امید کا دیا
کسی جگہ انگریزی‘ کہیں دقیانوسی سرکاری اور کہیں اپنا مخصوص مذہبی بہ لحاظ فرقہ سلیبس پڑھایا جا رہا ہے
LONDON:
اخبار پڑھتے ہوئے میری نظر ایک 5x2.5انچ کی تصویر پر پڑی جس میں بہت سے دس بارہ سال کی عمر کے لڑکے ایک گرائونڈ میں بیٹھے تھے اور سب نے اپنے سروں پر چھتریاں کھول رکھی تھیں۔ تصویر کسی ماہر فوٹو گرافر نے لی ہو گی کیونکہ اچھی لگ رہی تھی۔ کوئی بچہ گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا تو کوئی پائوں پر۔ ہماری کرکٹ ٹیم آجکل اچھا پرفارم کر رہی ہے میں نے سوچا یہ بچے بھی کوئی انوکھا کھیل چھتریوں کی مدد سے کھیل رہے ہوں گے لیکن تصویر کے نیچے لکھی تحریر پڑھ کر میری حالت غیر ہو گئی یہ جگہ لوئر دیر کا علاقہ تھا اور بچے وہاں کے ہائی اسکول کی گرائونڈ میں بارش کی وجہ سے اپنی اپنی چھتری کی چھت کے نیچے امتحانی پرچہ حل کر رہے تھے۔ پس منظر میں ملبے کے ڈھیر تھے۔ یہ ڈھیر کبھی اسکول کی عمارت تھے۔
اسکول کی عمارت چار سال قبل بم کے دھماکے سے اڑا دی گئی تھی اور اب یہ طالبان علم چھتریوں کی چھتیں بنا کر بارش کے باوجود امتحانی پرچے حل کر رہے تھے۔ میں نے یہ تصویر قینچی سے کاٹ کر رکھ لی ہے۔ اخبار میں لگی رہتی تو آئندہ ماہ ردی اخبار اور کاغذ خریدنے والا اسے بھی ردی کے بھائو لے جاتا، میرا ارادہ ہے کہ اسے فریم کرا کے اپنے مکان کے داخلی رستے یا ڈرائنگ روم میں لگا دوں اور پھر اس کی ایک کاپی متعلقہ وزیر تعلیم کو پیش کر دوں کہ دیکھو تعلیم حاصل کرنے کی لگن ہو تو برستی برسات میں چھتری کی چھت تان کر بھی امتحانی پرچہ حل کیا جا سکتا ہے اور اس اخباری خبر اور تصویر میں لوئر دیر کے ان طالب علموں کو سلام کہ بارش میں خود بھیگنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے امتحانی پرچوں کو حل بھی کر رہے اور انھیں بارش سے بچائے رکھنے کا جتن بھی کر رہے ہیں۔
میں لوئر دیر کے ہائی اسکول کی گرائونڈ سے نظریں ہٹاتا ہوں تو ایک بڑے شہر کے ایوننگ ٹیوشن سینٹر کا منظر میرے سامنے آ جاتا ہے جہاں سے کبھی کبھار میرا گزر اپنی موٹر کار سے ہوتا ہے۔ جس چھوٹی سڑک پر یہ ٹیوشن سینٹر ہے اس کی لمبائی ڈیڑھ فرلانگ ہوگی۔ یہ سڑک ایک بڑی مارکیٹ تک جاتی ہے۔ اس لیے بے حد مصروف گزر گاہ ہے لیکن جب سے ایک بڑی عمارت میں اس سڑک پر یہ مکمل ایئر کنڈیشنڈ ٹیوشن سینٹر شروع ہوا ہے ڈیڑھ سو کے قریب طالبان علم اس جگہ دو تین گھنٹے کے لیے کاروں اور مہنگی جیپوں میں خود گاڑی چلا کر یا شوفروں کے ساتھ آتے ہیں، قریباً چار گھنٹے تک ان کی گاڑیاں ڈبل پارکنگ کرتی ہیں جن کے درمیان سے ایک کار بمشکل گزر سکتی ہے۔ اس پر دو رویہ چلنے والی عام ٹریفک کا اس دوران کیا حشر ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف اس بدنصیب کو ہو سکتا ہے جو اس سڑک کو شاہراہ عام سمجھ کر اس میں آ پھنستا ہے۔
گورنمنٹ ہائی اسکول لوئر دیر کے طالب علم بارش کے دوران اسکول کی گرائونڈ میں اپنی اپنی چھتریوں کی چھتیں بنائے اس لیے امتحانی پرچہ حل کرنے پر مجبور تھے کہ چار سال قبل بم مار کر اسکول کی عمارت تباہ کر دی گئی تھی اور یہ عمارت چار سال گزر جانے کے باوجود تعمیر نہیں کی جا سکی تھی۔ یہ اکیلا اسکول نہیں کئی سو اسکول بم مار کر تباہ کیے گئے اس کے علاوہ ملک میں ہزاروں بے عمارت اسکول ہیں۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اس کی پرائمری اسکول والی عمر بے حد اہم ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم ہمارے ملک میں شدید بے توجہی کا شکار ہے۔ اسکول ہیں تو ٹیچر نہیں اگر ٹیچر موجود ہیں تو اسکول کی عمارت نہیں اور بہت سی جگہ دونوں مفقود ہیں۔ لیکن بیس پچیس ہزار کی ٹیوشن فیس والے ٹیوشن سینٹر کئی جگہ موجود ہیں۔ مہنگے اسکول اور کالج بھی پرائیویٹ طور پر قائم ہیں۔ مدرسے بھی اپنا مخصوص سلیبس پڑھانے میں سرگرم ہیں۔
کسی جگہ انگریزی' کہیں دقیانوسی سرکاری اور کہیں اپنا مخصوص مذہبی بہ لحاظ فرقہ سلیبس پڑھایا جا رہا ہے۔ ان میں تین چار قسم کی تعلیم و تربیت اور فکر لے کر میدان عمل میں آنے والے طالب علم ہیں جو ایک دوسرے کی تعلیمی حالت سے ناواقف اور اکثر اوقات ضد ہیں یہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور فکری لحاظ سے مخالف بھی ہیں۔ گرے ہوئے تباہ شدہ اور کھنڈر اسکول تو بلا تاخیر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان کے سلیبس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے ایک سے زیادہ عوامل ہیں وہ جاگیردار اور وڈیرے جو انسانوں کو کمی اور جانوروں کی زندگی میں دیکھنے اور ان کو جوتے کے نیچے رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک وجہ ہے والدین کی غربت اور کثرت اولاد دوسری وجہ' حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی کے سبب اسکول اور استاد دونوں کی عدم موجودگی بہت بڑا منفی فیکٹرہے۔اگر کسی جگہ اسکول کی عمارت موجود ہے تو ٹیچر نہیں۔ جو ٹیچر موجود ہے تو وہ بچوں کو پڑھانے کی بجائے ان سے ذاتی کام لیتا ہے۔ کوئی ٹیچر پڑھانا چاہے تو مقامی زمیندار یا وڈیرہ دیہات میں تعلیم و تدریس میں رکاوٹیں پیدا کر کے اور استاد کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے لیے مشکلات کھڑی کر کے اسے بھگا دیتا ہے۔ قصہ مختصر وڈیرہ کلچر اور تعلیم یافتہ کھیت مزدور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
بموں کا شکار سیکڑوں اسکول اب تک دیواروں اور چھتوں کے بغیر ہیں اور وہ ہزاروں اسکول اور ٹیچر جو صرف فائلوں میں ہیں زمین پر موجود ہی نہیں ان کے علاوہ ہیں۔ ایسے ماحول میں پڑھا لکھا پاکستان کہاں سے جنم لے گا۔ مایوسی اور اداسی کی فضا میں مجھے اخبار میں چھپی گورنمنٹ ہائی اسکول لوئر دیر کی چھت اور درودیوار سے خالی اس گرائونڈ کی تصویر نظر آتی ہے جہاں ٹپکتی چھتریاں سروں پر تانے علم کے طالب زمین پر اکڑوں بیٹھے اپنے بھیگے کپڑوں میں گیلا بدن ڈھانپے امتحانی پرچہ حل کر رہے ہیں۔ صرف یہ ایک تصویر دیکھ کر میری مایوسی کافور ہو جاتی ہے اور پانی بھری گرائونڈ اور برستی برسات میں امید کا دیا روشن ہو جاتا ہے۔
اخبار پڑھتے ہوئے میری نظر ایک 5x2.5انچ کی تصویر پر پڑی جس میں بہت سے دس بارہ سال کی عمر کے لڑکے ایک گرائونڈ میں بیٹھے تھے اور سب نے اپنے سروں پر چھتریاں کھول رکھی تھیں۔ تصویر کسی ماہر فوٹو گرافر نے لی ہو گی کیونکہ اچھی لگ رہی تھی۔ کوئی بچہ گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا تو کوئی پائوں پر۔ ہماری کرکٹ ٹیم آجکل اچھا پرفارم کر رہی ہے میں نے سوچا یہ بچے بھی کوئی انوکھا کھیل چھتریوں کی مدد سے کھیل رہے ہوں گے لیکن تصویر کے نیچے لکھی تحریر پڑھ کر میری حالت غیر ہو گئی یہ جگہ لوئر دیر کا علاقہ تھا اور بچے وہاں کے ہائی اسکول کی گرائونڈ میں بارش کی وجہ سے اپنی اپنی چھتری کی چھت کے نیچے امتحانی پرچہ حل کر رہے تھے۔ پس منظر میں ملبے کے ڈھیر تھے۔ یہ ڈھیر کبھی اسکول کی عمارت تھے۔
اسکول کی عمارت چار سال قبل بم کے دھماکے سے اڑا دی گئی تھی اور اب یہ طالبان علم چھتریوں کی چھتیں بنا کر بارش کے باوجود امتحانی پرچے حل کر رہے تھے۔ میں نے یہ تصویر قینچی سے کاٹ کر رکھ لی ہے۔ اخبار میں لگی رہتی تو آئندہ ماہ ردی اخبار اور کاغذ خریدنے والا اسے بھی ردی کے بھائو لے جاتا، میرا ارادہ ہے کہ اسے فریم کرا کے اپنے مکان کے داخلی رستے یا ڈرائنگ روم میں لگا دوں اور پھر اس کی ایک کاپی متعلقہ وزیر تعلیم کو پیش کر دوں کہ دیکھو تعلیم حاصل کرنے کی لگن ہو تو برستی برسات میں چھتری کی چھت تان کر بھی امتحانی پرچہ حل کیا جا سکتا ہے اور اس اخباری خبر اور تصویر میں لوئر دیر کے ان طالب علموں کو سلام کہ بارش میں خود بھیگنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے امتحانی پرچوں کو حل بھی کر رہے اور انھیں بارش سے بچائے رکھنے کا جتن بھی کر رہے ہیں۔
میں لوئر دیر کے ہائی اسکول کی گرائونڈ سے نظریں ہٹاتا ہوں تو ایک بڑے شہر کے ایوننگ ٹیوشن سینٹر کا منظر میرے سامنے آ جاتا ہے جہاں سے کبھی کبھار میرا گزر اپنی موٹر کار سے ہوتا ہے۔ جس چھوٹی سڑک پر یہ ٹیوشن سینٹر ہے اس کی لمبائی ڈیڑھ فرلانگ ہوگی۔ یہ سڑک ایک بڑی مارکیٹ تک جاتی ہے۔ اس لیے بے حد مصروف گزر گاہ ہے لیکن جب سے ایک بڑی عمارت میں اس سڑک پر یہ مکمل ایئر کنڈیشنڈ ٹیوشن سینٹر شروع ہوا ہے ڈیڑھ سو کے قریب طالبان علم اس جگہ دو تین گھنٹے کے لیے کاروں اور مہنگی جیپوں میں خود گاڑی چلا کر یا شوفروں کے ساتھ آتے ہیں، قریباً چار گھنٹے تک ان کی گاڑیاں ڈبل پارکنگ کرتی ہیں جن کے درمیان سے ایک کار بمشکل گزر سکتی ہے۔ اس پر دو رویہ چلنے والی عام ٹریفک کا اس دوران کیا حشر ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف اس بدنصیب کو ہو سکتا ہے جو اس سڑک کو شاہراہ عام سمجھ کر اس میں آ پھنستا ہے۔
گورنمنٹ ہائی اسکول لوئر دیر کے طالب علم بارش کے دوران اسکول کی گرائونڈ میں اپنی اپنی چھتریوں کی چھتیں بنائے اس لیے امتحانی پرچہ حل کرنے پر مجبور تھے کہ چار سال قبل بم مار کر اسکول کی عمارت تباہ کر دی گئی تھی اور یہ عمارت چار سال گزر جانے کے باوجود تعمیر نہیں کی جا سکی تھی۔ یہ اکیلا اسکول نہیں کئی سو اسکول بم مار کر تباہ کیے گئے اس کے علاوہ ملک میں ہزاروں بے عمارت اسکول ہیں۔ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اس کی پرائمری اسکول والی عمر بے حد اہم ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم ہمارے ملک میں شدید بے توجہی کا شکار ہے۔ اسکول ہیں تو ٹیچر نہیں اگر ٹیچر موجود ہیں تو اسکول کی عمارت نہیں اور بہت سی جگہ دونوں مفقود ہیں۔ لیکن بیس پچیس ہزار کی ٹیوشن فیس والے ٹیوشن سینٹر کئی جگہ موجود ہیں۔ مہنگے اسکول اور کالج بھی پرائیویٹ طور پر قائم ہیں۔ مدرسے بھی اپنا مخصوص سلیبس پڑھانے میں سرگرم ہیں۔
کسی جگہ انگریزی' کہیں دقیانوسی سرکاری اور کہیں اپنا مخصوص مذہبی بہ لحاظ فرقہ سلیبس پڑھایا جا رہا ہے۔ ان میں تین چار قسم کی تعلیم و تربیت اور فکر لے کر میدان عمل میں آنے والے طالب علم ہیں جو ایک دوسرے کی تعلیمی حالت سے ناواقف اور اکثر اوقات ضد ہیں یہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور فکری لحاظ سے مخالف بھی ہیں۔ گرے ہوئے تباہ شدہ اور کھنڈر اسکول تو بلا تاخیر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان کے سلیبس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کے ایک سے زیادہ عوامل ہیں وہ جاگیردار اور وڈیرے جو انسانوں کو کمی اور جانوروں کی زندگی میں دیکھنے اور ان کو جوتے کے نیچے رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک وجہ ہے والدین کی غربت اور کثرت اولاد دوسری وجہ' حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی کے سبب اسکول اور استاد دونوں کی عدم موجودگی بہت بڑا منفی فیکٹرہے۔اگر کسی جگہ اسکول کی عمارت موجود ہے تو ٹیچر نہیں۔ جو ٹیچر موجود ہے تو وہ بچوں کو پڑھانے کی بجائے ان سے ذاتی کام لیتا ہے۔ کوئی ٹیچر پڑھانا چاہے تو مقامی زمیندار یا وڈیرہ دیہات میں تعلیم و تدریس میں رکاوٹیں پیدا کر کے اور استاد کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے لیے مشکلات کھڑی کر کے اسے بھگا دیتا ہے۔ قصہ مختصر وڈیرہ کلچر اور تعلیم یافتہ کھیت مزدور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
بموں کا شکار سیکڑوں اسکول اب تک دیواروں اور چھتوں کے بغیر ہیں اور وہ ہزاروں اسکول اور ٹیچر جو صرف فائلوں میں ہیں زمین پر موجود ہی نہیں ان کے علاوہ ہیں۔ ایسے ماحول میں پڑھا لکھا پاکستان کہاں سے جنم لے گا۔ مایوسی اور اداسی کی فضا میں مجھے اخبار میں چھپی گورنمنٹ ہائی اسکول لوئر دیر کی چھت اور درودیوار سے خالی اس گرائونڈ کی تصویر نظر آتی ہے جہاں ٹپکتی چھتریاں سروں پر تانے علم کے طالب زمین پر اکڑوں بیٹھے اپنے بھیگے کپڑوں میں گیلا بدن ڈھانپے امتحانی پرچہ حل کر رہے ہیں۔ صرف یہ ایک تصویر دیکھ کر میری مایوسی کافور ہو جاتی ہے اور پانی بھری گرائونڈ اور برستی برسات میں امید کا دیا روشن ہو جاتا ہے۔