خواتین اور ان کا مستقبل
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دنیا کے دو مختلف ممالک میں جن کا مذہب ، ثقافت اور تاریخ ایک دوسرے سے بالکل الٹ ہے ، ایسے واقعات پیش آئے جس نے دنیا کو درپیش انتہا پسندی کے خطرے کو دوبارہ اجاگر کردیا۔ دونوں واقعات کی نہ صرف بنیاد ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے بلکہ دونوں ممالک دنیا کے دو الگ الگ خطوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک مشرقی روایات کی امین ایک مذہبی ریاست تو ایک روشن خیال لبرل جمہوریت۔ پہلا واقعہ ایران میں پیش آیا جہاں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو اسکارف نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد ایران بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ دوسرا واقعہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اس وقت پیش آیا جب پاک بھارت میچ کے بعد ہندو اور مسلم کمیونٹی کے درمیان ہنگامے شروع ہوگئے۔
نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کا واقعہ ہو یا کینیڈا میں پاکستانی فیملی کا قتل ہو یا امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں میں چار پاکستانیوں کا قتل یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انتہا پسندی اب مغربی ممالک میں بھی سرایت کر چکی ہے۔9/11 کے بعد جب امریکا نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اس وقت بڑے منظم طریقے سے مذہبی انتہا پسندی خصوصاً اسلامی ممالک کی شدت پسند مذہبی تنظیموں کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے شدت پسندی کی اصل تعریف کو ہی تبدیل کردیا گیا۔
امریکا اور مغربی ممالک نے طاقت کے بے دریغ استعمال ، بے پناہ وسائل اور پراپیگنڈہ مشینری کی مدد سے القاعدہ ،آئی ایس آئی ایس، افریقہ میں الشباب جیسی انتہا پسند تنظیموں کو تو شکست دیکر قلیل مدتی مقاصد حاصل کر لیے۔ دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت میں قومیت کی بنیاد پر بوئی جانے والی ریاستی شدت پسندی اور مغربی ممالک میں نسلی بنیادوں پر موجود نفرت اور اسلامو فوبیا جیسے مسائل کو دانستہ نظرانداز کیا جو آج ایک عفریت کی صورت دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف صورتوں میں پھیلی انتہا پسندی اور شدت پسندی آج ماحولیاتی تبدیلی ، عالمی دہشت گردی اور تشدد کی طرح ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اچانک شروع ہونے والے ہندو مسلم ہنگامے بھی اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں موجود انتہا پسندی کسی بھی وقت پرتشدد ہنگاموں اور فسادات کا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ایران میں شروع ہونے والوں پرتشدد مظاہروں کی فوری وجہ تو کرد خاتون مہسا امینی کی اسکارف نہ پہننے پر تشدد کے ذریعے ہلاکت تھی لیکن اصل وجہ شخصی آزادی پر ریاستی کنٹرول ، سماجی بے چینی ، سماجی اقدار کی من پسند تعریف اور سماج پر مذہبی رہنماؤں کا سخت کنٹرول وہ عوامل تھے جو پرتشدد عوامی ردعمل کے طور پر سامنے آئے۔
سماجی اقدار کی من پسند تعریف اور شخصی آزادی پر کنٹرول جیسے سماجی مسائل کا سامنا صرف ایران جیسے سخت گیر مذہبی کو ہی نہیں بلکہ فرانس جیسے لبرل ، سیکولر اور روشن خیال ملک میں بھی خواتین کے اسکارف پر پہننے پر پابندی نے روشن خیالی اور سیکولر ازم کے پیچھے چھپا انتہا پسند چہرہ بے نقاب کردیا۔ اس وقت دنیا میں انتہا پسندی کا سب سے بڑا پوٹینشل تھریٹ بھارت ہے۔
جہاں بی جے پی کی صورت ایک سخت گیر نظریات کی حامل ہندو شدت پسند جماعت برسر اقتدار ہے جو جب سے اقتدار میں آئی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب مسلم آبادی کی مذہبی ، سماجی شناخت ، عبادت گاہوں پر کو نشانہ بنانے کی خبر نہ آئی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت میں ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے ، لیکن ان میں حکومت اور انتظامیہ اس طرح براہ راست ملوث نہیں ہوتی تھی۔
اب تو لگتا ہے بھارت نے ریاستی سرپرستی میں مسلم اور سکھ اقلیتوں کی مذہبی اور سماجی شناخت کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے اور بی جے پی بھارت کا سیکولر تشخص بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے صرف صرف بھارت ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور روشن خیالی کے علمبردار جدید مغربی ممالک بھی اسکارف پر پابندی ، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، آزادی اظہار رائے کے نام پر نفرت انگیز لٹریچر کی ترویج کے ذریعے کسی نہ کسی صورت انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے ذمے دار ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی ترویج اور اسلامو فوبیا کی صورت انتہا پسندی ایک منہ زور وبا کی صورت مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود نفرت انگیز مواد اور اظہار رائے کے نام پر میڈیا کی بے لگام آزادی مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں مختلف زبان ، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسانوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔
اس وقت دنیا کی 50 فیصد یعنی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی پیش آنے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے خواتین براہ راست متاثر ہوتی ہیں چاہے وہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر بننے والے متنازعہ شہریت کے قوانین ہوں یا فرانس میں اسکارف پر پابندی ، ایران میں اسکارف نہ پہننے پر شروع ہونے والے پرتشدد مظاہرے ہوں یا برطانیہ کے شہر لیسٹر میں پاک بھارت میچ کے بعد ہونے والے ہندو مسلم مظاہرے خواتین ہر جگہ انتہا پسندی کا نشانہ بنتی ہیں۔
امریکا جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست میں بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ بہت سارے مغربی ممالک میں اب بھی خواتین کو ملازمتوں کی فراہمی اور سالانہ چھٹیوں اور میٹرنٹی لیو مانگنے پر نوکریوں سے فارغ کردیا جاتا ہے۔
پسماندہ ممالک کی تو بات ہی کیا کرنی امریکا اور یورپ جیسے جدید ممالک میں آج بھی خواتین کو معاشی ترقی سے متعلق پالیسیوں میں شریک نہیں کیا جاتا۔ زیادہ نہیں اگر اقوام متحدہ مذہبی شدت پسندی اور عالمی دہشت گردی کی مانند اسلامو فوبیا ، نفرت انگیز مواد کی ترویج ، قومیت اور نسلی بنیادوں پر استوار انتہا پسندی کے خلاف عالمی برادری سے مشترکہ قرارداد ہی پاس کروا دے تو یہ کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
ایک مشرقی روایات کی امین ایک مذہبی ریاست تو ایک روشن خیال لبرل جمہوریت۔ پہلا واقعہ ایران میں پیش آیا جہاں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو اسکارف نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد ایران بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ دوسرا واقعہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اس وقت پیش آیا جب پاک بھارت میچ کے بعد ہندو اور مسلم کمیونٹی کے درمیان ہنگامے شروع ہوگئے۔
نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کا واقعہ ہو یا کینیڈا میں پاکستانی فیملی کا قتل ہو یا امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں میں چار پاکستانیوں کا قتل یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انتہا پسندی اب مغربی ممالک میں بھی سرایت کر چکی ہے۔9/11 کے بعد جب امریکا نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اس وقت بڑے منظم طریقے سے مذہبی انتہا پسندی خصوصاً اسلامی ممالک کی شدت پسند مذہبی تنظیموں کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے شدت پسندی کی اصل تعریف کو ہی تبدیل کردیا گیا۔
امریکا اور مغربی ممالک نے طاقت کے بے دریغ استعمال ، بے پناہ وسائل اور پراپیگنڈہ مشینری کی مدد سے القاعدہ ،آئی ایس آئی ایس، افریقہ میں الشباب جیسی انتہا پسند تنظیموں کو تو شکست دیکر قلیل مدتی مقاصد حاصل کر لیے۔ دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت میں قومیت کی بنیاد پر بوئی جانے والی ریاستی شدت پسندی اور مغربی ممالک میں نسلی بنیادوں پر موجود نفرت اور اسلامو فوبیا جیسے مسائل کو دانستہ نظرانداز کیا جو آج ایک عفریت کی صورت دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف صورتوں میں پھیلی انتہا پسندی اور شدت پسندی آج ماحولیاتی تبدیلی ، عالمی دہشت گردی اور تشدد کی طرح ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
برطانیہ کے شہر لیسٹر میں اچانک شروع ہونے والے ہندو مسلم ہنگامے بھی اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں موجود انتہا پسندی کسی بھی وقت پرتشدد ہنگاموں اور فسادات کا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ایران میں شروع ہونے والوں پرتشدد مظاہروں کی فوری وجہ تو کرد خاتون مہسا امینی کی اسکارف نہ پہننے پر تشدد کے ذریعے ہلاکت تھی لیکن اصل وجہ شخصی آزادی پر ریاستی کنٹرول ، سماجی بے چینی ، سماجی اقدار کی من پسند تعریف اور سماج پر مذہبی رہنماؤں کا سخت کنٹرول وہ عوامل تھے جو پرتشدد عوامی ردعمل کے طور پر سامنے آئے۔
سماجی اقدار کی من پسند تعریف اور شخصی آزادی پر کنٹرول جیسے سماجی مسائل کا سامنا صرف ایران جیسے سخت گیر مذہبی کو ہی نہیں بلکہ فرانس جیسے لبرل ، سیکولر اور روشن خیال ملک میں بھی خواتین کے اسکارف پر پہننے پر پابندی نے روشن خیالی اور سیکولر ازم کے پیچھے چھپا انتہا پسند چہرہ بے نقاب کردیا۔ اس وقت دنیا میں انتہا پسندی کا سب سے بڑا پوٹینشل تھریٹ بھارت ہے۔
جہاں بی جے پی کی صورت ایک سخت گیر نظریات کی حامل ہندو شدت پسند جماعت برسر اقتدار ہے جو جب سے اقتدار میں آئی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب مسلم آبادی کی مذہبی ، سماجی شناخت ، عبادت گاہوں پر کو نشانہ بنانے کی خبر نہ آئی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت میں ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے ، لیکن ان میں حکومت اور انتظامیہ اس طرح براہ راست ملوث نہیں ہوتی تھی۔
اب تو لگتا ہے بھارت نے ریاستی سرپرستی میں مسلم اور سکھ اقلیتوں کی مذہبی اور سماجی شناخت کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے اور بی جے پی بھارت کا سیکولر تشخص بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے صرف صرف بھارت ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور روشن خیالی کے علمبردار جدید مغربی ممالک بھی اسکارف پر پابندی ، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، آزادی اظہار رائے کے نام پر نفرت انگیز لٹریچر کی ترویج کے ذریعے کسی نہ کسی صورت انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے ذمے دار ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی ترویج اور اسلامو فوبیا کی صورت انتہا پسندی ایک منہ زور وبا کی صورت مغربی ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود نفرت انگیز مواد اور اظہار رائے کے نام پر میڈیا کی بے لگام آزادی مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں مختلف زبان ، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسانوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔
اس وقت دنیا کی 50 فیصد یعنی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی پیش آنے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے خواتین براہ راست متاثر ہوتی ہیں چاہے وہ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر بننے والے متنازعہ شہریت کے قوانین ہوں یا فرانس میں اسکارف پر پابندی ، ایران میں اسکارف نہ پہننے پر شروع ہونے والے پرتشدد مظاہرے ہوں یا برطانیہ کے شہر لیسٹر میں پاک بھارت میچ کے بعد ہونے والے ہندو مسلم مظاہرے خواتین ہر جگہ انتہا پسندی کا نشانہ بنتی ہیں۔
امریکا جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست میں بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ بہت سارے مغربی ممالک میں اب بھی خواتین کو ملازمتوں کی فراہمی اور سالانہ چھٹیوں اور میٹرنٹی لیو مانگنے پر نوکریوں سے فارغ کردیا جاتا ہے۔
پسماندہ ممالک کی تو بات ہی کیا کرنی امریکا اور یورپ جیسے جدید ممالک میں آج بھی خواتین کو معاشی ترقی سے متعلق پالیسیوں میں شریک نہیں کیا جاتا۔ زیادہ نہیں اگر اقوام متحدہ مذہبی شدت پسندی اور عالمی دہشت گردی کی مانند اسلامو فوبیا ، نفرت انگیز مواد کی ترویج ، قومیت اور نسلی بنیادوں پر استوار انتہا پسندی کے خلاف عالمی برادری سے مشترکہ قرارداد ہی پاس کروا دے تو یہ کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔