اپنی مدد آپ
Mark Manson اپنی کتاب "The subtle Art of Not Giving ----- " میں لکھتا ہے کہ چارلس بکوسی ایک شرابی تھا ، روزکا جواری ، انتہائی کنجوس ، نکما اور اپنے خراب ترین دنوں میں شاعری بھی کر لیتا تھا ، و ہ شاید دنیا کا آخری انسان ہوگا جس سے آپ کو زندگی گذارنے کا گر سیکھنا چاہیے یا جسے دیکھنے کی توقع آپ کو اس طرح کی '' اپنی مدد آپ '' والی کتابوں میں ہوگی اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی ابتدا ہم بکوسی سے کریں گے۔
بکوسی ایک لکھاری بننا چاہتا تھا لیکن کئی دہائیوں تک اس کے کام کو قریب قریب ہر اخبار ، ادبی جریدے ، رسالے اور ناشر نے رد کر دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ بکوسی لکھتا ہے ۔ خالص بکواس اور کریہہ ترین تحاریر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بکوسی پر اس کی ناکامی کا غلبہ ہونے لگا اور وہ شدید سے شدید شرابی بنتا چلا گیا اور ڈپریشن کا مریض ہونے لگا۔ بکوسی ایک بوسیدہ ڈاک خانے میں خطوط کی ترتیب دینے کا کام کرتا تھا اس کو بہت ہی کم معاوضہ ملتا تھا جس کو وہ اکثر مے کشی میں لٹا دیتا تھا بچی رقم کو وہ ریس میں جوئے کی نذر کر دیتا تھا۔
رات کی تاریکی میں وہ تنہائی میں شراب کے گھونٹ اپنے حلق میں اتارتا تھا اور ساتھ ہی اپنے ایک بوسیدہ ٹائپ رائٹر پہ شاعری لکھتا رہتا۔ اکثر جب اس کی آنکھ لگتی تو وہ بے سدھ فر ش پر گرا ہوتا۔ یوں تیس سال گزر گئے ، پچاس سال کی عمر میں بکوسی میں ایک چھوٹے سے چھاپ خانے کے ایڈیٹر کو عجیب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس ایڈیٹر کو بکوسی پہ ترس آگیا، اس نے بکوسی پر بازی لگانے کا سوچا ، بکوسی کی زندگی کا یہ پہلا موقع تھا جب اس کو اپنی صلاحیتیں منوانے کا ایک موقع مل گیا۔
شاید یہ واحد موقع ہو، بکوسی نے سوچا اور ایڈیٹرکو جواب لکھا ''مرے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو ڈاک خانے میں رہ کر پاگل ہوجاؤں یا لکھنے کی کوشش کروں اور فاقوں سے مر جاؤں ، میں نے بھوک کے ہاتھوں مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے'' معاہدہ دستخط کرنے کے بعد بکوسی نے اپنا پہلا ناول تین ہفتوں میں لکھ ڈالا۔ ناول کا نام تھا '' ڈاک خانہ '' انتساب میں اس نے لکھا '' یہ کتاب کسی بھی شخص کے نام نہیں '' اس کے بعد وہ ایک ناول نگار اور شاعر بن گیا تھا۔
اس کی کتابوں کی 20 لاکھ سے زیادہ نقول فروخت ہوئی۔ اس کی شہرت کا چرچا ہر جگہ ہونے لگا اور وہ سب توقعات بلکہ اپنی توقعات سے بھی بڑھ کرکامیاب ہوا۔ بکوسی کی کہانی سماج کے اجتماعی شعورکا ایک انمٹ حصہ ہے ''ایک آدمی اپنے حق کے لیے لڑتا ہے کبھی ہار نہیں مانتا اور آخرکار اپنے خوابوں کی تعمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی زندگی بالکل کسی فلم کی کہانی لگتی ہے۔
ہم سب کو بکوسی جیسی کہانیاں پڑھ کر ایک دوسرے کو اکساتے ہیں ، دیکھو نہ اس نے کبھی ہار نہیں مانی ہمیشہ تگ و دو کی۔ اس کو اپنے آپ پر بھروسہ تھا اور آخر وہ کامیاب ہو ہی گیا ، لیکن یہ ایک حیران کن امر ہے کہ اگر آپ کو کبھی بکوسی کی قبر پر جانے کا اتفاق ہو تو اس کی قبر کے کتبے پر یہ حروف لکھے ہیں ''کوشش مت کرو'' اتنی کتابوں کی فروخت اور اتنی شہرت کے باوجود بھی بکوسی کو پتہ تھا کہ وہ اک شکست خوردہ آدمی ہے، اسے علم تھا کہ اس کی کامیابی کا یہ راز نہیں تھا کہ اسے کامیابی کی چاہ تھی بلکہ یہ کہ وہ شکست کھا چکا ہے اور اس نے شکست کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔
اس نے کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ بکوسی کی عظمت اس میں نہیں کہ وہ تمام تر مصائب کے باوجود کامیاب ہوا یا یہ کہ ایک عظیم ادیب بنا بلکہ اس کی عظمت اس بات میں تھی کہ وہ اپنے آپ کے ساتھ ایماندار تھا اپنے کریہہ ترین پہلوؤں کو بھی اس نے گلے لگا لیا اور اپنی ناکامیوں کو بغیر کسی جھجک کے قبول کیا۔ یہ ہی بکوسی کی اصل کہانی ہے اس نے اپنی شکست کو تسلیم کیا اس کو کامیابی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ، اتنی شہرت کے باوجود بھی وہ اکثر مشاعروں میں نشے میں دھت جایا کرتا اور اکثر اپنے سامعین کوگالم گلوچ سے نوازتا۔ شہرت اور کامیابی اسے ایک اچھا انسان نہ بنا سکی نہ ہی وہ ایک اچھا انسان بن کر کامیاب اور مشہور ہوا۔
ہمارا سماج آج کل بہت ہی غیر یقینی مثبت توقعات سے اٹا ہوا ہے سب سے اچھے بنو، سب سے تیز، سب سے امیر ، سے سے خوبصورت ، سب سے پیارے ، سب سے بہترین بنو، سب سے مشہور، لیکن جب کبھی آپ ایک لمحے کے لیے سوچنے لگ جاؤ۔ اس روایتی انداز کے مشورے سن کر تو آپ کو لگے گا کہ جتنی بھی مثبت باتیں ہم سنتے ہیں ، اس طرح کی کتابوں میں تو یہ ساری مثبت باتیں اصل میں آپ کی خامیوں کے گرد گھومتی ہیں۔
یہ باتیں سن کر آپ اپنی کمیوں اور خامیوں کو اور بھی محسوس کرنے لگتے ہو۔ آپ زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہو ،کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس اتنا پیسہ نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر یہ ہی گردان کرتے ہو کہ میں خوبصورت ہوں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ شاید میں اتنا خوبصورت نہیں۔ آپ لوگوں سے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں مشورے لینے لگتے ہو کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ پیارکے قابل نہیں ہو۔
آپ دن رات خیالی پلاؤ پکانے لگتے ہو ، کامیاب ہونے کے بارے میں کیونکہ آپ کو لگتا ہے آپ ایک کامیاب آدمی نہیں ہو۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان ساری مثبت تمناؤں اور عزائم سے آپ کے اندر جوکمی ہے اس کو تقویت ملتی ہے آپ کو لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو کہ مجھے ہونا چاہیے تھا۔ کوئی بھی ذی عقل انسان آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر یہ نہیں کہے گا کہ میں خوش ہوں کیونکہ اسے پتہ ہے کہ وہ ہے۔
ہم زندگی کو نہ جانیں گے تو اسی سے لطف کیا اٹھائیں گے دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ہم کو یہ دریافت کرنا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہم کیوں ویسے ہیں جیسے کہ ہم ہیں یعنی اپنے آپ سے ایماندار ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
آئیے ہم سیدھی سمت میں آگے بڑھتے جائیں۔ ہر شے پر شک کرتے جائیں ہر شے کا تجزیہ کریں، تصدیق کرتے رہیں اور سچائی تلاش کرتے رہیں۔ بروچ سپائی نوزا کو کامیابی سے کہیں زیادہ دلچسپی سچائی میں تھی۔ جان لاک نے ایک دفعہ کہا تھا ''آئیے ہم اپنے بارے میں دیانت دار ہوجائیں اور حقائق کو قبول کر لیں ، یہ مناسب بات ہوگی کہ ہم اپنے کمزوریوں اور ہنگامی ضرورتوں پر غورکریں یہ جانیں کہ ہم کس شے سے بنے ہیں اور ہماری صلاحیتیں کیا ہیں یہ ہمارا حقیر سا آغاز ہوگا '' جب جنگ ختم ہوئی تو نطشے کو دفتھیریا کے مرض نے آن پکڑا وہ پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ صاف اور ٹھنڈی ہواؤں میں وہ ان مسائل پر غور و فکر کرنے لگا وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی نہ کی طور دنیا کے ان تمام دکھوں کو واجب ثابت کرنا چاہیے۔
انسان ساری مصیبتوں کے باوجود ناقابل شکست امید پرست ہے مگر کیوں ؟ شاید سبب یہ ہے کہ دکھ ایک قابل قدر بلکہ یوں کہیے کہ مقدس تجربہ ہے ۔ نطشے نے سوچا اس کے چاروں طرف دکھ تھے اور دکھ سے ہم روحانی اذیت نہیں بلکہ روحانی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ یونانی المیہ اور اسطوریات کے صفحات انسانی ارادے کی بلند ہمتی کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ، انسان مصائب اس لیے اٹھاتا ہے کہ وہ آزاد ہونے کا ارادہ کرتا ہے۔
بکوسی ایک لکھاری بننا چاہتا تھا لیکن کئی دہائیوں تک اس کے کام کو قریب قریب ہر اخبار ، ادبی جریدے ، رسالے اور ناشر نے رد کر دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ بکوسی لکھتا ہے ۔ خالص بکواس اور کریہہ ترین تحاریر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بکوسی پر اس کی ناکامی کا غلبہ ہونے لگا اور وہ شدید سے شدید شرابی بنتا چلا گیا اور ڈپریشن کا مریض ہونے لگا۔ بکوسی ایک بوسیدہ ڈاک خانے میں خطوط کی ترتیب دینے کا کام کرتا تھا اس کو بہت ہی کم معاوضہ ملتا تھا جس کو وہ اکثر مے کشی میں لٹا دیتا تھا بچی رقم کو وہ ریس میں جوئے کی نذر کر دیتا تھا۔
رات کی تاریکی میں وہ تنہائی میں شراب کے گھونٹ اپنے حلق میں اتارتا تھا اور ساتھ ہی اپنے ایک بوسیدہ ٹائپ رائٹر پہ شاعری لکھتا رہتا۔ اکثر جب اس کی آنکھ لگتی تو وہ بے سدھ فر ش پر گرا ہوتا۔ یوں تیس سال گزر گئے ، پچاس سال کی عمر میں بکوسی میں ایک چھوٹے سے چھاپ خانے کے ایڈیٹر کو عجیب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس ایڈیٹر کو بکوسی پہ ترس آگیا، اس نے بکوسی پر بازی لگانے کا سوچا ، بکوسی کی زندگی کا یہ پہلا موقع تھا جب اس کو اپنی صلاحیتیں منوانے کا ایک موقع مل گیا۔
شاید یہ واحد موقع ہو، بکوسی نے سوچا اور ایڈیٹرکو جواب لکھا ''مرے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو ڈاک خانے میں رہ کر پاگل ہوجاؤں یا لکھنے کی کوشش کروں اور فاقوں سے مر جاؤں ، میں نے بھوک کے ہاتھوں مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے'' معاہدہ دستخط کرنے کے بعد بکوسی نے اپنا پہلا ناول تین ہفتوں میں لکھ ڈالا۔ ناول کا نام تھا '' ڈاک خانہ '' انتساب میں اس نے لکھا '' یہ کتاب کسی بھی شخص کے نام نہیں '' اس کے بعد وہ ایک ناول نگار اور شاعر بن گیا تھا۔
اس کی کتابوں کی 20 لاکھ سے زیادہ نقول فروخت ہوئی۔ اس کی شہرت کا چرچا ہر جگہ ہونے لگا اور وہ سب توقعات بلکہ اپنی توقعات سے بھی بڑھ کرکامیاب ہوا۔ بکوسی کی کہانی سماج کے اجتماعی شعورکا ایک انمٹ حصہ ہے ''ایک آدمی اپنے حق کے لیے لڑتا ہے کبھی ہار نہیں مانتا اور آخرکار اپنے خوابوں کی تعمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی زندگی بالکل کسی فلم کی کہانی لگتی ہے۔
ہم سب کو بکوسی جیسی کہانیاں پڑھ کر ایک دوسرے کو اکساتے ہیں ، دیکھو نہ اس نے کبھی ہار نہیں مانی ہمیشہ تگ و دو کی۔ اس کو اپنے آپ پر بھروسہ تھا اور آخر وہ کامیاب ہو ہی گیا ، لیکن یہ ایک حیران کن امر ہے کہ اگر آپ کو کبھی بکوسی کی قبر پر جانے کا اتفاق ہو تو اس کی قبر کے کتبے پر یہ حروف لکھے ہیں ''کوشش مت کرو'' اتنی کتابوں کی فروخت اور اتنی شہرت کے باوجود بھی بکوسی کو پتہ تھا کہ وہ اک شکست خوردہ آدمی ہے، اسے علم تھا کہ اس کی کامیابی کا یہ راز نہیں تھا کہ اسے کامیابی کی چاہ تھی بلکہ یہ کہ وہ شکست کھا چکا ہے اور اس نے شکست کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔
اس نے کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ بکوسی کی عظمت اس میں نہیں کہ وہ تمام تر مصائب کے باوجود کامیاب ہوا یا یہ کہ ایک عظیم ادیب بنا بلکہ اس کی عظمت اس بات میں تھی کہ وہ اپنے آپ کے ساتھ ایماندار تھا اپنے کریہہ ترین پہلوؤں کو بھی اس نے گلے لگا لیا اور اپنی ناکامیوں کو بغیر کسی جھجک کے قبول کیا۔ یہ ہی بکوسی کی اصل کہانی ہے اس نے اپنی شکست کو تسلیم کیا اس کو کامیابی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ، اتنی شہرت کے باوجود بھی وہ اکثر مشاعروں میں نشے میں دھت جایا کرتا اور اکثر اپنے سامعین کوگالم گلوچ سے نوازتا۔ شہرت اور کامیابی اسے ایک اچھا انسان نہ بنا سکی نہ ہی وہ ایک اچھا انسان بن کر کامیاب اور مشہور ہوا۔
ہمارا سماج آج کل بہت ہی غیر یقینی مثبت توقعات سے اٹا ہوا ہے سب سے اچھے بنو، سب سے تیز، سب سے امیر ، سے سے خوبصورت ، سب سے پیارے ، سب سے بہترین بنو، سب سے مشہور، لیکن جب کبھی آپ ایک لمحے کے لیے سوچنے لگ جاؤ۔ اس روایتی انداز کے مشورے سن کر تو آپ کو لگے گا کہ جتنی بھی مثبت باتیں ہم سنتے ہیں ، اس طرح کی کتابوں میں تو یہ ساری مثبت باتیں اصل میں آپ کی خامیوں کے گرد گھومتی ہیں۔
یہ باتیں سن کر آپ اپنی کمیوں اور خامیوں کو اور بھی محسوس کرنے لگتے ہو۔ آپ زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہو ،کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس اتنا پیسہ نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر یہ ہی گردان کرتے ہو کہ میں خوبصورت ہوں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ شاید میں اتنا خوبصورت نہیں۔ آپ لوگوں سے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں مشورے لینے لگتے ہو کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ پیارکے قابل نہیں ہو۔
آپ دن رات خیالی پلاؤ پکانے لگتے ہو ، کامیاب ہونے کے بارے میں کیونکہ آپ کو لگتا ہے آپ ایک کامیاب آدمی نہیں ہو۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان ساری مثبت تمناؤں اور عزائم سے آپ کے اندر جوکمی ہے اس کو تقویت ملتی ہے آپ کو لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو کہ مجھے ہونا چاہیے تھا۔ کوئی بھی ذی عقل انسان آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر یہ نہیں کہے گا کہ میں خوش ہوں کیونکہ اسے پتہ ہے کہ وہ ہے۔
ہم زندگی کو نہ جانیں گے تو اسی سے لطف کیا اٹھائیں گے دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ہم کو یہ دریافت کرنا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور ہم کیوں ویسے ہیں جیسے کہ ہم ہیں یعنی اپنے آپ سے ایماندار ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
آئیے ہم سیدھی سمت میں آگے بڑھتے جائیں۔ ہر شے پر شک کرتے جائیں ہر شے کا تجزیہ کریں، تصدیق کرتے رہیں اور سچائی تلاش کرتے رہیں۔ بروچ سپائی نوزا کو کامیابی سے کہیں زیادہ دلچسپی سچائی میں تھی۔ جان لاک نے ایک دفعہ کہا تھا ''آئیے ہم اپنے بارے میں دیانت دار ہوجائیں اور حقائق کو قبول کر لیں ، یہ مناسب بات ہوگی کہ ہم اپنے کمزوریوں اور ہنگامی ضرورتوں پر غورکریں یہ جانیں کہ ہم کس شے سے بنے ہیں اور ہماری صلاحیتیں کیا ہیں یہ ہمارا حقیر سا آغاز ہوگا '' جب جنگ ختم ہوئی تو نطشے کو دفتھیریا کے مرض نے آن پکڑا وہ پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ صاف اور ٹھنڈی ہواؤں میں وہ ان مسائل پر غور و فکر کرنے لگا وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی نہ کی طور دنیا کے ان تمام دکھوں کو واجب ثابت کرنا چاہیے۔
انسان ساری مصیبتوں کے باوجود ناقابل شکست امید پرست ہے مگر کیوں ؟ شاید سبب یہ ہے کہ دکھ ایک قابل قدر بلکہ یوں کہیے کہ مقدس تجربہ ہے ۔ نطشے نے سوچا اس کے چاروں طرف دکھ تھے اور دکھ سے ہم روحانی اذیت نہیں بلکہ روحانی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ یونانی المیہ اور اسطوریات کے صفحات انسانی ارادے کی بلند ہمتی کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ، انسان مصائب اس لیے اٹھاتا ہے کہ وہ آزاد ہونے کا ارادہ کرتا ہے۔