الفاظ کا تقدس
کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے ممبران پارلیمان اپنے کاغذات نامزدگی پیش کرتے تو ان کی جانچ پڑتال کے بعد انھیں صادق اور امین قرار دیا جاتا اور یوں وہ پارلیمان کی رکنیت کے اہل قرار پاتے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایت پہلے سے چلی آتی ہے۔
راقم الحروف نے اس وقت ایک کالم لکھا ، جس میں لکھا کہ صادق اور امین کی صفات رسول اللہؐ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور صادق و امین کہتے ہی صرف ایک ہستی کا تصور ابھرتا ہے اور وہ ہے حضرت محمد ﷺ ۔ اس لیے اس صداقت نامے سے صادق اور امین کے الفاظ نکال دیے جائیں اور ان کے متبادل الفاظ مثلاً سچے اور امانت دار یا اس معنی پر مشتمل الفاظ رکھ لیے جائیں کیونکہ یہ الفاظ زمانہ جاہلیت میں کفار قریش مکہ رسول اللہؐ کے لیے استعمال کرتے تھے اور چودہ سو سال سے یہ الفاظ اسی ایک ذات کے لیے مخصوص ہیں۔ انھیں ان کے معاشرے نے اپنی تمام مخالفتوں کے باوجود صادق اور امین قرار دیا اور ڈیڑھ ہزار سال سے کسی دوسری شخصیت کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ اس لیے انھیں آنحضورؐ کا لقب سمجھنا چاہیے اور کوئی دوسرا شخص وہ کتنا ہی سچا اور امانت دار کیوں نہ رہا ہو کبھی صادق و امین کے خطابات سے نہیں نوازا گیا۔
لیکن ہم کون سے بزرجمہر تھے ، کس ہنر میں یکتا تھے یا کون سے ایسے انٹلیکچوئل تھے کہ ہماری بات پر توجہ دی جاتی۔ پتا نہیں کسی نے اس کالم کو توجہ سے پڑھا بھی تھا بھی یا نہیں۔ ہماری اس صدا کو جو بہ صحرا ثابت ہوئی کسی نے توجہ سے نہیں سنا۔ نہ اس کی حمایت ہوئی نہ مخالفت اس لیے ہم نے اس کو اپنی ہی بدنصیبی تصور کیا۔
اب کوئی سال بھر گزرنے کے بعد اللہ نے اپنی ایک بندی کے دل میں وہی بات ڈال دی جو ہمارے قلم سے نکلی تھی۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے آرٹیکل 62ون ایف میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے صادق اور امین کی عبارت حذف کردی جائے اور ان الفاظ کے بجائے راست گو اور وفا شعارکے الفاظ درج کیے جائیں کیونکہ صادق اور امین دنیا میں صرف نبی کریمؐ کی ذات اقدس ہے۔ یہ ٹھیک وہی بات ہے جو ہم نے اپنے کالم میں کہی تھی۔ اس لیے یہ بل پیش کیے جانے پر جتنی خوشی ہمیں ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔
ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن میں جو بات آئی تھی اور جس کا ہم نے اظہار بھی علی الاعلان کیا تھا وہی بات اب ایک اور ذات کے ذہن میں بھی آئی اور یوں ہماری بات کی صداقت پر مہر لگ گئی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ بل کا کیا ہوگا۔ حسب قاعدہ وہ متعلقہ کمیٹی کو جائے گا اور اگر وہاں اس پر اتفاق ہو گیا تو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا اور وہاں پاس ہو گیا تو قانون بن جائے گا۔ خیال تو یہ ہے کہ پلوشہ خان صاحبہ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور جو دو ٹوک بات کہی ہے اس کی مخالفت آسان نہیں۔
ہم نے اس ساری کارروائی کو خدا کی قدرت سمجھا ہے ، جو بات ہم نے بزعم خود بڑے طمطراق کے ساتھ لکھی تھی اس پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی اور بات رفت گزشت ہوگئی تھی ، مگر اللہ کو اپنے محبوب کی خصوصیت عزیز تھی اس لیے اس نے اپنی قدرت کا مظاہرہ یوں کیا کہ یہی بات ایک سینیٹر پلوشہ خان کے قلب و ذہن پر اتاری اور انھوں نے اسے ایک بل کی شکل میں سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کردیا۔ توقع ہے کہ جب یہ بل سینیٹ میں آئے گا تو کسی کو اس کی مخالفت کی ہمت نہیں ہوگی اور یہ باآسانی پاس ہوجائے گا۔
صادق و امین کا منصب عظیم جو رسول مکرمؐ کی ذات سے مخصوص ہے وہ ہماری پارلیمان کے ممبران کے لیے استعمال کیا جائے یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے۔ سیاستدانوں اور سیاسی لوگوں کا جس طرح ہمارے معاشرے سے اعتبار اٹھا ہے اس کے پیش نظر ہمیں توقع ہے کہ یہ بل پاس ہو جائے گا اور لفظوں کا تقدس ایک بار پھر بحال ہو جائے۔ حق حق دار تک پہنچے گا کیونکہ بہ ظاہر فیصلہ قدرت کی طرف سے رحمت نظر آتا ہے۔ اللہ پلوشہ خان کو جزائے خیر دے اور ان کی فکر میں مزید تابانی پیدا فرمائے۔
راقم الحروف نے اس وقت ایک کالم لکھا ، جس میں لکھا کہ صادق اور امین کی صفات رسول اللہؐ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور صادق و امین کہتے ہی صرف ایک ہستی کا تصور ابھرتا ہے اور وہ ہے حضرت محمد ﷺ ۔ اس لیے اس صداقت نامے سے صادق اور امین کے الفاظ نکال دیے جائیں اور ان کے متبادل الفاظ مثلاً سچے اور امانت دار یا اس معنی پر مشتمل الفاظ رکھ لیے جائیں کیونکہ یہ الفاظ زمانہ جاہلیت میں کفار قریش مکہ رسول اللہؐ کے لیے استعمال کرتے تھے اور چودہ سو سال سے یہ الفاظ اسی ایک ذات کے لیے مخصوص ہیں۔ انھیں ان کے معاشرے نے اپنی تمام مخالفتوں کے باوجود صادق اور امین قرار دیا اور ڈیڑھ ہزار سال سے کسی دوسری شخصیت کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ اس لیے انھیں آنحضورؐ کا لقب سمجھنا چاہیے اور کوئی دوسرا شخص وہ کتنا ہی سچا اور امانت دار کیوں نہ رہا ہو کبھی صادق و امین کے خطابات سے نہیں نوازا گیا۔
لیکن ہم کون سے بزرجمہر تھے ، کس ہنر میں یکتا تھے یا کون سے ایسے انٹلیکچوئل تھے کہ ہماری بات پر توجہ دی جاتی۔ پتا نہیں کسی نے اس کالم کو توجہ سے پڑھا بھی تھا بھی یا نہیں۔ ہماری اس صدا کو جو بہ صحرا ثابت ہوئی کسی نے توجہ سے نہیں سنا۔ نہ اس کی حمایت ہوئی نہ مخالفت اس لیے ہم نے اس کو اپنی ہی بدنصیبی تصور کیا۔
اب کوئی سال بھر گزرنے کے بعد اللہ نے اپنی ایک بندی کے دل میں وہی بات ڈال دی جو ہمارے قلم سے نکلی تھی۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے آرٹیکل 62ون ایف میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے صادق اور امین کی عبارت حذف کردی جائے اور ان الفاظ کے بجائے راست گو اور وفا شعارکے الفاظ درج کیے جائیں کیونکہ صادق اور امین دنیا میں صرف نبی کریمؐ کی ذات اقدس ہے۔ یہ ٹھیک وہی بات ہے جو ہم نے اپنے کالم میں کہی تھی۔ اس لیے یہ بل پیش کیے جانے پر جتنی خوشی ہمیں ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔
ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن میں جو بات آئی تھی اور جس کا ہم نے اظہار بھی علی الاعلان کیا تھا وہی بات اب ایک اور ذات کے ذہن میں بھی آئی اور یوں ہماری بات کی صداقت پر مہر لگ گئی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ بل کا کیا ہوگا۔ حسب قاعدہ وہ متعلقہ کمیٹی کو جائے گا اور اگر وہاں اس پر اتفاق ہو گیا تو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا اور وہاں پاس ہو گیا تو قانون بن جائے گا۔ خیال تو یہ ہے کہ پلوشہ خان صاحبہ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور جو دو ٹوک بات کہی ہے اس کی مخالفت آسان نہیں۔
ہم نے اس ساری کارروائی کو خدا کی قدرت سمجھا ہے ، جو بات ہم نے بزعم خود بڑے طمطراق کے ساتھ لکھی تھی اس پر کسی نے توجہ نہیں دی تھی اور بات رفت گزشت ہوگئی تھی ، مگر اللہ کو اپنے محبوب کی خصوصیت عزیز تھی اس لیے اس نے اپنی قدرت کا مظاہرہ یوں کیا کہ یہی بات ایک سینیٹر پلوشہ خان کے قلب و ذہن پر اتاری اور انھوں نے اسے ایک بل کی شکل میں سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کردیا۔ توقع ہے کہ جب یہ بل سینیٹ میں آئے گا تو کسی کو اس کی مخالفت کی ہمت نہیں ہوگی اور یہ باآسانی پاس ہوجائے گا۔
صادق و امین کا منصب عظیم جو رسول مکرمؐ کی ذات سے مخصوص ہے وہ ہماری پارلیمان کے ممبران کے لیے استعمال کیا جائے یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے۔ سیاستدانوں اور سیاسی لوگوں کا جس طرح ہمارے معاشرے سے اعتبار اٹھا ہے اس کے پیش نظر ہمیں توقع ہے کہ یہ بل پاس ہو جائے گا اور لفظوں کا تقدس ایک بار پھر بحال ہو جائے۔ حق حق دار تک پہنچے گا کیونکہ بہ ظاہر فیصلہ قدرت کی طرف سے رحمت نظر آتا ہے۔ اللہ پلوشہ خان کو جزائے خیر دے اور ان کی فکر میں مزید تابانی پیدا فرمائے۔