قرارداد پاکستان اور کانگریس کی منفی سیاست
قرار داد پاکستان کے حوالے سے کانگریس کی متعصبانہ سیاست نے اس کے سیاسی کردارپرجو دھبا لگایا وہ کبھی نہ دھل سکا
قرار داد پاکستان کے حوالے سے کانگریس کی متعصبانہ سیاست نے اس کے سیاسی کردارپرجو دھبا لگایا وہ کبھی نہ دھل سکا۔
تعصب اور غصے کی بنیاد پر ہونے والے فیصلے کسی اور کو نقصان پہنچا سکیں یا نہ پہنچا سکیں البتہ خود انہی لوگوں، گروہوں اور پارٹیوں کے لیے بھیانک ضرور ثابت ہوتے ہیں جو ان رویوں کی علمبردار ہوتی ہیں ۔ یہاں ہم 23 مارچ کی قرارداد کے حوالہ سے کانگریس کی اس سازشی اورمتعصبانہ سیاست کا احوال بیان کریں گے کہ جس میں جمعیت علماء ہند بھی اس کے ساتھ تھی۔ 1937 کے صوبائی انتخابات میں آل انڈیا کانگریس کل صوبائی نشستوں میں آدھی سے بھی کم جیت سکی تھی۔ البتہ 5 صوبوں میں اسے اکثریت حاصل تھی جبکہ دو صوبوں میں کانگریس سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعہ اقتدار تک پہنچی اور یوں 7 صوبوں میں اب کانگریس حکومتوں کا حصہ تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کل 1585 صوبائی نشستوں میں کانگریس 45 فیصد سے بھی کم سیٹیں جیتی تھی جو عددی اعتبار سے بھی فیصلہ کن فتح نہیں تھی۔کانگریس نے 707 نشستیں جیتی تھیں جبکہ 385 آزاد امیدوار جیتے تھے۔ یہ ایسی فتح نہیں تھی جس پر غرور کیا جا سکتا۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ برٹش انڈیا کے دو بڑے اور سیاسی مزاحمت کے حوالہ سے تاریخ ساز صوبوں میں کانگریس بری طرح ہار گئی۔ ان دو صوبوں میں ایک تو بنگال تھا جس میں کرشک پرجا پارٹی کے اے کے فضل الحق اور مسلم لیگ نے اکثریتی ووٹ لیے اور مل کر حکومت بھی بنائی۔ 1938 میں اے کے فضل الحق خود مسلم لیگی بن گئے تو پھر بنگال کی تخت نشینی مسلم لیگ کو مل گئی۔ دوسرا صوبہ پنجاب تھا جہاں یونینسٹ پارٹی آف پنجاب نے 175 میں سے 98 نشستیں جیت کر میدان مارا تھا جبکہ کانگریس 18 کا ہندسہ عبور نہ کرسکی۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کانگریس مخالف صوبوں میں مسلم اکثریت رہتی تھی۔ بس ان حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس میں پنجاب و بنگال کے بارے میں تعصب پروان چڑھنے لگا۔ یہی نہیں بلکہ سندھ میں کانگریس 60 میں سے محض 7 نشستیں جیتی تو سرحد میں خان عبدالغفار خان اور خان عبدالقیوم خان نے مل کر بھی کانگریس کو 50 میں سے 19 سیٹیں جتوائی تھیں۔ دوسری طرف مسلم اقلیتی صوبوں یعنی یو پی، سی پی، بہار وغیرہ میں کامیاب اتحادوں کے ذریعہ مسلم لیگ نے اکثریتی مسلم نشستیں حاصل کیں کیونکہ زیرک محمد علی جناح نے مسلم پارلیمانی بورڈوں کی تشکیل سے جمعیت علما ہند اور خلافت کمیٹیوں کی باقیات کو بھی مسلم لیگ کے ساتھ جوڑ لیا تھا۔ گو کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرتھی مگر کانگریس کا مسلم نشستیں نہ جیتنا ایک تاثر ضرور ابھارتا تھا۔ ویسے بھی ابھی جمعیت علماء ہند کے کرتا دھرتا مولانا کفایت اللہ تھے جو کانگریس سے تعلق کو اپنے لیے زہرقاتل سمجھتے تھے انہی کی قیادت میں جمعیت علماء ہند نے نہ صرف نہرو رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ 1937 کے انتخابات میں بھی انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا۔
یوپی کے صوبائی انتخابات میں قائداعظم نے مسلم پارلیمانی بورڈ میں خلافت کمیٹی یوپی کے کرتا دھرتا چوہدری خلیق الزمان کے گروپ کو لیاقت علی خان کی مخالفت کے باوجود اولیت دی اور ا نتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت درست تھی۔ لیاقت علی خان نے غصہ میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا تھا۔
1937 کے نتائج کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے جواہر لعل نہروکو 6 خطوط لکھے اور مفاہمت کی پیشکش بھی کی۔ مگر بقول اے ایچ سیروائی نہرو نے ان کا ہتک آمیز جواب دیا۔ یہی نہیں بلکہ دونوں کانگریس مخالف صوبوں میں آل انڈیا کانگریس نے ''مسلم رابطہ مہم'' کے نام پر ناکام مہمیں چلائیں کہ جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، ترقی پسند رہنما ڈاکٹر اشرف اور عاشق حسین بٹالوی پیش پیش تھے۔ یہ سب اس منفی کی سیاست کی ابتداء تھی جس نے کانگریس کو تعصب و تفاخر کی طرف دھکیل دیا۔
23 مارچ 1940 سے قبل اس تفاخر و تعصب میں کانگریس نے نہ صرف صوبائی حکومتوں کی مدد سے پنجاب، بنگال، جناح اور مسلم لیگ کے خلاف محاذ کھولے بلکہ سبھاش چندربوس اور ٹیگور کی مخالفت کے باوجود مسلم اقلیتی صوبوں میں کہیں ''بندے ماترم'' جیسے متنازع ترانہ کو اپنایا تو کہیں ''ہندی زبان'' کے نفاذ کے ذریعے سیاسی حریفوں کو زچ کیا۔ طاقت کے اس نشے میںکانگریس نے دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر انگریز حکمرانوں کو بھی بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہی کانگریس تھی جو 1938 میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں کی جانے والی بدترین ترمیم پر مجرمانہ طور پر خاموش رہ کر انگریزوں کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتی رہی تھی۔ اس ترمیم کے تحت فوجی بھرتی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو مجرم گردانا گیا تھا۔
اس تمام سیاسی پس منظر میں 23 مارچ 1940 کو شہر لاہور میں مسلم لیگ ایک فیصلہ کن جلسہ کر رہی تھی۔ اس جلسہ میں پنجاب اور بنگال کے وزیراعظموں کی اجلاس میں شرکت نے اس کی اہمیت کواور بھی بڑھا دیاتھا ، کہ اب مسلم لیگ 1937 کے انتخابات کی طرح یک و تنہا نہیں تھی بلکہ پنجاب و بنگال کی طاقت اس کی پشت پر تھی۔ لاہور میں جو تاریخی قرارداد منظور کی گئی اس میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل اکائیوں کی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نے اپنا سارا زور پنجاب و بنگال کی طرف ڈال دیا۔ یہ وہی بصیرت تھی جس کا اظہار علامہ قبال نے 1930 کے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں کیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد کانگریس کو اپنی ناکام سیاست کا اعتراف کرلینا چاہیے تھا کہ خود کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن و سینئر رہنما کانجی دوارکاداس نے بھی اپنی کتاب ''آزادی کی طرف 10 سال'' میں اسی پیرائے میں تجزیہ کیا ہے۔ مگر کانگریس تجزیہ کرنے سے بوجوہ محروم تھی کہ اس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔
یہی نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند کی کمان بھی اعتدال پسند کفایت اللہ کی جگہ اب حسین احمد مدنی کے ہاتھ میں تھی۔ اس دور میں قرارداد لاہور کا تمسخر اڑانے، اس پر طرح طرح کے جملے کسنے اوراسے قراراداد لاہور کی بجائے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کہنے جیسی باتیں زوروشور سے ہونے لگیں۔ کانگریس نواز اخبارات نے شدومد سے قرارداد لاہور کی مخالفت کی لیکن کا مسلم لیگ کو نقصان کے بجائے الٹا فائدہ ہوا اورپورے برصغیر میں اس قرارداد کی گونج سنائی دینے لگی۔ اس غصہ میں کانگریس والے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامہ پر بھی نظر نہ رکھ سکے۔ 14 اگست 1941 کو برطانیہ والے امریکہ کو نیا آقا تسلیم کر کے اٹلانٹک چارٹر پر دستخط کر چکے تھے جبکہ دسمبر 1941 کو 26 ممالک بشمول سوویت یونین ''لینڈ اینڈ لیز'' کے راستہ امریکا سے قرضے اور اسلحہ لینے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ مگر کانگریس والے غصہ اور بغض میں ایسے بھرے بیٹھے تھے کہ انہوں نے یک و تنہا ''انڈیا چھوڑدو'' تحریک چلا دی۔ مجلس احرار نے بھی کانگریس کا ساتھ نہ دیا جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی ان سے الگ رہی۔ بس ان حالات اور پے در پے ناکامیوں نے کانگریس کا بغض کچھ زیادہ ہی بڑھا دیا۔ قرارداد لاہور کی جس قدر مخالفت کی جاتی تھی اس کا فائدہ مسلم لیگ کو ہوتا تھا کہ اب وہ پنجاب میں یونینسٹوں سے بھی تگڑی ہونے لگی تھی۔ یوں قرارداد لاہور اب حقیقت میں قرارداد پاکستان کا روپ دھارنے لگی جبکہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کی شکل میں اپنی آزادی نظر آنے لگی۔ کانگریس میں موجود اعتدال پسند رہنما راج گوپال اچاریہ نے 1944 میں مسلم لیگ اور کانگریس میں دوریاں ختم کرنے کے لیے سی آر فارمولا پیش کیا جس میں اکثریتی مسلم علاقوں کے مفادات اور یہاں ریفرنڈم کی بات کی گئی تھی۔ مگر مہاتما گاندھی نے قائد اعظم سے اپنی ملاقات میں یہ باور کرایا کہ مضبوط صوبوں کے بجائے کانگریس ہندوستان کی تقسیم منظور کرے گی۔
پاکستان کی سکیم منظور ہونے سے محض 10 ماہ قبل انگریز سرکار نے کابینہ مشن کے ذریعہ برصغیر کے مسائل کے حل کے لیے کمزور مرکزاور مضبوط صوبوں کا فارمولا پیش کیا تھا۔ اس فارمولا کو قائداعظم نے منظور کر کے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا تھا جبکہ کانگریس نے اس سے مختلف موقف اپنایا اور کابینہ مشن کی سفارشات رد کرکے تقسیم کی ذمہ دار قرارپائی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کابینہ مشن سے ملتا جلتا خیال مولانا عبیداللہ سندھی 1939 میں اپنے منشور کے ذریعے پیش کر چکے تھے جبکہ خود مولانا آزاد بھی لارڈ ویول کے ساتھ جس اے بی سی پلان پر متفق تھے وہ کابینہ مشن جیسا ہی تھا۔ جب کابینہ مشن پلان آیا تو مولانا سندھی تو راہی ملک عدم ہو چکے تھے مگر آزاد جرأت رندانہ کا مظاہرہ نہ کر سکے اور ''شوبوائے'' کہلوائے۔ کابینہ مشن کو رد کرنے کی وجہ بھی کانگریس کا مضبوط مرکز پر اصرار تھا کہ کابینہ مشن صوبائی خودمختاری کے حق میں تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر جسونت سنگھ نے بھی کانگریس قیادت خصوصاً نہرو، پٹیل اور آزاد کی خوب خبر لی ہے۔ ان کے پیش کردہ حوالہ جات میں اولیت خود کانگریس ورکنگ کمیٹی کی قراردادیں ہیں جو خاصے کی چیز ہیں۔
کیونکہ یہ کہانی غصہ اور بغض سے منسلک رویوںکے بارے میں ہے اس لیے آخر میں کانگریس کی اس قرارداد کا ذکر ضروری ہے جو 3 جون کی سکیم سے محض 3 ماہ قبل دلی میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے منظور کی تھی۔ مہاتما گاندھی کے پوتے اور راج گوپال اچاریہ کے داماد راج موہن گاندھی نے اپنی تازہ کتاب ''پنجاب: اورنگ زیب سے ماؤنٹ بیٹن تک'' کے صفحہ 340 پر اس کو نقل کیا ہے۔ یہ قرارداد کانگریس کے سیکولرازم کا پردہ چاک کرنے کا ثبوت ہی نہیں بلکہ کانگریس کی پنجاب دشمنی، مسلم لیگ دشمنی، محمد علی جناح مخالفت اور پاکستان سے چڑنے کا واضح ثبوت بھی ہے۔ خود راج موہن بھی اس قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سوال اٹھانے پر مجبور رہے کہ کانگریس نے خود مذہبی تقسیم کو منظور کر لیا تو پھر پاکستان مخالفت کا اسے کوئی حق نہیں رہتا۔ یہ قرارداد درحقیقت پنجاب سے 1937 اور 1946 کے انتخابات میں شکست کا شاخسانہ تھا یا اس سازش کا حصہ جس کے مطابق تشکیل پاکستان کو ہندو مسلم سکھ فسادات کے دھبوں سے داغدار کرنا لازم ٹھہرا، اس کا تجزیہ آپ خود کرلیں۔
اس قرارداد میں سیکولر کانگریس نے انگریز حکمرانوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب کو مسلم اور غیرمسلم علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس قرارداد کی تاریخ 8 مارچ 1947 ہے۔ ابھی نہ تو 3 جون کی سکیم آئی تھی، نہ بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہوئے تھے اور نہ تبادلہ آبادی کی بات ایجنڈے پر تھی مگر کانگریس یہ سب کرنے کے لیے بیتاب ضرور تھی۔ بس تشکیل پاکستان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پرآبادی کے انخلاء کو جوڑنا وہ بدترین سیاسی فیصلہ تھا جس نے تادم تحریر جنوبی ایشیاء کا جمہوری چہرہ داغدار کیے رکھا ہے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے انخلاء کی کوئی مثال نہیں۔ یہی نہیں جب آخری دنوں میں سبھاش چندر بوس کے بھائی سرت چندربوس اور حسین شہید سہروردی نے تقسیم بنگال کو روکنے کے لیے قائداعظم کی منظوری بھی لے لی تب بھی پٹیل، گاندھی اور نہرو نے بھرے اجلاس میں بنگال کانگریس کے صدر کا دلی اجلاس میں مذاق اڑایا اور تقسیم بنگال کو لازم قرار دیا۔یہ سب اس منفی سیاست کا انجام تھا جس نے کانگریس کے اعتدال پسند لوگوں کو کنارے سے لگایا اور یوں خود پارٹی انتہا پسندیوں کا شکار ہو گئی۔
تعصب اور غصے کی بنیاد پر ہونے والے فیصلے کسی اور کو نقصان پہنچا سکیں یا نہ پہنچا سکیں البتہ خود انہی لوگوں، گروہوں اور پارٹیوں کے لیے بھیانک ضرور ثابت ہوتے ہیں جو ان رویوں کی علمبردار ہوتی ہیں ۔ یہاں ہم 23 مارچ کی قرارداد کے حوالہ سے کانگریس کی اس سازشی اورمتعصبانہ سیاست کا احوال بیان کریں گے کہ جس میں جمعیت علماء ہند بھی اس کے ساتھ تھی۔ 1937 کے صوبائی انتخابات میں آل انڈیا کانگریس کل صوبائی نشستوں میں آدھی سے بھی کم جیت سکی تھی۔ البتہ 5 صوبوں میں اسے اکثریت حاصل تھی جبکہ دو صوبوں میں کانگریس سیاسی گٹھ جوڑ کے ذریعہ اقتدار تک پہنچی اور یوں 7 صوبوں میں اب کانگریس حکومتوں کا حصہ تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کل 1585 صوبائی نشستوں میں کانگریس 45 فیصد سے بھی کم سیٹیں جیتی تھی جو عددی اعتبار سے بھی فیصلہ کن فتح نہیں تھی۔کانگریس نے 707 نشستیں جیتی تھیں جبکہ 385 آزاد امیدوار جیتے تھے۔ یہ ایسی فتح نہیں تھی جس پر غرور کیا جا سکتا۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ برٹش انڈیا کے دو بڑے اور سیاسی مزاحمت کے حوالہ سے تاریخ ساز صوبوں میں کانگریس بری طرح ہار گئی۔ ان دو صوبوں میں ایک تو بنگال تھا جس میں کرشک پرجا پارٹی کے اے کے فضل الحق اور مسلم لیگ نے اکثریتی ووٹ لیے اور مل کر حکومت بھی بنائی۔ 1938 میں اے کے فضل الحق خود مسلم لیگی بن گئے تو پھر بنگال کی تخت نشینی مسلم لیگ کو مل گئی۔ دوسرا صوبہ پنجاب تھا جہاں یونینسٹ پارٹی آف پنجاب نے 175 میں سے 98 نشستیں جیت کر میدان مارا تھا جبکہ کانگریس 18 کا ہندسہ عبور نہ کرسکی۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کانگریس مخالف صوبوں میں مسلم اکثریت رہتی تھی۔ بس ان حالات کو دیکھتے ہوئے کانگریس میں پنجاب و بنگال کے بارے میں تعصب پروان چڑھنے لگا۔ یہی نہیں بلکہ سندھ میں کانگریس 60 میں سے محض 7 نشستیں جیتی تو سرحد میں خان عبدالغفار خان اور خان عبدالقیوم خان نے مل کر بھی کانگریس کو 50 میں سے 19 سیٹیں جتوائی تھیں۔ دوسری طرف مسلم اقلیتی صوبوں یعنی یو پی، سی پی، بہار وغیرہ میں کامیاب اتحادوں کے ذریعہ مسلم لیگ نے اکثریتی مسلم نشستیں حاصل کیں کیونکہ زیرک محمد علی جناح نے مسلم پارلیمانی بورڈوں کی تشکیل سے جمعیت علما ہند اور خلافت کمیٹیوں کی باقیات کو بھی مسلم لیگ کے ساتھ جوڑ لیا تھا۔ گو کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرتھی مگر کانگریس کا مسلم نشستیں نہ جیتنا ایک تاثر ضرور ابھارتا تھا۔ ویسے بھی ابھی جمعیت علماء ہند کے کرتا دھرتا مولانا کفایت اللہ تھے جو کانگریس سے تعلق کو اپنے لیے زہرقاتل سمجھتے تھے انہی کی قیادت میں جمعیت علماء ہند نے نہ صرف نہرو رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ 1937 کے انتخابات میں بھی انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا۔
یوپی کے صوبائی انتخابات میں قائداعظم نے مسلم پارلیمانی بورڈ میں خلافت کمیٹی یوپی کے کرتا دھرتا چوہدری خلیق الزمان کے گروپ کو لیاقت علی خان کی مخالفت کے باوجود اولیت دی اور ا نتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت درست تھی۔ لیاقت علی خان نے غصہ میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا تھا۔
1937 کے نتائج کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے جواہر لعل نہروکو 6 خطوط لکھے اور مفاہمت کی پیشکش بھی کی۔ مگر بقول اے ایچ سیروائی نہرو نے ان کا ہتک آمیز جواب دیا۔ یہی نہیں بلکہ دونوں کانگریس مخالف صوبوں میں آل انڈیا کانگریس نے ''مسلم رابطہ مہم'' کے نام پر ناکام مہمیں چلائیں کہ جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، ترقی پسند رہنما ڈاکٹر اشرف اور عاشق حسین بٹالوی پیش پیش تھے۔ یہ سب اس منفی کی سیاست کی ابتداء تھی جس نے کانگریس کو تعصب و تفاخر کی طرف دھکیل دیا۔
23 مارچ 1940 سے قبل اس تفاخر و تعصب میں کانگریس نے نہ صرف صوبائی حکومتوں کی مدد سے پنجاب، بنگال، جناح اور مسلم لیگ کے خلاف محاذ کھولے بلکہ سبھاش چندربوس اور ٹیگور کی مخالفت کے باوجود مسلم اقلیتی صوبوں میں کہیں ''بندے ماترم'' جیسے متنازع ترانہ کو اپنایا تو کہیں ''ہندی زبان'' کے نفاذ کے ذریعے سیاسی حریفوں کو زچ کیا۔ طاقت کے اس نشے میںکانگریس نے دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر انگریز حکمرانوں کو بھی بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہی کانگریس تھی جو 1938 میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں کی جانے والی بدترین ترمیم پر مجرمانہ طور پر خاموش رہ کر انگریزوں کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتی رہی تھی۔ اس ترمیم کے تحت فوجی بھرتی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو مجرم گردانا گیا تھا۔
اس تمام سیاسی پس منظر میں 23 مارچ 1940 کو شہر لاہور میں مسلم لیگ ایک فیصلہ کن جلسہ کر رہی تھی۔ اس جلسہ میں پنجاب اور بنگال کے وزیراعظموں کی اجلاس میں شرکت نے اس کی اہمیت کواور بھی بڑھا دیاتھا ، کہ اب مسلم لیگ 1937 کے انتخابات کی طرح یک و تنہا نہیں تھی بلکہ پنجاب و بنگال کی طاقت اس کی پشت پر تھی۔ لاہور میں جو تاریخی قرارداد منظور کی گئی اس میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل اکائیوں کی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نے اپنا سارا زور پنجاب و بنگال کی طرف ڈال دیا۔ یہ وہی بصیرت تھی جس کا اظہار علامہ قبال نے 1930 کے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں کیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد کانگریس کو اپنی ناکام سیاست کا اعتراف کرلینا چاہیے تھا کہ خود کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن و سینئر رہنما کانجی دوارکاداس نے بھی اپنی کتاب ''آزادی کی طرف 10 سال'' میں اسی پیرائے میں تجزیہ کیا ہے۔ مگر کانگریس تجزیہ کرنے سے بوجوہ محروم تھی کہ اس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔
یہی نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند کی کمان بھی اعتدال پسند کفایت اللہ کی جگہ اب حسین احمد مدنی کے ہاتھ میں تھی۔ اس دور میں قرارداد لاہور کا تمسخر اڑانے، اس پر طرح طرح کے جملے کسنے اوراسے قراراداد لاہور کی بجائے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کہنے جیسی باتیں زوروشور سے ہونے لگیں۔ کانگریس نواز اخبارات نے شدومد سے قرارداد لاہور کی مخالفت کی لیکن کا مسلم لیگ کو نقصان کے بجائے الٹا فائدہ ہوا اورپورے برصغیر میں اس قرارداد کی گونج سنائی دینے لگی۔ اس غصہ میں کانگریس والے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامہ پر بھی نظر نہ رکھ سکے۔ 14 اگست 1941 کو برطانیہ والے امریکہ کو نیا آقا تسلیم کر کے اٹلانٹک چارٹر پر دستخط کر چکے تھے جبکہ دسمبر 1941 کو 26 ممالک بشمول سوویت یونین ''لینڈ اینڈ لیز'' کے راستہ امریکا سے قرضے اور اسلحہ لینے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ مگر کانگریس والے غصہ اور بغض میں ایسے بھرے بیٹھے تھے کہ انہوں نے یک و تنہا ''انڈیا چھوڑدو'' تحریک چلا دی۔ مجلس احرار نے بھی کانگریس کا ساتھ نہ دیا جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی ان سے الگ رہی۔ بس ان حالات اور پے در پے ناکامیوں نے کانگریس کا بغض کچھ زیادہ ہی بڑھا دیا۔ قرارداد لاہور کی جس قدر مخالفت کی جاتی تھی اس کا فائدہ مسلم لیگ کو ہوتا تھا کہ اب وہ پنجاب میں یونینسٹوں سے بھی تگڑی ہونے لگی تھی۔ یوں قرارداد لاہور اب حقیقت میں قرارداد پاکستان کا روپ دھارنے لگی جبکہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کی شکل میں اپنی آزادی نظر آنے لگی۔ کانگریس میں موجود اعتدال پسند رہنما راج گوپال اچاریہ نے 1944 میں مسلم لیگ اور کانگریس میں دوریاں ختم کرنے کے لیے سی آر فارمولا پیش کیا جس میں اکثریتی مسلم علاقوں کے مفادات اور یہاں ریفرنڈم کی بات کی گئی تھی۔ مگر مہاتما گاندھی نے قائد اعظم سے اپنی ملاقات میں یہ باور کرایا کہ مضبوط صوبوں کے بجائے کانگریس ہندوستان کی تقسیم منظور کرے گی۔
پاکستان کی سکیم منظور ہونے سے محض 10 ماہ قبل انگریز سرکار نے کابینہ مشن کے ذریعہ برصغیر کے مسائل کے حل کے لیے کمزور مرکزاور مضبوط صوبوں کا فارمولا پیش کیا تھا۔ اس فارمولا کو قائداعظم نے منظور کر کے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا تھا جبکہ کانگریس نے اس سے مختلف موقف اپنایا اور کابینہ مشن کی سفارشات رد کرکے تقسیم کی ذمہ دار قرارپائی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کابینہ مشن سے ملتا جلتا خیال مولانا عبیداللہ سندھی 1939 میں اپنے منشور کے ذریعے پیش کر چکے تھے جبکہ خود مولانا آزاد بھی لارڈ ویول کے ساتھ جس اے بی سی پلان پر متفق تھے وہ کابینہ مشن جیسا ہی تھا۔ جب کابینہ مشن پلان آیا تو مولانا سندھی تو راہی ملک عدم ہو چکے تھے مگر آزاد جرأت رندانہ کا مظاہرہ نہ کر سکے اور ''شوبوائے'' کہلوائے۔ کابینہ مشن کو رد کرنے کی وجہ بھی کانگریس کا مضبوط مرکز پر اصرار تھا کہ کابینہ مشن صوبائی خودمختاری کے حق میں تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر جسونت سنگھ نے بھی کانگریس قیادت خصوصاً نہرو، پٹیل اور آزاد کی خوب خبر لی ہے۔ ان کے پیش کردہ حوالہ جات میں اولیت خود کانگریس ورکنگ کمیٹی کی قراردادیں ہیں جو خاصے کی چیز ہیں۔
کیونکہ یہ کہانی غصہ اور بغض سے منسلک رویوںکے بارے میں ہے اس لیے آخر میں کانگریس کی اس قرارداد کا ذکر ضروری ہے جو 3 جون کی سکیم سے محض 3 ماہ قبل دلی میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے منظور کی تھی۔ مہاتما گاندھی کے پوتے اور راج گوپال اچاریہ کے داماد راج موہن گاندھی نے اپنی تازہ کتاب ''پنجاب: اورنگ زیب سے ماؤنٹ بیٹن تک'' کے صفحہ 340 پر اس کو نقل کیا ہے۔ یہ قرارداد کانگریس کے سیکولرازم کا پردہ چاک کرنے کا ثبوت ہی نہیں بلکہ کانگریس کی پنجاب دشمنی، مسلم لیگ دشمنی، محمد علی جناح مخالفت اور پاکستان سے چڑنے کا واضح ثبوت بھی ہے۔ خود راج موہن بھی اس قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سوال اٹھانے پر مجبور رہے کہ کانگریس نے خود مذہبی تقسیم کو منظور کر لیا تو پھر پاکستان مخالفت کا اسے کوئی حق نہیں رہتا۔ یہ قرارداد درحقیقت پنجاب سے 1937 اور 1946 کے انتخابات میں شکست کا شاخسانہ تھا یا اس سازش کا حصہ جس کے مطابق تشکیل پاکستان کو ہندو مسلم سکھ فسادات کے دھبوں سے داغدار کرنا لازم ٹھہرا، اس کا تجزیہ آپ خود کرلیں۔
اس قرارداد میں سیکولر کانگریس نے انگریز حکمرانوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب کو مسلم اور غیرمسلم علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس قرارداد کی تاریخ 8 مارچ 1947 ہے۔ ابھی نہ تو 3 جون کی سکیم آئی تھی، نہ بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہوئے تھے اور نہ تبادلہ آبادی کی بات ایجنڈے پر تھی مگر کانگریس یہ سب کرنے کے لیے بیتاب ضرور تھی۔ بس تشکیل پاکستان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پرآبادی کے انخلاء کو جوڑنا وہ بدترین سیاسی فیصلہ تھا جس نے تادم تحریر جنوبی ایشیاء کا جمہوری چہرہ داغدار کیے رکھا ہے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے انخلاء کی کوئی مثال نہیں۔ یہی نہیں جب آخری دنوں میں سبھاش چندر بوس کے بھائی سرت چندربوس اور حسین شہید سہروردی نے تقسیم بنگال کو روکنے کے لیے قائداعظم کی منظوری بھی لے لی تب بھی پٹیل، گاندھی اور نہرو نے بھرے اجلاس میں بنگال کانگریس کے صدر کا دلی اجلاس میں مذاق اڑایا اور تقسیم بنگال کو لازم قرار دیا۔یہ سب اس منفی سیاست کا انجام تھا جس نے کانگریس کے اعتدال پسند لوگوں کو کنارے سے لگایا اور یوں خود پارٹی انتہا پسندیوں کا شکار ہو گئی۔