ہمارے میڈیا کو عمران خان کا ’ہوکا‘ ہو گیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر نثار احمد زبیری

مشہور تھا کہ میر خلیل الرحمٰن ’حریت‘ اخبار کے بنڈل خرید کر ضایع کروا دیتے ہیں

ہندوستان سے باقاعدہ ویزا لے کر پاکستان آیا، سابق صحافی اور استاد الاساتذہ کی یادیں اور باتیں ۔ فوٹو : فائل

ساحلی شہر میں گنجانیت سے بہت پرے۔۔۔ عین سمندری لہروں کے ساتھ ساتھ ایستادہ اِس بلند عمارت میں اُس روز کی چمکیلی صبح روشن تر ہوئی، جب ہم اپنے استادِ محترم ممتاز محقق اور عملی صحافت کے سرد وگرم سے گزرے ہوئے ڈاکٹر نثار احمد زبیری کی قدم بوسی کو پہنچے۔۔۔

چوں کہ مقررہ وقت میں کچھ ساعتیں باقی تھیں، تو جدید طرزِ تعمیر کی اس عمارت میں ہمارا خیال تھا کہ 20 ویں مالے پر پہنچ کر باقی ماندہ وقت 'بحیرۂ عرب' ہی کا کچھ نظارہ کر لیں گے، لیکن لفٹ سے نکل کر جو دیکھیے گا، تو فلیٹوں کی یہ 'ڈیوڑھی' تو کسی پنج ستارہ ہوٹل کی 'ہوا بند' راہ داری کے موافق اتنے گہرے سکوت میں تھی، کہ آدھی رات کی خامشی کا گماں ہوتا یا ایسا کہ جیسے یہاں کوئی بھی نہ ہو۔۔۔! یوں کچھ وقت بغیر کسی کھڑکی اور روشن دان کی ان دیواروں میں مقید ہوئے، جوں ہی گھڑی کی سوئی نے 11 بجائے، ہم نے 'دستکی گھنٹی' بجائی، جہاں کواڑ سے باہر ہی آویزاں ایک دیدہ زیب طغرے پر اسد اللہ غالب کا شعر درج ہے؎

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں

گویا گھر میں داخلے سے پہلے ہی یہاں مکین کے باذوق اور وضع دار ہونے سے متعلق خوب خبر ہو جاتی ہے۔ چند ثانیوں کے بعد 'سر' جلوہ افروز ہوئے اور پھر ہمیں جس کمرے میں مہمان کیا، تو کواڑ سے باہر کی یک سر بند دیواروں کا ہمارا سارا شکوہ جاتا رہا کہ یہ کمرا مکمل طور پر قدرتی روشنی سے اجلا ہوا تھا، شیشے کی دیوار کے پار بہت دور تک کا نظارہ، اور اتنا کہ 'حدِ نظر' ہانپ جائے، مناظر دھندلا جائیں، اور اگر اِسے عکس بند کیجیے تو موبائل کا عام کیمرا انسانی نگاہ کے زیادہ شفاف ہونے کی خبر دے۔۔۔ شہرِ قائد میں جزیرہ نما خشکی کا یہ آخری کنارہ بلاشبہ ہمیں قابل دید مناظر سے روشناس کرا رہا تھا۔

دوسری سمت کمرے سے متصل برآمدہ کراچی کے ساحل پر موج زن ساگر کا دل فریب فضائی منظر پیش کر رہا تھا، یعنی آگے واقعی فقط سمندر تھا۔۔۔! اُن سے گفتگو کے درمیانی وقفوں میں بھی ہم گاہے گاہے ان مناظر کا لطف لیتے رہے اور وقتِ رخصت ہم نے باقاعدہ کچھ مناظر اپنے موبائل میں قید بھی کیے۔۔۔ کہنے والی بات یہ کہ ان سب مناظر سے بھی کہیں زیادہ خوب صورت یہ بیٹھک رہی، جس کا احوال اب آپ ملاحظہ کریں گے، گویا گرد وپیش کی منظر کشی سے ہم قارئین کو اس دل نشیں اور طبیعت کو سیر کر دینے والی ملاقات کی کچھ خبر دینے کی ایک کوشش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نثار احمد زبیری بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش 1939 ء میں اپنے ننھیال شاہ جہاں پور (یوپی) میں ہوئی، جو اُن دنوں ماموں کی ملازمت کے سبب وہاں مقیم تھا، ان کے والد اور پورا خاندان 'محکمۂ ریلوے' میں تھا۔

پیدائش کے بعد انھیں ماموں نے گود لیا، جو بے اولاد تھے۔ اوائل بچپن میں کچھ وقت شہر 'چندوسی' (یو پی) میں بیتا، قرآن شریف پڑھنا اور تختی لکھنا وہیں سیکھا۔ پھر باقاعدہ تعلیم کے لیے والد کے پاس شاہ گنج بھیجا گیا، وہ بتاتے ہیں کہ ''وہاں 1944ء یا 1945ء میں ہمیں تیسری جماعت میں داخل کرایا، پھر ہندوستان کی آزادی کی خوشی میں چوتھی سے براہ راست چھٹی جماعت میں ترقی ملی، بغیر کسی امتحان ہندوستان بھر میں سبھی بچوں کو یہ ترقی دی گئی، پھر والد صاحب نے ریلوے سے استعفا دے دیا۔''

ہم نے استعفے کی وجہ جاننا چاہی، تو انھوں نے بتایا کہ ''والد زبردست مسلم لیگی تھے، انھوں نے 'زمیندار' اخبار کے تراشوں کا ایک موٹا سا رجسٹر بنایا ہوا تھا اور وہ 'جمعیت علمائے ہند' اور دیگر لوگوں سے مسائل پر بحث کرتے تھے، حکومت کو اس کی خبر ہوگئی، جس پر ہمارے گھر کی تلاشی ہوئی۔ ہمارے گھر میں مسلم لیگ کے حوالے سے بہت زیادہ مواد اور کتابیں وغیرہ تھیں اور ایک تلوار بھی تھی، لیکن ہمیں پہلے ہی اطلاع ہوگئی، اور ہم نے وہ سب رات ہی رات منتقل کر دی، تلاشی میں کچھ بھی نہ نکلا۔

ہم نے گھر میں تلوار کا سبب پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ 'تب مسلمان لاٹھی واٹھی چلانا سیکھتے تھے، کیوں کہ حالات ایسے تھے۔'

وہ کہتے ہیں کہ ''اس واقعے کے بعد والد نے استعفا دیا اور پھر وہ مراد آباد آگئے، جہاں نانی کے خاندانی گھر میں رہائش رہی، انھیں اپنی معمر نانی یاد ہیں، جو لوگوں کو یونانی دوائیں تجویز کرتی تھیں۔ یہاں اسکول میں 'پانچویں' نہ پڑھنے پر اعتراض ہوا اور چھٹی جماعت ہی دوبارہ پڑھنی پڑگئی۔ یہاں اول درجہ پاتے، انگریزی اخبار پڑھنے کے سبب انگریزی میں نمایاں نمبر ملتے۔ میٹرک کے بعد سائنس پڑھنے کے لیے 'ہندو انٹر کالج' میں داخلہ لیا اور وہیں سے انٹر کیا۔

ڈاکٹر نثار زبیری بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد وہاں مسلمانوں کے ہر گھر میں ہجرت کا سلسلہ تھا۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی پہلے ہی کراچی آگئے تھے، جو شیر شاہ میں ایک کمرے کے گھر میں بیوی بچے کے ساتھ رہتے تھے۔ والد نے اِن سے کہا اگر یہاں انجینئرنگ میں داخلہ لیا، تو چار پانچ سال رہنا پڑے گا۔ یوں وہ بھی 1958ء میں کراچی بھیج دیے گئے، مراد آباد میں برتنوں کا کارخانہ اور گھر وغیرہ فروخت کر کے والد پھر1960 ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان آئے۔

''وہاں پاسپورٹ دینے میں تاخیری حربے استعمال کیے، بہ مشکل مل سکا۔''

پاکستان ہجرت کے لیے 'پاسپورٹ'۔۔۔؟ یہ بات ہمارے لیے اچنبھے کی تھی، اس پر انھوں نے بتایا کہ 'ہم تو ویزا لے کر آئے تھے۔۔۔!'

ہم نے پوچھا کہ 'جب وہاں پاکستان جانے کا مقصد پوچھتے ہوں گے؟' تو بولے کہ ''انھیں پتا تھا کہ یہ لوگ جا رہے ہیں، دو سال پہلے بڑے بھائی آئے، تب پاسپورٹ نہ تھا، بھائی کھوکھرا پار، جب کہ وہ 'واہگہ' کے راستے کراچی پہنچے، پھر یہاں شہریت کی درخواست دے دی۔ 'شہریت' کے لیے خاص شرائط کچھ یاد نہیں، بس ہندوستانی پاسپورٹ وغیرہ جمع کرایا، ایک دو بار ویزا بڑھوایا، تب ہندوستانی قونصل خانہ 'شاہین کمپلیکس' پر ہوتا تھا، جہاں وہ صبح چھے بجے سے قطار میں لگتے، یہاں دو تین سال کی جدوجہد کے بعد انھیں شہریت مل گئی۔

تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر شہریت دیے جانے کے سوال پر کہتے ہیں کہ 'ہاں، ہو سکتا ہے، کہ اس طرح کا سلسلہ بھی ہو، لیکن تاخیر کا سبب افسر شاہی کے روایتی تاخیری حربے تھے۔

وہ کراچی پہنچے تو یہاں داخلوں کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا، انھوں نے سوچا کہ وقت ضایع ہوگا، تو ایک شناسا کی سفارش پر 'بی اے' کے لیے 'اردو کالج' میں داخلہ لیا، جہاں دو اختیاری مضامین میں جغرافیہ اور نفسیات لیے۔ مسافر بسوں میں بھیڑ سے بچنے کے لیے شیرشاہ سے تقریباً آدھے گھنٹے پیدل چل کر 'اردو کالج' جاتے، اور اتنے سویرے پہنچتے کہ اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔

اسی لیے ان کے شعبے کی چابی بھی انھیں سونپ دی گئی تھی۔ پھر لیکچرر بننے کے خیال سے 1963ء میں جامعہ کراچی سے نفسیات میں 'ایم اے' کیا، اس کے بعد نوکری کی تلاش میں تھے کہ ایک دوست کے توسط سے 'حریت' پہنچے، جو ابھی جاری ہونا تھا، اس کے مدیر فخر ماتری نے انھیں چھے ماہ کے لیے آزمائشی بنیادوں پر رکھ لیا۔ بتاتے ہیں کہ ''مہینے کے 200 روپے طے ہوئے۔ 1963ء میں 'حریت' جاری ہوا۔ اس زمانے میں اردو کی سبھی خبریں ترجمہ ہوتی تھیں، دو ٹیلی پرنٹر لگے ہوئے ہوتے، جس میں خبریں آتی تھیں، ہم جیسے چار پانچ نوآموز لوگ ان کا ترجمہ کرتے، جس دن ہماری ترجمہ شدہ خبر چھپتی، تو بڑی خوشی ہوتی۔

کہتے ہیں کہ پھر 'حریت' اخبار میں باقاعدہ ملازمت کے بعد ہمیں ہفتہ وار صفحے 'طالب علم' کا 'نگراں' بنا دیا گیا، پھر یہ دو صفحات پر شایع ہونے لگا، جس میں مختلف اسکولوں اور کالجوں سے رپورٹیں، خبریں، مضامین اور کالم وغیرہ شایع ہوتے۔

اس 'صفحے' کے توسط سے کئی بڑے لکھنے والے سامنے آئے۔ اسے اتنی کام یابی ملی کہ جب 1965ء کی جنگ کے بعد 'حریت' سے یوسف صدیقی واپس اپنے سابقہ اخبار 'جنگ' لوٹے، تو انھیں بھی وہاں بلالیا۔ نثار زبیری برنس روڈ پر واقع دفتر میں میر خلیل الرحمن سے ملے اور 'حریت' سے دگنی تنخواہ 600 روپے پر 'جنگ' سے منسلک ہوگئے۔

'جنگ' میں بھی طالب علموں کا صفحہ نکالا، پروین شاکر، دوست محمد فیضی، ظہور الحسن بھوپالی، ایوب خاور اور اسد اشرف ملک سے لے کر تمام ہی نمایاں لکھنے والوں نے اس میں حصہ لیا۔ یہ سلسلہ اتنا بہت مقبول تھا کہ پورے اخبار کی ڈاک ایک طرف اور اس صفحے کی ڈاک ایک طرف۔ پھر ہفتہ وار دو اور پھر تین صفحے ہوگئے۔

نثار زبیری 'جنگ' سے 'جسارت' اخبار میں جانے کا احوال کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ انھیں لگتا کہ وہ شاید 'طلبہ کے صفحے' تک محدود ہوگئے، لہٰذا وہ مجیب الرحمٰن شامی کی تحریک پر لاہور گئے، جہاں ''اردو ڈائجسٹ'' کے دفتر میں شفیق جالندھری سمیت پنجاب یونیورسٹی کے سات، آٹھ لوگوں کی تربیت کی، جو 'جسارت' ملتان کی اشاعت کے لیے وہاں گئے، وہ وہاں چار، چھے ماہ ہی ٹھیرے۔ کہتے ہیں کہ ''دراصل 'جسارت' اخبار 'اردو ڈائجسٹ' کے 'قریشی برادران' ہی نے نکالا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے ہفت روزہ 'زندگی' میں اپیل کر کے لوگوں سے بہت بڑی رقم جمع کی اور پھر اس سے 'جسارت' کا اجرا کیا۔''

ہمارے ذہن میں 'جسارت' کے جماعت اسلامی سے تعلق کا سوال آیا، وہ کہتے ہیں کہ 'جسارت' اخبار 'اردو ڈائجسٹ' سے نہیں سنبھلا، تو پھر جسارت (کراچی) جماعت اسلامی نے لے لیا۔

پھر کچھ عرصہ صحافت کرنے کے بعد ڈاکٹر نثار زبیری شبعۂ اِبلاغ عامہ، جامعہ کراچی میں تدریس پر مامور ہوگئے، جہاں سے 1999ء میں صدر شعبہ بن کر ریٹائر ہوئے۔ اس دوران زکریا ساجد کے پاس 'ڈاکٹریٹ' کرنے کے فوراً بعد 1993ء میں ملائیشیا بھی گئے۔ وہاں تین ساڑھے تین برس 'بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی' سے وابستہ رہے، پھر شریک حیات کی بیماری کے سبب لوٹ آئے۔

لگ بھگ دو عشرے عملی صحافت میں گزارنے والے ڈاکٹر نثار زبیری 'صحافت' سے اپنی مایوسی کا سبب اس کی بے سمتی بتاتے ہیں، کہتے ہیں ''میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ صحافت میں ایک مشنری ذہن ہونا ضروری ہے، اب صورت حال بہت خراب ہے۔''

ہم نے میر خلیل الرحمٰن کے 'تجارتی صحافت' کے بانی ہونے تاثر کا ذکر کیا تو کہنے لگے ''اس میں کوئی شک نہیں۔'' پھر گویا ہوئے کہ مشن اور کاروبار کے درمیان ایک توازن ہونا چاہیے، کہ اخبار زندہ اور باقی بھی رہے۔ انھوں نے بہت عمدہ طریقے سے اخبار چلایا، 'جنگ' میں سب سے زیادہ کام وہ خود کرتے، گھر جانے کے بعد بھی مصروف رہتے، ساری چیزیں کاغذ اور مشینری تک خود دیکھتے۔

'حریت' اور 'جنگ' اخبار میں فرق کے سوال پر ڈاکٹر نثار زبیری کہتے ہیں کہ ''روزنامہ 'حریت' کی کوشش ہر قیمت پر اخبار چلانا رہی، یعنی عریانی اور خراب باتوں کے علاوہ قارئین کی خواہش کے مطابق اخبار میں سب کچھ دیا جائے۔ 'حریت' نے جنگ سے ایک بالکل مختلف طرح کی صحافت کی اور ہر وہ کام کیا، جو 'جنگ' سے مختلف اور لوگوں کو پسند تھا۔ ایک مرتبہ عاشورہ پر 'جناب حسینؓ کے خطبے کو پورے صفحے پر کتابت کرایا اور اس پر سرخ چھینٹے ڈالے، جو اتنا مقبول ہوا کہ اسے پھر کئی بار چھاپا گیا۔ روزانہ ''زیدی'' کے بہترین کارٹون، جو کبھی خبروں پر تو کبھی فیض احمد فیض کے مصرعوں پر ہوتے، اور کبھی پورے پورے صفحے پر محیط ہوتے۔ فخر ماتری اخباری مواد کے ماہر تھے، لیکن انھیں اخبار چلانا نہیں آتا تھا، پھر یہ بھی مشہور تھا کہ میر خلیل 'حریت' اخبار کے بنڈل خریدوا کر ضایع کرا دیتے، تاکہ اس کے قارئین ٹوٹتے رہیں۔''

''کتنی حقیقت ہے اس بات میں؟'' ہم نے پوچھا، تو وہ کہنے لگے کہ ''مشہور تھیں یہ باتیں، سو فی صد تو نہیں کہہ سکتے۔'' ہم نے کہا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جو اخبار بھی مقبول ہوتا اس کے لیے مبینہ طور پر 'جنگ' یہی طریقہ اختیار کرتا تھا؟

جس پر نثار زبیری کہتے ہیں کہ 'یہ بات تو ہے کہ میر خلیل کے اخبار فروشوں سے اتنے نزدیکی تعلقات تھے، کہ وہ ان کی شادیوں میں سکھر وغیرہ تک جاتے تھے۔ ان کی سرکاری دفاتر میں بھی بڑی پہنچ تھی، وہ بہت غیرمعمولی فعال رہتے تھے۔'

'جنگ' سے 'اخبار جہاں' آمد کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ محمود شام اور دیگر صحافیوں کو ہڑتال کے سبب برطرف کر دیا تو مجھے 'اخبار جہاں' بھیجا۔ بے دخل صحافیوں نے 'جنگ' کے باہر شامیانہ لگا کر احتجاج کیا اور جب وہ بحال ہوگئے، تو مجھے واپس 'جنگ' میں بھیج دیا۔ پھر محمود شام نے اپنا رسالہ 'معیار' نکالا، تو میں دوبارہ 'اخبار جہاں' میں آگیا، یہ دورانیہ لمبا رہا۔

مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر نثار زبیری سے سب سے زیادہ 'اطمینان بخش' کام کے بارے میں استفسار کیا، تو انھوں نے کہا ''اللہ کا شکر ہے کہ دو بڑے اخباروں میں طالب علموں کے صفحے نکالے، جسے یونیورسٹی کے کئی اساتذہ نے بہت سراہا کہ طلبہ لکھنے کی طرف راغب ہوئے۔ بطور مدیر 'اخبار جہاں' کی اشاعت 30، 35 ہزار سے80 ہزار تک لے گیا۔

میری تجویز پر ماہانہ ڈائجسٹ کی طرح سلسلہ وار ناول اور کہانیاں شروع کیں، کہ قارئین کو مہینے کے بہ جائے ہر ہفتے قسط ملے۔ لاہور میں جا کر بشریٰ رحمن سے ملا، سلمیٰ کنول سے لکھوایا، جب کہ الیاس سیتا پوری نے طویل شرائط نامے پر حامی بھری کہ انھیں اتنے نسخے دیں گے، اتنے صفحے ہوں گے، مسودہ واپس دیں گے اور کہانی صرف ایک بار اشاعت کے لیے ہوگی، وہ ایک قسط کے ہزار روپے لیتے، جو ایک بڑی رقم تھی۔''

نثار زبیری کے مطابق ہفت روزہ جرائد پر ٹی وی کے ڈراموں کی وجہ سے بہت زیادہ اثر پڑا۔ انھوں نے 'مطبوعہ ذرایع اِبلاغ' کے حوالے سے بھی شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاغذ پر چھپے ہوئے اخبار کا مستقبل نہیں، اب لوگ چھوٹی یا بڑی اسکرین پر ہی پڑھیں گے، تاہم مطبوعہ اخبارات کے حوالے سے کوئی قطعی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔

''اس کا سبب ارتقائی عمل ہے یا غفلت۔۔۔؟''

ہمارے اس سوال پر وہ گویا ہوئے کہ جس طرح کا یہ ملک ہے، یہاں آج کل سب کچھ تیزی اور جلد بازی میں ہے، لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں۔ اخبار کی خبر تفصیلی ہے، اخبار کچھ وقت مانگتا ہے، لیکن قاری سب کچھ جلدی میں چاہتا ہے۔ اخبار کو جدید برقی ذرایع پر بڑی برتری حاصل ہے، لیکن قاری یہ بات نہیں سمجھتا۔ پہلے اخبارات کے اداریے ادبی طرز کی زبان میں دلائل سے مرصع ہوتے تھے، اب اخبارات 'اداریے' نمٹاتے ہیں، بس ایک جگہ پُر کرتے ہیں۔

''اخبار کا ایک 'طبعی شکل' میں ہونا بھی تو برتری ہے، جیسے چند برس قبل ایک معاصر میں خوش بو میں بسا ہوا صابن کا اشتہار شایع کیا تھا؟ یہ اسکرین نہیں کرسکتی۔'' ہمارے اس تذکرے پر ڈاکٹر نثار زبیری نے بھی ایک باہر کے رسالے کا ذکر کیا، جس میں پرفیوم کے اشتہار میں چپکی ہوئی ایک پٹی اتاریے، تو مہک آتی تھی۔ کہتے ہیں یہ اخبار کی برتری ہے، لیکن شاید لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ انھیں سب کچھ پکا پکایا اور کم سے کم وقت میں چاہیے۔ چاہے وہ کتنا سرسری ہی کیوں نہ ہو۔ انگلستان میں چھوٹے سائز کے اخبارات 50 لاکھ چھپتے ہیں، وہ صرف کھیل، شوبز اور 'جنس' کے موضوع پر ہیں، ظاہر ہے یہ مناسب چلن نہیں۔


ذرایع اِبلاغ کو کون کنٹرول کر رہا ہے؟ اس سوال پر وہ بہت سوچتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ ''وقتی ضرورت۔۔۔! بس کون سی چیز اس لمحے بہت اہم ہے۔''

خبری ذرایع اِبلاغ پر ادب، سائنس، تحقیق، موسمیاتی تغیر جیسے اہم موضوعات نظرانداز ہونے کے ذکر پر انھوں نے کہا کہ ''ہمارے میڈیا کو عمران خان کا 'ہوکا' ہو گیا ہے، انھیں کوئی اچھا کہہ رہا ہے، تو کوئی برا۔۔۔! کیا اور کوئی موضوع نہیں ہے؟ بس اب ہم آسان کام دیکھتے ہیں، کسی چیز میں اگر محنت کرنی ہے، یا گہرائی میں جانا ہے، تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

'جنگ' کا جھکاؤ 'نواز لیگ' کی طرف بہت زیادہ ہے، ان کی ساری خبروں میں یہ طرف داری شامل ہے۔ وہ ابھی تک میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا بدلہ لے رہے ہیں، اخبار کو بالکل برباد کر دیا۔ سلیم صافی اور حفیظ اللہ نیازی اپنے کالم اور ٹی وی مذاکروں میں عمران خان کے علاوہ اور کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ یہ کوئی صحافت ہوتی ہے۔ سلیم صافی نے تو اپنے کالم میں عمران خان کو 'نفسیاتی مریض' تک لکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی خاندانی دشمنی ہے۔''

۔۔۔

اخبار کے دفتر میں دھمکی، پستول اور چاقو سب دیکھا
ڈاکٹر نثار زبیری بتاتے ہیں کہ 'اخبار جہاں' کے دفتر میں ایک لڑکا پرانی فائلیں دیکھنے کے لیے پستول لے کر آیا۔ یہ 'الذوالفقار' کے 'پی آئی اے' کے طیارہ اغوا کے قریب کا زمانہ تھا۔ مجھے اس وقت بہت ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ گولی نہ چلا دے۔ اس کے علاوہ شاہ حسن عطا ریڈیو پاکستان میں طلبہ کے مباحثوں کے جج تھے، ایک مرتبہ وہاں سے ایک بچہ ثبوت لے کر آگیا کہ انھوں نے نمبر غلط جوڑ کر غلط بچے کو انعام دے دیا۔ میں نے وہ شایع کر دیا، تو دفتر آکر انھوں نے بہت غصہ کیا۔ کہنے لگے "I will not be my father's son, if I dont sue." (میں اپنے باپ کا بیٹا نہیں، اگر میں نے تمھارے اوپر مقدمہ نہ کیا تو؟)

''پھر مقدمہ کیا؟'' ہم نے بے ساختہ پوچھا، تو انھوں نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا کہ ''نہیں۔۔۔!''

وہ کہتے ہیں کہ 'این ایس ایف' (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) والے کہتے کہ تم 'اسلامی جمعیت طلبہ' کے ہو اور انھی کی چیزیں چھاپتے ہو۔ میں نے کہا آپ کچھ دیتے ہی نہیں، تو انھیں 'ڈائو میڈیکل' کی میٹنگ میں بلایا، جہاں انھوں نے مولانا مودودی کے خلاف بہت سخت باتیں کیں، میں نے نہیں چھاپا کہ اس میں طالب علموں کے متعلق کوئی بات ہی نہیں۔ جس پر معراج محمد خان بہت گرجے تھے۔ ایک دفعہ اور 'این ایس ایف' کا وفد 'جنگ' میں میری یہی شکایت کرنے آیا۔ وہاں میر حبیب الرحمٰن سے بات کی، تب میں ہر سیاسی جماعت کے شایع ہونے والے مواد کے حوالے سے فائل بناتا تھا۔ وہ دکھا دی، میر حبیب تو مطمئن ہوگئے، لیکن ان کے جانے کے بعد انھوں نے مجھے گھیر لیا اور ایک لڑکے نے تو چاقو تک نکال لیا! شکر ہے کہ مارا نہیں۔ میں نے ان کی یونین سے شکایت کی کہ اس کے خلاف قرارداد منظور کیجیے، سیکریٹری ظفر رضوی انھی کے طرف دار تھے، انھوں نے میٹنگ ہی نہیں بلائی۔

ہم نے 'ایم کیو ایم' کے حوالے سے تجربات جاننا چاہے، تو وہ کہنے لگے، ''جامعہ کراچی میں ہمارے شعبے میں 'اے پی ایم ایس او' کا ایک لڑکا توحید مصطفیٰ تھا، جو انتہائی مئودب تھا، اس سے ہماری گپ شپ اور بحث مباحثہ رہتا تھا۔'' انھیں جامعہ کراچی میں مختلف طلبہ تنظیموں اور ان کے مسلح تشدد کے حوالے سے کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ہر گھر میں دو بچے پاکستان کے حامی تھے تو دو مخالف!
ڈاکٹر نثار زبیری بتاتے ہیں کہ ضلع شاہ گنج میں مسلم لیگ کے ایک جلسے میں، میں نے قائداعظم کی شان میں نظم 'مسلم ہے قوم، قوم کی تلوار ہے جناح' پڑھی، جس کے لیے والد نے مجھے بڑے بھائی کی شیروانی پہنائی، جو میرے ٹخنوں تک آ رہی تھی۔ والد نے نظم پڑھنے پر مجھے ایک روپیا انعام دیا، تب یہ بہت بڑی رقم تھی۔

ہم نے قیام پاکستان سے قبل وہاں موجود مسلمانوں کے تاثر ٹٹولا کہ اُن کا کیا خیال تھا، پاکستان کہاں بنے گا اور کیا وہ لوگ پھر وہاں جائیں گے؟ وہ کہتے ہیں کہ ''یہ بہت واضح تھا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پاکستان وہیں بنے گا، اور ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے، لیکن یہ ٹھیک سے معلوم نہیں تھا کہ اس طرح آبادیوں کا انخلا ہوگا۔''

دہلی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ 'مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دہلی پاکستان میں شامل ہوگا، لیکن پنجاب کی تقسیم کے باعث ایسا نہ ہوا۔

''اگر پنجاب نہ بٹتا، تو دہلی پاکستان میں شامل ہونے کا امکان تھا؟ ''وہ اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ''وائسرائے اور سرحدی کمیشن نے تقسیم میں بے ایمانی کی، یہ انگریزوں کی کانگریس نوازی تھی اور دوسرا قائداعظم کو اپنی بیماری کی وجہ سے جلدی تھی، جو انھوں نے کسی پر ظاہر نہیں کی تھی، انھیں خدشہ تھا کہ بعد میں شاید یہ بھی نہ ملے۔''

''کیا اس وقت مسلمان رائے عامہ اس پر مطمئن تھی کہ پاکستان وہاں بنے اور وہ وہیں رہیں؟''

''بالکل، مسلمانوں پر یہ واضح تھا کہ ان کے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے، وہ پھر بھی اس تحریک کے ساتھ تھے۔ خدیجہ مستور کے ناول 'آنگن' میں اس وقت کی بڑی اچھی منظر کشی ہے، گھر میں اگر چار بچے ہیں، تو دو مسلم لیگ کے حق میں ہیں اور دو جمعیت علما یا کانگریس کے طرف دار۔۔۔ ہر گھر میں یہ تقسیم تھی۔ انتخابات میں مسلم لیگ کی غیرمعمولی کام یابی نے بہت واضح طور پر مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصلہ کر دیا، لیکن مخالفت کرنے والے پھر بھی مخالفت کر رہے تھے۔ 'دیو بند' سے علامہ شبیر عثمانی کے سوا وہاں کے علما پاکستان کے حامی نہیں تھے۔'' انھوں نے جواب دیا۔

''پاکستانی بڑے لڑیّا'' چھاپی تو ریڈیو پاکستان نے رابطہ کیا!
1965ء کی جنگ کی یادوں کے حوالے سے نثار زبیری بتاتے ہیں کہ 'حریت' میں وہ دو مخصوص صفحات پر محاذِ جنگ کے حوالے سے مختلف مواد شایع کرتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب آئے، بتایا کہ ان کا نام نفیس فریدی ہے اور انھوں نے یہ نظم لکھی ہے، جو دراصل مشہور ہندوستانی رزمیہ ''آلھا اودَل بڑے لڑیّا جن کی سہی نہ جائے مار!' پر کہی گئی تھی، یعنی ''پاکستانی بڑے لڑیّا جن کی سہی نہ جائے مار!'' اس نظم کے تین بند شایع ہوئے، تو 'ریڈیو پاکستان' سے فون آیا کہ یہ نفیس فریدی کون ہیں؟ میں نے کہا مجھے نہیں پتا، پھر ریڈیو والوں نے انھیں کہیں سے تلاش کیا اور پھر باقاعدہ اس کی دھن بنوائی اور یہ نغمہ نشر ہوا اور بہت مقبول رہا۔ نفیس فریدی اس نظم کے روز تین نئے بند لاتے، جو 'حریت' میں چَھپتے اور پھر ریڈیو پر گائے جاتے۔

نیا 'بال پین' لینے کے لیے پہلے خالی پین واپس کیجیے!
ڈاکٹر نثار زبیری اپنے 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے تعلق کی تردید کرتے ہیں۔ ماضی میں ہفت روزہ 'تکبیر' کی مجلس مشاورت میں اپنے نام شایع ہونے کا سبب وہ اس کے مدیر صلاح الدین سے یاداللہ بتاتے ہیں کہ وہ ہم جماعت تھے، رہائش بھی قریب تھی، انھوں نے ہی صلاح الدین کے کہنے پر انھیں 'حریت' میں ملازمت دلائی۔ 'جنگ' میں جگہ نکلی، تو یہ ہوا کہ کوئی اپنا 'اسلام پسند' آدمی لائیں۔ میر حبیب الرحٰمن سے سفارش کی اور ٹیسٹ کے بعد وہ وہاں آگئے، لیکن ماحول اور نظم وضبط کے سبب جلد چھوڑ گئے۔ ہم نے 'جنگ' کے اس 'ماحول' کو ٹٹولا تو نثار زبیری نے بتایا کہ 'ہمیں کہا جاتا کہ کاغذ زیادہ استعمال نہ کریں، ایک کارڈ پر درج کیا جاتا کہ فلاں کو بال پین دیا گیا اور جب وہ پین خالی ہو جائے، تو وہ واپس کریں اور پھر نیا پین لیں۔ دراصل ایک ریٹائر پولیس والے وہاں آگئے تھے، انھوں نے یہ سب شروع کرایا، لازماً وہی خالی جمع کرانا ہوتا تھا۔ ہم نے کہا یہ کیسے پتا چلتا تھا کہ یہ وہی پین ہے؟ تو بتایا کہ انھوں نے ایک مخصوص طرز کے پین لیے تھے یا بنوائے تھے۔ سلطانہ مہر نے ایک بار کوئی دوسرا خالی پین دیا، تو انھوں نے کہا نہیں وہی واپس کیجیے۔ 'جنگ' میں یہ حرکتیں تھیں، تو صلاح الدین کو یہ سب ناگوار گزرتا تھا۔

اگر فون نہ بجتا، تو پنکھا عسکری فاطمی کے اوپر گرتا!
صحافتی زندگی کے تجربات کے تذکرے پر ڈاکٹر نثار زبیری بتاتے ہیں کہ ''حریت'' میں ایک رات اخبار پریس جانے والا تھا، سب گھر جانے کی تیاری میں تھے کہ اچانک ٹیلی پرنٹر کی گھنٹی بجی، دیکھا تو خبر تھی ''امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو گولی مار دی گئی!'' بس پھر کیا تھا پورے دفتر میں ایک ہنگامہ مچ گیا، گھر جانے والوں کو روکا، جو سیڑھیوں سے اتر رہے تھے انھیں واپس بلایا۔ جلدی جلدی ترجمہ کرنا، اور دیگر متعلقہ خبریں بنانا اور تصویریں نکالنا۔ پرانی تصویروں کا ایک پورا شعبہ ہوتا تھا، پھر ترجمے کے بعد کتابت کے مراحل۔ اب اس سے بڑی خبر بھلا اور کیا ہو سکتی تھی۔

ایک مرتبہ 'حریت' ہی میں جب ممتاز صحافی رضا علی عابدی ہمارے انچارج اور میں ان کا معاون۔ حسن عسکری فاطمی بھی ہمارے ساتھ تھے، ہم سب دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران ٹیلی فون آیا اور اِدھر عسکری فاطمی فون کے لیے اٹھے اور اُدھر چھت کا پنکھا نیچے آن پڑا، اس قدر زور سے گرا کہ وہ میز ٹوٹ گئی، یہ پرانے وقتوں کا بھاری پنکھا تھا۔ اگر اس لمحے فون نہ آتا، تو خدشہ تھا عسکری فاطمی اس کی زد میں آجاتے۔ اس کے علاوہ جب میٹرک، انٹر کے نتائج کبی بھی ایک عجیب افراتفری ہوتی تھی، نتائج کے 'ضمیمہ' نکلنے سے پہلے طلبہ کا ایک جم غفیر دفتر پر ''حملہ آور'' ہوتا، سب اپنا رول نمبر دیتے کہ پہلے ہمیں یہ دیکھ کر بتا دو! جب تک 'ضمیمہ' چھپ نہیں جاتا، یہ ہنگامہ جاری رہتا۔

برصغیر کے مسلمان یک جا تھے، تب بھی بلوے ہوتے!
بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان سے آنے والوں کی واپسی کے حوالے سے استفسار کیا، تو وہ گویا ہوئے کہ ''بہت تھوڑے لوگ واپس گئے۔ ظاہر ہے ہر شخص کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ نئی جگہ آکر سب کچھ دوبارہ جمائے۔ وہاں صدیوں سے سارا کاروبار وغیرہ تھا، یہاں آکر انھیں نئے سرے سے جدوجہد اور کام کرنا تھا، انھیں اس کا تجربہ نہیں تھا، جنھیں آتا تھا، انھوں نے کام کیا۔''

ہم نے کہا کہ قائداعظم کے سات اگست 1947ء کو دہلی سے روانہ ہوتے وقت کے بیان کہ 'مسلمان ہندوستان کے وفادار رہیں!' کو بڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ''یہ تنقید درست نہیں، قائداعظم جیسا صاف ستھرا آدمی سیاست میں اور کوئی نہیں اور جب آپ وہاں رہ رہے ہیں تو آپ یہ سب منظور کر رہے ہیں کہ وہاں کے وفادار رہیں گے۔''

''لیکن پھر بعد میں انھوں نے بلایا کہ ہمیں ملک چلانے کے لیے ماہرین چاہئیں؟'' ہم نے اگلا ٹکڑا لگایا، تو انھوں نے کہا ''جو لوگ آنا چاہتے تھے، وہ آئے، کوئی پابندی نہیں تھی۔ اب تو وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، تو یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ کیا وہاں رہنے کا فیصلہ کرنے والوں نے غلطی کی۔۔۔؟ اس سے تو اور ثابت ہو رہا ہے کہ قائد اعظم نے ٹھیک کیا تھا۔''

ہم نے کہا اس کا ایک رخ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تین جگہ بٹے ہوئے مسلمان ایک ہوتے تو شاید صورت حال مختلف ہوتی؟ جس پر انھوں نے کہا ''اس کی کوئی ضمانت نہیں، کیوں کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی وہاں فسادات ہوتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی رات میں ایک دم ہنگامہ شروع ہو جاتا۔ ہمارے برابر کے محلے میں ہندوئوں کی اکثریت تھی۔

لوگوں کی چیخنے چلانے اور نعروں کی آوازیں آتی تھیں۔ ہمارے گھروں کے پار مرکزی راستے پر ایک بڑا پھاٹک تھا، ہم دوڑ کر وہ بند کرتے۔ انھوں نے تو عید کا دن بھی نہ چھوڑا۔ شہر سے ذرا باہر کو عید گاہ تھی، سن یاد نہیں کہ جب عید کے اجتماع پر حملہ کیا گیا اور بہت بڑا بلوا ہوا۔ عید گاہ کے بالکل سامنے سڑک پار موجودہ پاکستان سے وہاں جانے والے ہندوئوں کی ایک بستی تھی، خیال یہ تھا کہ اس میں سے کچھ لوگوں نے یہ حملہ کیا۔''

افسانوی مجموعہ اور یادداشتیں آنے کو ہیں
بطور استاد جامعہ کراچی کے تجربات کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ طلبہ کے ساتھ اساتذہ کا رویہ بھی عجیب دیکھا، طلبہ استاد کو کلاس کے لیے جا جا کر بلا رہے ہیں، اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک بار جب آدھے سیمسٹر پر ایک استاد نے طویل چھٹی مانگی، میں نے کہا، ابھی تو آپ کا بہت کورس باقی ہوگا، تو وہ کہنے لگے کہ ''جناب، کورس تو کبھی کا ختم ہو چکا!'' ادھر ہمارا کورس دیکھیے، تو آخری دن تک بڑی مشکل سے مکمل ہوتا ہے۔ بطور صدر شعبہ شریف المجاہد صاحب کے زمانے کے نصاب میں جدید چیزیں شامل کیں، جس میں انعام باری (مرحوم) نے بہت ہاتھ بٹایا۔ ہمارے اساتذہ کو نئی کتب کا کچھ خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ Stanley J. Baran کی اِبلاغی نظریات پر بہترین کتاب کی یہاں کسی کو خبر نہ تھی، میں نے ملائیشیا سے لا کر دی۔ 1999ء میں عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد مجھے Adjunct professor بنا دیا گیا، جس کی ایک مقررہ تنخواہ ہوتی۔ یوں میں ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً20 برس پڑھاتا رہا، 2019ء میں بتایا گیا کہ یونیورسٹی کی پالیسی میں تبدیلی کے سبب یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔

اس کے بعد وہ 'جناح یونیورسٹی برائے خواتین' میں 'میڈیا اسٹڈیز' کے چیئرمین رہے، 'پی پی آئی' میں 'ضابطہ اخلاق' کے حوالے سے کام کیا۔ گذشتہ ایک سال اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیا میں رہے، جہاں کا فطرت سے قریب ماحول انھیں بہت بھایا۔ ان دنوں کراچی میں دوسرے بیٹے ساتھ ہیں، جن کی دو بیٹیاں ہیں، بیٹے اپنی بڑی بچی کے کینیڈا کی یونیورسٹی میں داخلے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے۔ نثار زبیری نے سماجی علوم میں تحقیق اور نظریات اِبلاغ پر دو کتابیں لکھی۔ ان دنوں یادداشتیں لکھ رہے ہیں، جو امید ہے دو تین مہینے میں شایع ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ افسانوں کی کتابی صورت پر بھی متحرک ہیں۔ انھیں لفظوں کی جوڑ توڑ پر مبنی کھیل Scrabble بہت پسند ہے، ہماری ملاقات سے قبل بھی وہ اخبار میں ایسی ہی کوئی لفظی گتھی سلجھا رہے تھے۔

پاکستان جانے سے روکنے والے تایا بھی یہاں آگئے!
ڈاکٹر نثار زبیری کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں، ایک بھائی اور ایک بہن کا انتقال ہو چکا ہے۔ 1947ء میں بٹوارے کے بعد مسلم لیگیوں کے خیالات کا ذکر ہوا کہ وہ پاکستان کے لیے جذباتی تھے، پاکستان بننے کے بعد کیا سوچتے تھے کہ رہیں یا چلے جائیں؟ وہ کہتے ہیں کہ خود ہمارے تایا نے والد کو روکنے کی کوشش کی، وہ کہتے تھے کہ وہاں کیا ہوگا، تمھارے پاس کچھ نہیں ہے، مشکل میں پڑ جائو گے! لیکن والد نے ہمت کر کے ہمیں بھیجا اور پھر خود بھی آگئے۔ اور پھر بعد میں وہ تایا بھی یہاں آگئے!

''وہ مجبور ہو کے آئے یا پھر موقف بدل گیا؟'' ہمارے ذہن میں فوراً یہ سوال آیا، انھوں نے بتایا کہ 'ان کی بیٹی کی شادی یہاں ہوگئی، ایک بیٹا بھی یہاں آگیا، تو پھر انھیں بھی آنا پڑا۔'

'پی ایچ ڈی' کے مقالے چھُپا کر رکھتے ہیں!
ڈاکٹر نثار زبیری 'شعبہ اِبلاغ عامہ میں اپنے بلند تحقیقی معیار کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی زیرنگرانی فقط 10، 11 طلبہ ہی نے 'ڈاکٹریٹ' کیا ہے۔ ملک میں تحقیقی کی صورت حال پر وہ کہتے ہیں کہ ''طلبہ آسان 'سپروائزر' کے پاس جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے 'ایگزامنر' مقرر کرواتے ہیں، پھر اسے اتنا چُھپا کر رکھتے ہیں کہ نہ پوچھیے۔ 'شعبہ اِبلاغ عامہ' کے کئی 'پی ایچ ڈی' لوگوں سے کہا، ذرا اپنا مقالہ مجھے پڑھنے کے لیے تو دیجیے، لیکن وہ نہیں دیتے، مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ ہم کم از کم 'پی ایچ ڈی' کے معیار کو تو بخش دیتے۔ پرویز ہود بھائی نے 'ڈان' میں اپنے کالم 'پروفیسر مافیا' لکھا ہے، وہ پڑھیے، تو سب سمجھ میں آجائے گا کہ کس طرح ملی بھگت کے ساتھ سارا کام ہو رہا ہے۔ جامعہ کراچی میں 'بی اے ایس آر' (بورڈ آف ایڈوانسس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ) میں طویل عرصے تک سماجی علوم کا کوئی 'پی ایچ ڈی' نہیں تھا، صرف ریاض الاسلام کو رکھا گیا، جو 'تاریخ' کے تھے، اس پر بھی دو رائے ہیں کہ 'تاریخ' سماجی علم ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ یہ کیسے کام کر رہے تھے کہ وہاں سماجی علوم کا کوئی موضوع، کوئی تحقیقی خاکہ کیسے منظور کرتے تھے؟

''پہلے طلبہ منع کرنے پر مان جاتے تھے''
ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے دوسرا ماسٹرز 'صحافت' میں 1966ء میں کیا، اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ میٹرک کے آٹھ سال بعد 'ایم اے' میں داخلے کی ممانعت تھی، شریف المجاہد کی شیخ الجامعہ اشتیاق حسین قریشی سے سفارش پر داخلہ ملا۔ شریف المجاہد پوری کلاس کو اسائمنٹ نہ کرنے پر ڈانٹتے اور آخر میں ان سے کہتے کہ 'زبیری صاحب، آپ انھیں سمجھائیں۔' وہ شرمندہ ہوتے کہ خود انھوں نے بھی اسائمنٹ نہیں کیا ہوا ہوتا تھا۔

بطور طالب علم جامعہ کراچی کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ''تب لوگوں کو نئی نئی آزاد ی ملی تھی، اور شہر سے پرے ایک نیا ماحول تھا، تو وہاں کچھ رومانویت تھی، طلبہ اِدھر اُدھر بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ میجر آفتاب حسن 'پراکٹر' (Procter) تھے، ہر شعبے سے ایک دو طلبہ بھی 'پراکٹر' مقرر ہوتے، اگر طلبہ دیر تک بیٹھتے تو انھیں ٹوکتے۔ اس زمانے میں یہ تھا کہ اگر آپ کسی سے کہیں کہ ایسا نہ کریں، تو وہ بات مان لیتا تھا۔''

وہ بتاتے ہیں کہ ''تب 'آنرز' کا سلسلہ نہیں تھا، صحافی واستاد متین الرحمن مرتضیٰ ان سے ایک سال آگے تھے، اُن کی کلاس میں 16، 17، جب کہ اِن کی کلاس میں فقط 11 طلبہ تھے۔ 'لیکچر' کے لیے مخصوص کمرے نہ تھے، طلبہ شریف المجاہد اور حسن ریاض کے کمروں میں کلاس لیتے، حاضری پر بہت زور ہوتا تھا۔ آج کی یونیورسٹی کی طرح ''گھریلو معاملہ'' نہیں تھا، بلکہ چار میں سے دو پرچے کسی دوسری جامعہ سے بنتے اور وہیں جانچے جاتے تھے۔ طلبہ یونین کے ذکر پر انھیں یاد آیا کہ وہ ایک بار 'سی آر' (Class Representative) بھی بنے، کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں فتح یاب علی خان طلبہ یونین کے صدر بنے۔
Load Next Story