احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک
محمد عباس طوروی نے اپنی کتاب ''احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک'' میں ان عوامل کا جائزہ لیا ہے جو احمد ندیم قاسمی کو ایک ہمہ گیر شہرت کی حامل ادبی شخصیت بنانے میں کارفرما رہے۔ وہ لکھتے ہیں '' اس ارتقائی جائزے کے لیے ضروری تھا کہ مطالعہ بالکل نقطہ آغاز سے شروع کیا جائے، سو ابتدا سے اس میں عہد بہ عہد رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے محرکات کا جائزہ لیا گیا اور شخصیت کے مطالعے کے لیے ادوار کا تعین کیا گیا ہے۔''
عباس طوروی نے ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت کی تشکیل کے چار دور متعین کیے ہیں اور اسی ترتیب سے ابواب رکھے گئے ہیں۔ سب سے پہلے وہ دور ہے جب ابھی انھوں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ پھر ابتدا سے 1946تک ان کے ہاں ادب کا رومانوی تصور اور حسن پرستی کا رجحان حاوی ملتا ہے۔
1946 کے بعد وہ ترقی پسند نقطہ نظر کے قائل اور حقیقت پسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ 1963 کے بعد ان کے ہاں ایک خاص سطح کا تخلیقی ٹھہراؤ اور پختگی آ جاتی ہے جو ان کی فنی اور فکری پختگی کی دلیل بھی ہے اور ارتقائی لحاظ سے عروج پر پہنچنے کا اشارہ بھی۔
کتاب کے پہلے باب میں احمد ندیم قاسمی کی پوری زندگی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، دوسرے باب میں ان کی ادبی شخصیت کے ابتدائی دور اور تیسرے باب میں تشکیلی دور یعنی 1946 تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں ان کی ادبی شخصیت کی تعمیر اور پانچویں میں تکمیلی دورکا ذکر ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا ابتدائی دور 1916 سے شروع ہوتا ہے اور 1930 تک رہتا ہے۔ اس دور میں وراثتی اثرات، خاندانی اثرات، بچپن کے حالات، ماں باپ، بہن کی محبت، چچا کی شفقت اور پہلی جنگ عظیم اور تحریک خلافت کا ذکر ہے۔ قدرتی طور پر ان سب کا اثر ان کی شخصیت پر پڑا۔
تشکیلی دور 1930 سے شروع ہو کر 1946 میں ختم ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی اختر شیرانی اور عبدالمجید سالک سے قربت، محبت اور رومان پروری، ملازمت اور کالم نگاری اس دور کے وہ واقعات ہیں جن کے اثرات دور تک گئے۔
اس کے بعد دو ادوار ہیں، ایک تعمیری جو 1946 سے شروع ہو کر 1962 میں ختم ہوتا ہے اور دوسرا تکمیلی دور جو 1963 سے شروع ہو کر 2006 میں ختم ہوتا ہے۔محمد عباس طوروی لکھتے ہیں '' ایک طویل مذہبی پس منظر کے حامل خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے ندیم کے ہاں مذہب اور اخلاقیات کے بنیادی تصورات اس قدر مضبوط بنیادوں قائم رہے کہ تمام تر باغیانہ اور مشرقی پسندانہ تصورات کے باوجود وہ انھیں چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
انھوں نے مذہب کے نام نہاد علم برداروں پر نکتہ چینی تو کی لیکن خود مذہب کے بنیادی تصورات سے روگردانی نہیں کی۔ وراثتی اثرات کے بعد خاندانی حالات ہیں جنھوں نے ندیم کی شخصیت پرگہرے اثرات ڈالے۔ اسی طرح اپنے گھر کے حالات خاص طور پر ماں کی محبت ان کی ادبی شخصیت میں نمایاں رہی۔ ندیم کے ایک چچا نے جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے، ان کی ادبی شخصیت کی تعمیر میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔
عباس طوروی لکھتے ہیں کہ لاہور میں ندیم کو سب سے پہلے اختر شیرانی کی صحبت نصیب ہوئی ، جس نے ان کی طبیعت کے بنیادی رجحان یعنی رومانیت کی ترتیب میں کچھ کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ان کی ملاقات عبدالمجید سالک سے ہوئی اور وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔
اس میں شک نہیں کہ ندیم سالک کو اپنا پیر و مرشد مانتے تھے۔ عباس طوروی لکھتے ہیں ''1936 اور 1937 کے درمیان ندیم محبت کے خوش گوار جذبے سے آشنا ہوئے۔ ان کی محبت تو انھیں مل نہ سکی مگر اس کے طفیل ان کی رجائیت میں پختگی آئی اور ان کے رومانی رجحان نے ایک اعتبار سے غلبہ اختیار کرلیا جو ان کی ادبی شخصیت میں آخر تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا۔ ''جنگ عظیم دوم ایک ایسا سیاسی اور سماجی مسئلہ تھا جس نے بیشتر ادیبوں کو متاثر کیا، ندیم بھی اس سے خاصے متاثر ہوئے اور جہاں اپنے افسانوں میں اس جنگ کے ہندوستانی معاشرے پر ہونے والے اثرات اور ان کے متعلق اپنے مشاہدات و تجربات کا بیان کیا وہاں اپنی شاعری میں بھی اس کا اظہار کیا۔
1942 میں ندیم کو بیک وقت تین رسائل، ہفتہ وار '' تہذیب نسواں '' ، ہفتہ وار '' پھول '' اور ماہنامہ '' ادب لطیف '' کی ادارت کا موقعہ ملا۔ یہاں ان کو ادارتی تجربے کے علاوہ معاصر ادبی رجحانات سے بھی خاصی آگاہی ہوئی جس سے ان کی فکر میں تبدیلی رونما ہوئی۔ انھی دنوں ان کی کالم نگاری کا بھی آغاز ہوا۔''1946 میں ندیم کی ادبی شخصیت اپنے ارتقا کے آخری مرحلے میں داخل ہوتی ہے اور ان کے ہاں واضح طور پر تبدیلی ملتی ہے۔
اب وہ رومانوی اثرات سے بالکل آزاد ہو کر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ادب میں خارجیت یا ادب برائے زندگی کے نظریے کو اپنا لیتے ہیں۔ اب ان کے ہاں ذات کے بجائے معاشرہ اہم ہے۔ اسی لیے وہ ذاتی آلام کی دردمندی کے بجائے معاشرے کو سنوارنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
عباس طوروی لکھتے ہیں ''احمد ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت 1963 میں اپنے تکمیلی مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ اب وہ ایک لحاظ سے مکمل ہو چکے ہیں اسی لیے اب ان کے ہاں ماسوا چند چیزوں کے کوئی نیا رجحان پیدا نہیں ہوتا۔ اسی سال انھوں نے اپنے ذاتی رسالے ''فنون'' کا اجرا کیا جس نے انھیں بے شمار ادبی فائدے پہنچائے۔ اب ان کے ہاں سماجی حالات کے مطالعے کا رجحان پختہ اور واضح ہو چکا ہے اور وہ ایک معتدل طرز فکر سے سماجی حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ملک کی سیاسی صورت حال پر ان کی نظر بہت گہری ہے اور فن میں اس کی پیش کش بھی بہت زیادہ ہے، تقریباً ہر اہم سیاسی واقعے کے متعلق کوئی نظم مل جاتی ہے۔ یہی بات عالمی سیاسی صورت حال کے ساتھ ہے۔ دنیا کی بیشتر تحاریک آزادی کے بارے میں ندیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔''
محمد عباس طوروی نے اپنی کتاب میں احمد ندیم قاسمی کی محبت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ندیم 1936میں اس الوہی جذبے سے آشنا ہوئے جسے محبت کہتے ہیں۔ اس خوبصورت حادثے کے متعلق انھوں نے کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی اور نہ اپنے کسی انٹرویو میں کوئی اشارہ دیا مگر ان کی تخلیقات خصوصاً آغاز کی تحریریں اتنا اشارہ ضرور دیتی ہیں کہ ندیم نے کسی سے بے پناہ محبت کی تھی اور جسے وہ پا نہ سکے تھے۔
گھڑی پہلی محبت کی عجب تھی
ابھی تک یاد کے در پر کھڑی ہے
عباس طوروی لکھتے ہیں '' ندیم کی اس محبت کا عرصہ بہت تھوڑا رہا لیکن یہی وہ زمانہ ہے جس کے اثرات ان کی ادبی شخصیت پر حاوی رہے۔ ابھی وہ محبت کے ابتدائی مرحلے یعنی جلوۂ حسن کے سامنے متحیر ہی تھے کہ ان کی محبوبہ جدا ہوگئی۔
اس شدید جھٹکے نے ان کی تخلیقی شخصیت پر بڑے تلخ اثرات مرتب کیے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات اس کی مظہر ہیں، البتہ جوں جوں احساس کی شدت میں کمی آتی گئی، ادبی شخصیت میں بھی ٹھہراؤ آتا گیا۔ شروع کی تخلیقات میں ان تلخ احساسات کے بعد ندیم کے ہاں محبت کا معتدل اور متوازن جذبہ جگہ پاتا ہے اور پھر عشق کا تعلق فانی حدوں سے گزر کر لافانی روح تک وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔
میں عشق ہوں اور جاوداں ہوں
تو حسن ہے اور بے کراں ہے
عباس طوروی نے ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت کی تشکیل کے چار دور متعین کیے ہیں اور اسی ترتیب سے ابواب رکھے گئے ہیں۔ سب سے پہلے وہ دور ہے جب ابھی انھوں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ پھر ابتدا سے 1946تک ان کے ہاں ادب کا رومانوی تصور اور حسن پرستی کا رجحان حاوی ملتا ہے۔
1946 کے بعد وہ ترقی پسند نقطہ نظر کے قائل اور حقیقت پسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ 1963 کے بعد ان کے ہاں ایک خاص سطح کا تخلیقی ٹھہراؤ اور پختگی آ جاتی ہے جو ان کی فنی اور فکری پختگی کی دلیل بھی ہے اور ارتقائی لحاظ سے عروج پر پہنچنے کا اشارہ بھی۔
کتاب کے پہلے باب میں احمد ندیم قاسمی کی پوری زندگی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، دوسرے باب میں ان کی ادبی شخصیت کے ابتدائی دور اور تیسرے باب میں تشکیلی دور یعنی 1946 تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں ان کی ادبی شخصیت کی تعمیر اور پانچویں میں تکمیلی دورکا ذکر ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا ابتدائی دور 1916 سے شروع ہوتا ہے اور 1930 تک رہتا ہے۔ اس دور میں وراثتی اثرات، خاندانی اثرات، بچپن کے حالات، ماں باپ، بہن کی محبت، چچا کی شفقت اور پہلی جنگ عظیم اور تحریک خلافت کا ذکر ہے۔ قدرتی طور پر ان سب کا اثر ان کی شخصیت پر پڑا۔
تشکیلی دور 1930 سے شروع ہو کر 1946 میں ختم ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی اختر شیرانی اور عبدالمجید سالک سے قربت، محبت اور رومان پروری، ملازمت اور کالم نگاری اس دور کے وہ واقعات ہیں جن کے اثرات دور تک گئے۔
اس کے بعد دو ادوار ہیں، ایک تعمیری جو 1946 سے شروع ہو کر 1962 میں ختم ہوتا ہے اور دوسرا تکمیلی دور جو 1963 سے شروع ہو کر 2006 میں ختم ہوتا ہے۔محمد عباس طوروی لکھتے ہیں '' ایک طویل مذہبی پس منظر کے حامل خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے ندیم کے ہاں مذہب اور اخلاقیات کے بنیادی تصورات اس قدر مضبوط بنیادوں قائم رہے کہ تمام تر باغیانہ اور مشرقی پسندانہ تصورات کے باوجود وہ انھیں چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
انھوں نے مذہب کے نام نہاد علم برداروں پر نکتہ چینی تو کی لیکن خود مذہب کے بنیادی تصورات سے روگردانی نہیں کی۔ وراثتی اثرات کے بعد خاندانی حالات ہیں جنھوں نے ندیم کی شخصیت پرگہرے اثرات ڈالے۔ اسی طرح اپنے گھر کے حالات خاص طور پر ماں کی محبت ان کی ادبی شخصیت میں نمایاں رہی۔ ندیم کے ایک چچا نے جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی ذوق رکھتے تھے، ان کی ادبی شخصیت کی تعمیر میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔
عباس طوروی لکھتے ہیں کہ لاہور میں ندیم کو سب سے پہلے اختر شیرانی کی صحبت نصیب ہوئی ، جس نے ان کی طبیعت کے بنیادی رجحان یعنی رومانیت کی ترتیب میں کچھ کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ان کی ملاقات عبدالمجید سالک سے ہوئی اور وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔
اس میں شک نہیں کہ ندیم سالک کو اپنا پیر و مرشد مانتے تھے۔ عباس طوروی لکھتے ہیں ''1936 اور 1937 کے درمیان ندیم محبت کے خوش گوار جذبے سے آشنا ہوئے۔ ان کی محبت تو انھیں مل نہ سکی مگر اس کے طفیل ان کی رجائیت میں پختگی آئی اور ان کے رومانی رجحان نے ایک اعتبار سے غلبہ اختیار کرلیا جو ان کی ادبی شخصیت میں آخر تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا۔ ''جنگ عظیم دوم ایک ایسا سیاسی اور سماجی مسئلہ تھا جس نے بیشتر ادیبوں کو متاثر کیا، ندیم بھی اس سے خاصے متاثر ہوئے اور جہاں اپنے افسانوں میں اس جنگ کے ہندوستانی معاشرے پر ہونے والے اثرات اور ان کے متعلق اپنے مشاہدات و تجربات کا بیان کیا وہاں اپنی شاعری میں بھی اس کا اظہار کیا۔
1942 میں ندیم کو بیک وقت تین رسائل، ہفتہ وار '' تہذیب نسواں '' ، ہفتہ وار '' پھول '' اور ماہنامہ '' ادب لطیف '' کی ادارت کا موقعہ ملا۔ یہاں ان کو ادارتی تجربے کے علاوہ معاصر ادبی رجحانات سے بھی خاصی آگاہی ہوئی جس سے ان کی فکر میں تبدیلی رونما ہوئی۔ انھی دنوں ان کی کالم نگاری کا بھی آغاز ہوا۔''1946 میں ندیم کی ادبی شخصیت اپنے ارتقا کے آخری مرحلے میں داخل ہوتی ہے اور ان کے ہاں واضح طور پر تبدیلی ملتی ہے۔
اب وہ رومانوی اثرات سے بالکل آزاد ہو کر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ادب میں خارجیت یا ادب برائے زندگی کے نظریے کو اپنا لیتے ہیں۔ اب ان کے ہاں ذات کے بجائے معاشرہ اہم ہے۔ اسی لیے وہ ذاتی آلام کی دردمندی کے بجائے معاشرے کو سنوارنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
عباس طوروی لکھتے ہیں ''احمد ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت 1963 میں اپنے تکمیلی مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ اب وہ ایک لحاظ سے مکمل ہو چکے ہیں اسی لیے اب ان کے ہاں ماسوا چند چیزوں کے کوئی نیا رجحان پیدا نہیں ہوتا۔ اسی سال انھوں نے اپنے ذاتی رسالے ''فنون'' کا اجرا کیا جس نے انھیں بے شمار ادبی فائدے پہنچائے۔ اب ان کے ہاں سماجی حالات کے مطالعے کا رجحان پختہ اور واضح ہو چکا ہے اور وہ ایک معتدل طرز فکر سے سماجی حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ملک کی سیاسی صورت حال پر ان کی نظر بہت گہری ہے اور فن میں اس کی پیش کش بھی بہت زیادہ ہے، تقریباً ہر اہم سیاسی واقعے کے متعلق کوئی نظم مل جاتی ہے۔ یہی بات عالمی سیاسی صورت حال کے ساتھ ہے۔ دنیا کی بیشتر تحاریک آزادی کے بارے میں ندیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔''
محمد عباس طوروی نے اپنی کتاب میں احمد ندیم قاسمی کی محبت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ندیم 1936میں اس الوہی جذبے سے آشنا ہوئے جسے محبت کہتے ہیں۔ اس خوبصورت حادثے کے متعلق انھوں نے کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی اور نہ اپنے کسی انٹرویو میں کوئی اشارہ دیا مگر ان کی تخلیقات خصوصاً آغاز کی تحریریں اتنا اشارہ ضرور دیتی ہیں کہ ندیم نے کسی سے بے پناہ محبت کی تھی اور جسے وہ پا نہ سکے تھے۔
گھڑی پہلی محبت کی عجب تھی
ابھی تک یاد کے در پر کھڑی ہے
عباس طوروی لکھتے ہیں '' ندیم کی اس محبت کا عرصہ بہت تھوڑا رہا لیکن یہی وہ زمانہ ہے جس کے اثرات ان کی ادبی شخصیت پر حاوی رہے۔ ابھی وہ محبت کے ابتدائی مرحلے یعنی جلوۂ حسن کے سامنے متحیر ہی تھے کہ ان کی محبوبہ جدا ہوگئی۔
اس شدید جھٹکے نے ان کی تخلیقی شخصیت پر بڑے تلخ اثرات مرتب کیے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات اس کی مظہر ہیں، البتہ جوں جوں احساس کی شدت میں کمی آتی گئی، ادبی شخصیت میں بھی ٹھہراؤ آتا گیا۔ شروع کی تخلیقات میں ان تلخ احساسات کے بعد ندیم کے ہاں محبت کا معتدل اور متوازن جذبہ جگہ پاتا ہے اور پھر عشق کا تعلق فانی حدوں سے گزر کر لافانی روح تک وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔
میں عشق ہوں اور جاوداں ہوں
تو حسن ہے اور بے کراں ہے