شاعر خمار بارہ بنکوی کے سرور بھرے فلمی گیت


یونس ہمدم October 07, 2022
[email protected]

اردو ادب میں جگر مراد آبادی ، فراق گورکھپوری کے بعد خمار بارہ بنکوی کو بھی غزل کی آبرو کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ خمار کی غزلوں میں جو خمار تھا اس کا نشہ ہی سب سے جدا تھا۔ وہ مشاعروں کے پسندیدہ شاعر تھے ، ان کے پڑھنے کا انداز سامعین کے دلوں کو چھو لیتا تھا۔

دہلی، لکھنو کے مشاعروں کی دھوم تو اپنی جگہ تھی ہی مگر جب کبھی بمبئی (ممبئی) کے مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا تو بمبئی فلم انڈسٹری کے نامور فلم سازوں، ہدایت کاروں اور بعض مشہور فنکاروں کی شرکت بھی دیدنی ہوتی تھی لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار تو مشاعروں کی صدارت بھی کرلیتے تھے اور شعر و ادب سے شغف ہونے کی بنا پر کبھی کبھی شاعری بھی کرلیا کرتے تھے۔

ایک ایسا ہی بمبئی کا مشاعرہ تھا جس میں بہت سے نامور شاعروں کے علاوہ خمار بارہ بنکوی بھی مدعو تھے۔ اس مشاعرے میں چند نامور شخصیات بھی موجود تھیں جب خمار بارہ بنکوی نے اپنا کلام سنانا شروع کیا تو سامعین کی طرف سے فرمائشی غزلوں کا بھی شور مچتا رہا اور خمار بارہ بنکوی کی غزلوں پر سامعین جھومتے رہے مکرر مکرر کی آوازیں گونجتی رہیں۔ اس دور کی خمار صاحب کی چند غزلوں کے اشعار قارئین کی نذر ہیں۔

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے

ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

......

گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے

کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے

کہاں تو خمار اور کہاں کفر توبہ

تجھے پارساؤں نے بہکا دیا ہے

ممبئی کا مشاعرہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں مشہور فلم ساز و ہدایت کار اے آرکاردار بھی موجود تھے وہ خمار بارہ بنکوی کی شاعری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے اس مشاعرے کے بعد خمار بارہ بنکوی کو اپنی فلم شاہجہاں میں گیت لکھنے کے لیے منتخب کرلیا اور ان کو یہ عندیہ بھی دے دیا کہ '' خمار ! اب بمبئی ہی میں ہمارے مہمان رہیں گے اور اب بمبئی سے واپس نہیں جانے دیں گے۔'' اس مشاعرے کے بعد خمار فلمی دنیا کا حصہ بنتے چلے گئے۔

اس سے پہلے کہ ان کے فلمی گیت نگاری کے سفرکا آغاز کروں، میں ان کی ابتدائی زندگی پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالوں گا۔ خمار بارہ بنکوی کا گھریلو نام محمد حیدر خان تھا، یہ ہندوستان کے اترپردیش کے علاقے بارہ بنکوی میں 1919 میں پیدا ہوئے، 19 ستمبر ان کی پیدائش کا دن تھا اور پھر 19 فروری1999 میں وہ اس دنیا سے سدھار گئے تھے۔

9 کا ہندسہ ان کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل تھا اور یہ ہندسہ ان کی زندگی اور موت سے 80 برس تک خوب کھیلتا رہا۔ شہرت ان کی کنیز بن گئی تھی دولت ان کے قدموں میں بکھری رہتی تھی۔ شعر و ادب کی زندگی میں اپنا مقام بنایا اور پھر جب فلمی دنیا میں قدم رکھا تو فلمی دنیا میں بھی اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ انھوں نے اپنا پہلا گیت فلم شاہجہاں کے لیے لکھا۔گیت کے بول تھے:

اے دل بے قرار جھوم

ابر بہار آگیا

دور خزاں چلا گیا

عشق مراد پا گیا

حسن کی مچ رہی ہے دھوم

اے دل بے قرار جھوم

یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی تھی اور ایک ہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے فنکاروں میں سہگل، راگنی، جیمراج مرکزی کردار تھے۔ اس فلم میں مجروح سلطان پوری نے بھی گیت لکھے تھے ، پھر خمار بارہ بنکوی بھی موسیقار نوشاد کی گڈبک میں آگئے تھے یکے بعد دیگرے کئی فلموں کے گیت لکھے اور ان ابتدائی فلموں میں ساز و آواز، ناٹک اور قیمت قابل ذکر تھیں۔ فلم قیمت اس دور کی بلاک بسٹر فلم تھی۔ اس فلم کے چند ہٹ گیت فلم کی ہائی لائٹ تھے۔

ان فلموں کے بعد روپ لیکھا، ہلچل، مہربانی، آدھی رات، جواب، شہزادہ، محفل، مہندی اور قاتل جیسی فلمیں سپرہٹ بھی ہوئیں اور ان کے گیتوں نے خمار بارہ بنکوی کو صف اول کے فلمی گیت نگاروں میں شامل کردیا تھا۔

اسی زمانے میں شوکت دہلوی ایک موسیقار تھے جن کو مشہور نغمہ نگار اور فلم ساز نخشب جارچوی نے ناشاد کا فلمی نام دیا ، کیونکہ نخشب جارچوی کے ساتھ موسیقار نوشاد نے کام کرنے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ نخشب جارچوی اپنی گفتگو میں اکثر و بیشتر گالیوں کا استعمال کیا کرتے تھے اور نوشاد صاحب اس معاملے میں بڑا سافٹ کارنر رکھتے تھے۔

مہذب انداز میں گفتگو کرتے تھے مگر نخشب صاحب کو نوشاد صاحب کا انکار اچھا نہیں لگا اور انھوں نے نوشاد کے مقابلے پر موسیقار ناشاد کو فلمی دنیا سے متعارف کرایا تھا اور ناشاد کے ساتھ انھوں نے کئی فلمیں کی تھیں ایک بلاک فلم تھی زندگی اور طوفان جو اپنے دور کی سپر ہٹ فلم تھی اور اس کے سارے گیت مقبول ہوئے تھے اور اس طرح موسیقار ناشاد کا بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بڑا نام ہو گیا تھا۔

پھر جب نخشب جارچوی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو انھیں یہاں کوئی موسیقار پسند نہ آیا تھا اور پھر انھوں نے اپنی فلم مے خانہ کے لیے ہندوستان سے موسیقار ناشاد کو پاکستان بلایا تھا۔ شاعر خمار بنکوی نے موسیقار ناشاد کی فلم بارہ دری کے لیے بھی گیت لکھے تھے۔ یہ فلم 1955 میں ریلیز ہوئی تھی اس کے چند گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن کے بول مندرجہ ذیل ہیں:

بھلا نہیں دینا جی بھلا نہیں دینا

زمانہ خراب ہے بھلا نہیں دینا

......

تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی

اک خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی

......

اب کے برس بڑا ظلم ہوا مورا بچپن گیا ہائے رام

جیا مورا ڈولے ہائے پیا پیا بولے ہو نہ جاؤں کہیں بدنام

خمار بارہ بنکوی نے جتنی فلموں کے لیے گیت لکھے وہ تقریباً ہٹ گیت تھے مگر پھر خمار صاحب کو ادبی دنیا کی یاد ستانے لگی، پھر بمبئی کی فلمی دنیا سے ان کا دل اچاٹ ہونے لگا تھا۔ وہ عرب امارات کے مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے تھے پھر وہ پاکستان بھی اکثر آتے تھے اور مشاعروں کی جان قرار دیے جاتے تھے۔ مجھے کراچی میں ایک مشاعرے کے دوران خمار بارہ بنکوی سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

وہ مشاعرہ غالباً ان کا کراچی آخری مشاعرہ تھا اور وہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ نیپا چورنگی کے قریب ہی ایک ہال تھا جہاں یہ مشاعرہ منعقد ہوا تھا ، میں نے ان سے آٹو گراف بھی حاصل کیا تھا ، وہ میرے لیے یادگار لمحات تھے۔ خمار بارہ بنکوی کا ایک الگ ہی انداز تھا۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی دلکش غزلیں کہتے تھے۔

ان کی غزلوں میں ان کے تخلص کی طرح کوٹ کوٹ کر خمار بھرا ہوا تھا۔ وہ خوش گلو بھی تھے خوش گفتار اور خوش لباس بھی۔ ان کی شاعری دلوں کو مسخر کرلیتی تھی آج بھی ان کا کلام سنو تو دل جھوم اٹھتا ہے اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں