مسائل کا حل

سندھ میں کوئی عوام سے مخلص حکمران ہوتا تو پہلے یہاں ہزار دو ہزار بسیں چلانے کی سبیل کرتا تاکہ عوام سہولت سے سفر کرسکیں


Zaheer Akhter Bedari March 22, 2014
[email protected]

مرکزی حکومت عوام خصوصاً نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اربوں روپوں کے قرضے بانٹ رہی ہے۔ اول تو اس بندر بانٹ میں عام لوگ شامل ہی نہیں ہوسکتے کیونکہ ہر جگہ پارٹی کارکنوں کی ایک بھیڑ اس قسم کے منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار رہتی ہے دوسرے اس قسم کے قرضوں کے لیے ایسی شرائط رکھی جاتی ہیں ، جو بے وسیلہ عوام کے لیے پوری کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ سفارشوں، تعلقات یا رشوتوں کے ذریعے اس قسم کی اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ نہ ان قرضوں کا درست استعمال کرتے ہیں نہ انھیں ان قرضوں کی واپسی کی کوئی پرواہ ہوتی ہے۔

حکومت سندھ بھی اس مقابلے میں شریک ہوکر ''عوام کو روزگار'' فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہے لیکن ماضی میں اس قسم کی اسکیموں کا جو حشر ہوا ہے اب بھی امکان یہی ہے کہ اس کا حشر ماضی سے مختلف نہیں ہوگا اربوں روپے اس قسم کی اسکیموں پر خرچ کرنا حکومتوں کی اہلیت میں شمار ہوتا ہے لیکن ان قرضوں کے جائز استعمال اور واپسی کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان ان کی نااہلی بن جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے روپے کو خدا کا درجہ دلا دیا ہے اور ہر شخص روپے حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے اگر اس قسم کی اسکیموں سے روپیہ حاصل ہوتا ہے تو کون کافر ایسا ہوگا جو اس نعمت غیر مترقبہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ قرض کے درست استعمال اور واپسی کی گارنٹی کا ہے جس کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اس قسم کی اسکیموں کا فائدہ مشکل سے چند فیصد لوگوں کو ہوتا ہے ایک بھاری اکثریت اس قسم کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہتی جس کی وجہ عوام میں ناراضگی بڑھتی جاتی ہے جو آخر کار اشتعال میں بدل جاتی ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان حکومتوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

اگر کوئی حکومت عوام سے مخلص اور عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہو تو وہ عوام کے اربوں روپے مٹھی بھر اپروچ والوں میں بانٹنے کے بجائے ان اربوں روپوں سے ایسی صنعتیں لگانے کی کوشش کرتی ہے جو عوام کو مستقل روزگار فراہم کرسکتی ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ انسان رہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے شہروں کے مسائل حل کرنے میں وہاں کے حکمران ایک منظم منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی سے کام لیتے ہیں اس کام کے لیے ماہر منصوبہ ساز ، دانشوروں کی مدد حاصل کی جاتی ہے جن کی انگلیاں عوام کی نبض پر اور ذہن عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت سے معمور ہوتے ہیں۔ لیکن جن ملکوں میں حکمران طبقات اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں وہاں ماہرین اور دانشوروں کے مشوروں کوکوئی اہمیت دی جاتی ہے نہ ان کی اہلیت اور مہارت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کارخانہ چلانے والا بھی اپنے شعبوں کے ماہرین کی مدد اور تعاون کے بغیر کارخانہ نہیں چلا سکتا تو پھر ملک چلانے والے، ماہرین اور صائب الرائے اشخاص کے تعاون اور مشوروں کے بغیر ملک کیسے چل سکتے ہیں؟صوبہ سندھ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس صوبے کی قیادت میں وہ اہلیت سرے سے موجود ہی نہیں جو اس بڑے اور ملک کے سب سے بڑے شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے درکار ہے ملک کے دوسرے شہروں کی طرح اس صوبے اور کراچی کے عوام مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، اسٹریٹ کرائم وغیرہ کے عذابوں میں گرفتار ہیں۔

مہنگائی ہی کو لے لیں ایک مہنگائی وہ ہے جس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام سے ہے اس مہنگائی کو اس نظام کو ختم کیے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایک مہنگائی وہ ہے جو بے لگام منافع خوری کا نتیجہ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ایک طریقہ پرائس کنٹرول کمیشن کا ہوتا ہے جو اس قدر فعال اور بااختیار ہوتا ہے کہ اس کی منظوری کے بغیر کوئی تاجر، کوئی صنعتکار اپنے پروڈکٹ کی قیمتوں میں ایک پائی کا اضافہ بھی نہیں کرسکتا۔ اور کوئی تاجر یا صنعتکار اپنے کسی پروڈکٹ کی قیمت میں معمولی اضافہ بھی کرنا چاہے تو اسے پرائس کنٹرول کمیشن کے سامنے اس کا معقول جواز پیش کرنا پڑتا ہے اس پابندی کی وجہ سے قیمتیں کنٹرول میں رہتی ہیں اور منافع خوری ممکن نہیں رہتی ۔

مہنگائی کو روکنے کا دوسرا طریقہ صارفین کی انجمنیں ہوتی ہیں یہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس قدر منظم اور طاقتور ہوتی ہیں کہ منافع خوروں کو ان کے سامنے جھکنا پڑتا ہے اگر ڈیری فارم والے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی بلاجواز اضافہ کرتے ہیں تو صارفین کی انجمنیں عوام سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتی ہیں یوں دودھ، دہی، مکھن خراب ہوکر بے قیمت ہوجاتے ہیں۔ اس طرح گوشت، سبزیوں، پھلوں کا معاملہ ہے اگر ان کی خریداری دو تین روز بند کردی جائے تو یہ چیزیں گل سڑ کر خراب ہوجاتی ہیں اس نقصان کے خوف سے تاجر بدمعاشی سے باز آجاتے ہیں اور قیمتوں میں بلاجواز اضافے سے باز رہتے ہیں جس کی وجہ سے عوام مہنگائی سے محفوظ رہتے ہیں۔عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے ہمارا حکمراں طبقہ اس مسئلے کو حل کرنے کا آسان طریقہ قرضے بانٹنا سمجھتا ہے اور اس حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے اور اربوں روپے چند فیصد لوگوں میں بانٹ کر بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ اربوں کا سرمایہ بڑی اور چھوٹی صنعتوں کے قیام میں لگایا جائے تو بلاشبہ بے روزگاری کا بڑی حد تک خاتمہ ممکن ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ اسٹریٹ کرائم ہے جو اس ملک اور کراچی کے عوام کے لیے خاص طور پر عذاب بنا ہوا ہے۔

کراچی کے عوام کا ایک انتہائی تکلیف دہ مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے آج سے چالیس سال پہلے بھی عوام بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں، ویگنوں میں پائیدان سے لٹک کر چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے آج بھی اس سے بدتر حالات میں سفر کر رہے ہیں۔ اگر سندھ میں کوئی عوام سے مخلص حکمران ہوتا تو پہلے یہاں ہزار دو ہزار بسیں چلانے کی سبیل کرتا تاکہ عوام سہولت سے سفر کرسکیں۔ لیکن ہزار دو ہزار بلکہ پانچ ، چھ بسیں بھی اس لیے نہیں لائی جا رہیں کہ اس میں کمائی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے اس کے برخلاف لوکل ٹرینوں کے طویل المعیاد اربوں روپے کے منصوبوں کو اس لیے اہمیت دی جا رہی ہے کہ اس میں بھاری کمائی کے چانسز زیادہ ہیں۔ آج کل بارہ سیٹر رکشوں سے عوام کو بہت سہولت حاصل ہو رہی ہے لیکن اس ٹرانسپورٹ میں موجود خامیوں کو دور کرکے اسے بہتر بنانے کے بجائے اس پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر سندھ میں کوئی عوام دوست حکومت ہوتی تو ان قابل حل مسائل کو حل کرکے عوام کی حمایت حاصل کرسکتی تھی لیکن اسے کس کی بدقسمتی کہا جائے کہ وہ مسائل بھی حل نہیں کیے جا رہے ہیں جو آسانی سے حل ہوسکتے ہیں جس کا کریڈٹ حکومت کو مل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں