقی کی بات کر رہا ہوں، پارٹی نیک نیتی تو ثابت کرے۔ اگر یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کر رہے ہیں تو عدالت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
عدالت سیاسی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں کرے گی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو پارلیمنٹ ہی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز باتوں سے نہیں، آپ نے اپنے کنڈکٹ سے ثابت کرنی ہے۔ پٹیشنرز کیا چاہتے ہیں کہ عوام، جنہوں نے ان کو منتخب کیا، انہیں بغیر نمائندگی چھوڑ دیا جائے۔ یہ کورٹ آپ کے سیاسی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں کرے گی ۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اگر ان پٹیشنرز کے استعفے واپس ہو جائیں تو پارٹی پارلیمنٹ جانے سے متعلق پارٹی دیکھے گی۔ جب تک پٹیشنرز کے نوٹیفیکیشن معطل نہیں ہوں گے، تو یہ کیسے اسپیکر کے پاس جا سکتے ہیں ۔ اگر آپ نوٹیفکیشن معطل کر دیتے ہیں تو ہم اسپیکر کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف کہہ کر رہے ہیں پارلیمنٹ نہیں مانتے اور اس وجہ سے ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے ۔ یہ عدالت آپ کے سیاسی ڈائیلاگ میں سہولت کاری نہیں کرے گی۔ کل تک وقت دے دیتے ہیں آپ نیک نیتی ثابت کریں، پارلیمنٹ جائیں، ہم پٹیشن سن لیں گے ۔ اس عدالت کے مدنظر سیاسی جماعت کا مکمل احترام ہے، یہ منتخب نمائندے ہیں۔
پارلیمنٹ جاکر سیاسی عدم استحکام ختم کریں، چیف جسٹس کا مشورہ
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ جائیں، سیاسی عدم استحکام ختم کریں اور پارلیمنٹ کو احترام دیں ۔ اس ملک کا سب سے بڑا فورم پارلیمنٹ ہے، وہاں جا کر اپنے سیاسی معاملات حل کریں۔ آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں، پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے آدھے گھنٹے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنرز سے بات کر لیتا ہوں پھر بتاتا ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گھنٹہ لے لیں اور بتائیں۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔
سماعت کا دوبارہ آغاز
کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہونے پر وکیل علی ظفر نے عدالت کو دلائل دیے کہ ہمارا کیس ہے کہ استعفے منظوری کا فیصلہ اسپیکر نے نہیں کیا۔ ہمارے استعفوں کی منظوری کا فیصلہ غیر متعلقہ لوگوں نے کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان چیزوں میں نہ جائیں۔ اس موقع پر وکیل نے آڈیو لیک میں موجود ایاز صادق سمیت دیگر افراد کے نام پڑھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے خیال میں قاسم سوری نے جو کیا،وہ ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اگر کوئی اسے تسلیم نہیں کرتا تو پھر ہم پٹیشن کیوں سنیں؟۔اگر کوئی پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرتا، کہتا ہے بائیکاٹ بھی کریں گے، مانیں گے بھی نہیں ۔ عدالتیں ماضی میں سیاسی عدم استحکام کا حصہ رہی ہیں، ہم اس میں نہیں جائیں گے۔
پٹیشنر واقعی پارلیمنٹ واپس جانا چاہتے ہیں، مگر پارٹی کا فیصلہ اپنا ہے، وکیل
وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت دیکھے کہ اسپیکر کا استعفے منظوری کا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔ ہم پٹیشنرز حقیقت میں پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں لیکن باقی پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جا رہے، دوسری طرف یہ کہہ رہے ہیں ۔ آپ کو 5 دن دے دیتے ہیں، آپ کنڈکٹ سے ثابت کریں، جس پر وکیل نے استدعا کی کہ آپ ان 10 پٹیشنرز کی حد تک الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ واپس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ سیاسی ہو گا، عدالت اس سے دُور رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو اس متعلق کچھ نہیں کہہ رہے۔ پٹیشنرز کہہ رہے کہ سیاسی جماعت کی پالیسی کا احترام کرتے ہیں۔ پھر یہ واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟۔ وکیل نے بتایا ہو سکتا ہے کہ بعد میں پارٹی طے کرے کہ اسمبلیوں میں واپس جانا ہے۔ ہو سکتا ہے طے کریں کہ اسمبلی میں جا کر کسی بل کی مخالفت کرنی ہے، مگراس صورت میں ہمارے 11 ارکان واپس نہیں جا سکیں گے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا عدالت آپ کے استعفے منظوری کا نوٹیفکیشن اس لیے معطل کرے کہ آپ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر سکیں؟وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت نے اس پٹیشن میں پارٹی کی پالیسی کو نہیں دیکھنا۔ عدالت نے پٹیشنر کی حد تک کیس دیکھنا ہے ۔
پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔آپ پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ پٹیشنر واقعی پارلیمنٹ میں واپسی چاہتے ہیں۔ پھر وہ کہہ دیں کہ دباؤ میں استعفا دیا اور غلطی مان کر اب واپسی چاہتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشنرز کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، عوام کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو اس طرح ہو گیا کہ کوئی وکیل پٹیشن کرے اور کہے کہ میں عدالت کو مانتا ہی نہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے ۔وکیل نے جواب دیا میں نے پہلے بھی کہا اب بھی کہتا ہوں پارلیمنٹ کو مانتے ہیں۔ہمیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی Opportunity تو دی جائے ۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے جواب دیا آپ تو Opportunity لینا ہی نہیں چاہ رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ سے بالادست نہیں۔ پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں۔ آج بھی کوئی سول سپریمیسی کی بات نہیں کر رہا۔ اپنے کنڈکٹ سے اس عدالت کو مطمئن کریں کہ پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ نے شکور شاد کے خلاف کارروائی کی، کیا اس طرح ان پٹیشنرز کے خلاف بھی کارروائی کریں گے؟۔یا تو کہتے ہم سے غلطی ہو گئی، پریشر میں استعفا دیا اب ہم واقعی پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں۔
جو آپ ڈائریکٹ نہیں کر سکتے، وہ کورٹ کے ذریعے ان ڈائریکٹ کروانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان 10 اراکین اسمبلی کے بیانات میں تضادات ہیں۔یہ بیان حلفی دے دیں ہم پارٹی پالیسی کو نہیں مانتے تو کیس سن لیتے ہیں۔ آپ کا کیس یہ ہے کہ آپ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ نہیں مانتے ۔ آپ کہتے ہیں اسمبلی توڑ دی تھی تو اب وہ ختم ہے ۔ جو آپ ڈائریکٹ نہیں کر سکتے وہ اس کورٹ کے ذریعے ان ڈائریکٹ کروانا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعت کہتی ہے نہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں نہ پارلیمنٹ کو۔ پٹیشنر کے کیس کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اسپیکر نے ٹھیک کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو نیچا دکھانے والی کسی پٹیشن کو نہیں سنیں گے۔ 123 اراکین اسمبلی نے خود کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، استعفی منظور کریں۔ اگر کہتے ہیں ہم فیصلہ کر دیں تو آج ہی کردیں گے مہلت لینی ہے تو سوچ کر بتا دیں ۔ عدالت اس حوالے سے نہ نوٹس نہ کوئی ڈائریکشن دے گی۔
وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی جمع کرانے کے معاملے پر بھی کچھ وقت درکار ہو گا۔ عدالت نے بغیر کسی حکم کے کیس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت اسپیکر کو 122 ارکان کو سن کا آئینی تقاضا پورا کرنے کی ہدایت کرے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پٹیشنرز اسپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے ۔
درخواست گزاروں میں علی محمد خان ، فضل محمد خان ، شوکت علی درخواست گزاروں میں شامل ، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر شاندانہ گلزار، فخر زمان خان ، فرخ حبیب، اعجاز شاہ ، جمیل احمد اور محمد اکرم شامل ہیں۔