قرارداد پاکستان پر ایک نظر…
قائداعظم نے واضح کر دیا کہ قرارداد پاکستان میں ایک ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔۔۔
اٹھارویں صدی میں مغرب میں قوم اور قومی ریاستوں کے تصور کے ظہور سے قبل ہی ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے دو علیحدہ قومیں تھیں، مگر 1858ء میں جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک قوم قرار دے کر حکمرانی شروع کی تو ہندوستان کے مسلمان بجا طور پر اپنے قومی تشخص کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے (مسلم وقف الاولاد قانون کی برطانوی ہند میں منسوخی اور قائداعظم کی جدوجہد سے 1931ء میں اس کی بحالی اس امر کی ایک بڑی مثال ہے)۔ یہی امر دراصل قرارداد پاکستان کی بنیاد بنا جس نے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا۔
یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا جزوی اور واضح تصور بہت سارے دانشوروں، اہل علم اور سیاستدانوں نے دیا مگر مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی وہ درحقیقت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ کی کاوش کا نتیجہ تھی جو انھوں نے مئی 1936ء سے نومبر 1937ء کے عرصے میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ہونے والی اپنی خط و کتابت میں کی تھی۔ اقبالؔ نے اپنے ان خطوط میں قائداعظم پر زور دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور جلد از جلد مسلم اکثریتی علاقے لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں۔ قائداعظم نے اقبالؔ کے ان خطوط کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انھوں نے اقبالؔ کے اس تصور کو اس لیے قبول کیا تھا کہ وہ ان کے اپنے خیالات کے مطابق تھا۔ یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے قائداعظم بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس طرف اقبال نے ان کی توجہ مبذول کروائی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا جو 22 مارچ سے 24 مارچ 1940ء تک جاری رہا۔ اسی جگہ پر آج یادگار پاکستان قائم ہے۔ اس تاریخی اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی۔ جس کے لیے وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین فرنٹیئر میل لاہور پہنچے تھے۔
یہ تاریخی اجتماع جہاں ایک طرف اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مظہر تھا۔ وہاں دوسری طرف مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھا۔ اجلاس میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کی آمد کا منظر بڑا خیرہ کن تھا۔ دونوں نے شیروانیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ صدیق علی خان کی قیادت میں مسلم لیگ گارڈز انھیں اپنے جلو میں لے کر ڈائس تک پہنچے۔ اے کے فضل الحق اور چوہدری خلیق الزماں بھی شیروانیوں میں ملبوس تھے۔ یہ تاریخی اور روح پرور اجتماع خواص و عوام کے سنگم سے عبارت تھا، جس میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی اور اکثریتی علاقوں سے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ ان میں حیدرآباد دکن سے مسلم لیگی رہنما بہادر یار جنگ اور لاہور سے مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے۔ جب کہ بیگم مولانا محمد علی جوہر سر تا پاؤں کالے برقعے میں ملبوس اجلاس میں موجود تھیں۔ قرارداد پاکستان کی حمایت میں بولنے والوں میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔
اس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940ء کو ہوا۔ ابتدا میں میاں بشیر احمد کی نظم ''ملت کا پاسباں'' غیاث غازی آبادی نے پڑھی۔ قائداعظم نے اسی دن 22 مارچ 1940ء کو ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ ''مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی عادات، علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے ہیروز اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔
یہی حال ان دونوں کی فتوحات اور شکستوں کے حوالے سے ہے۔ اس طرح کی دو قوموں کو ایک واحد ریاست میں اکٹھے رکھنا کہ جس میں عددی اعتبار سے ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں سوائے تباہی اور بربادی کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ مسلمان قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور ان کے پاس اپنا وطن، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں مسلمان مکمل طور پر اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کی اس طرح تعمیر کریں جسے ہم سب بہتر سمجھیں اور جو ہمارے تصور سے مطابقت رکھے اور ہمارے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو''۔ قائداعظم کی تقریر ایسی سحر انگیز اور متاثر کن تھی کہ اس جلسے میں انسانوں کے سمندر پر جیسے سکوت طاری ہو گیا ہو۔ لوگوں کی اکثریت انگریزی سے نابلد تھی لیکن لوگ یہ محسوس کر رہے تھے کہ جیسے یہ ان کے دلوں کی آواز ہے۔
23 مارچ 1940ء کو وہ تاریخی لمحہ آ پہنچا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مغربی زونوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ان پر مشتمل مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد کو قائداعظم اور سکندر حیات نے تیار کیا جب کہ لیاقت علی خان نے 22 مارچ کو اسے سبجیکٹ کمیٹی میں پیش کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ اس قرارداد کو صوبہ بنگال کے وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق نے 23 مارچ کو کھلے اجلاس میں پیش کیا۔ یوپی کے چوہدری خلیق الزماں نے قرارداد کی تائید کی۔ جن اہم مسلم لیگی رہنماؤں نے قرارداد کی حمایت کی ان میں پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر محمد عالم، سرحد سے سردار اورنگ زیب خان، سندھ سے حاجی سر عبداﷲ ہارون، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ، یوپی سے بیگم مولانا محمد علی جوہر، سید ذاکر علی، مولانا عبدالحامد، بہار سے نواب محمد اسماعیل، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ اور مدراس سے عبدل حامد خان شامل تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا۔ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔
قائداعظم کے مخلص ساتھی اور آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن ایم اے ایچ اصفہانی اپنی کتاب "Quaid-e-Azam Jinnah as I knew him" کے صفحہ نمبر 159 پر رقم طراز ہیں کہ ''قائداعظم نے قرارداد لاہور میں لفظ States (ریاستیں) کے اندراج کو ٹائپنگ (Typing) کی غلطی قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ حقیقی اہمیت نیت کی تھی نہ کہ لفظ کی''۔
ستمبر 1944ء میں مہاتما گاندھی کے ساتھ اپنی خط و کتابت کے دوران گاندھی کی طرف سے پوچھے گئے قرارداد پاکستان کے بارے میں سوالات کے جواب میں قائداعظم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''قرارداد پاکستان میں مشرقی اور مغربی زونوں کی اکائیاں (Units) پاکستان کی اکائیاں ہوں گی''۔ چنانچہ یہاں بھی قائداعظم نے واضح کر دیا کہ قرارداد پاکستان میں ایک ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، دوسری طرف اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرارداد لاہور میں Units یا صوبوں کی آزادی اور خود مختاری سے مراد ایک وفاق کے اندر صوبوں کے انتظامی اختیارات تھے۔
مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام مسلم لیگی ارکان کا ایک کنونشن 7 اور 8 اپریل 1946ء کو اینگلو عربک کالج دہلی میں منعقد ہوا، 470 مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد لاہور میں درج لفظ States کی جگہ "State" کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قرارداد، قانون یا دستور پر وقت کے ساتھ ساتھ نظرثانی ہوتی ہے اور ان میں موجود کسی بھی غلطی، سقم یا کمی کا تدارک کیا جاتا ہے، ان کی تصحیح ہوتی ہے اور خصوصاً جب کسی نئی ریاست کی تشکیل کا مرحلہ ہو تو اس کی گنجائش کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آئی جسے بعدازاں قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر اور واضح شکل دی۔ اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔