سیاحت سیلاب اور سوشل میڈیا

سوشل میڈیا سے ملنے والے لوگوں کو بھی مطلبی، سطحی اور خودغرض تصور کیا جاتا ہے


سوشل میڈیا سے ملنے والے لوگوں کو بھی مطلبی، سطحی اور خودغرض تصور کیا جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ایک لعنت ہے، منفی سرگرمیوں کا محور ہے، ایک ایسی لت ہے جو لگ جائے تو بندہ تباہ ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوشل میڈیا سے ملنے والے لوگوں کو بھی مطلبی، سطحی اور خودغرض تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ ہر چیز کی افادیت یا نقصان کا تعین اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مثبت استعمال کریں تو آپ کو ڈھونڈنے پر اچھے لوگ بھی مل جائیں گے اور آپ کے مثبت کام بھی ہو جائیں گے۔ اس کا مثبت استعمال آپ کے ہاتھ میں ہے۔

پاکستان میں جب سے سیلاب آیا ہے، میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد سماجی و رفاحی کام کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق سیاحت سے ہے پھر چاہے وہ بائیکر ہوں، لکھاری ہوں، آثارِقدیمہ کے کھوجی ہوں یا فوٹوگرافر دوست۔ اور ایسے بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں جو کب سے سوشل میڈیا پر ساتھ تھے لیکن سماجی کاموں نے ان کو آپس میں مِلا دیا۔ ان کو باہم جوڑ دیا۔

سوشل میڈیا کے ایسے ہی کچھ پلیٹ فارمز کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا جن سے مجھے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے بہت مدد اور راہ نمائی ملی۔ ان میں ''قراقرم کلب'' (سیاحت اور کوہ نوردی سے جڑا ایک گروپ) سرِفہرست ہے جہاں سے مجھے ایسے بہترین، مخلص اور غریب پرور دوست ملے کہ جن کے توسط سے مختلف امدادی کاموں میں بہت سہولت ہوگئی۔

اللہ بھی کیسے کیسے راستے بناتا ہے۔

ایک روز راولپنڈی کے دوست ''بروغل'' اور ''یارخون'' کے لیے امداد کی اپیل کرتے ہیں، لاہور، کراچی، گجرات و ملتان وغیرہ سے دوست امداد کرتے ہیں، خان پور سے چترال سامان اور نقدی بھیجی جاتی ہے اور چترال کے دوست سامان سے بھرے ڈالے لے کر شمالی چترال کے دوردراز مقامات لشکر گاز، بروغل و یارخون جا پہنچتے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ ان علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں، راشن اور کمبل دیتے ہیں، بچوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔

کتنے ہی لوگ ایسے بہترین پلیٹ فارمز کے توسط سے انسانیت کی ایک مضبوط لڑی میں پرو دیے گئے ہیں جیسے کسی وظیفے کی تسبیح۔

ایک اور پلیٹ فارم ''وسیب ایکسپلورر'' ہے جو وسیب کی سیاحت میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے مختلف بائیکر و سیاح حضرات ہر ہفتے ملتان پہنچتے ہیں اور وہاں سے سامان لے کر کوہِ سلیمان اور پچادھ کے علاقوں میں پھیل جاتے ہیں۔

کبھی تونسہ میں میڈیکل کیمپ لگ رہا ہے، کبھی منگروٹھہ و ناڑی جیسی بستیوں میں سامان تقسیم کیا جا رہا ہے، کبھی ہڑند و بارتھی میں سامان لے کہ جایا جا رہا ہے تو کبھی پنجاب کی سب سے آخری تحصیل روجھان میں وہاں کے غریب پرور سردار کے ساتھ مل کہ ادویات، سینیٹری پیڈز و کپڑے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔

اس سے خوب صورت بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن علاقوں کی خوب صورتی دیکھنے ہم عام دنوں میں جاتے ہیں، آج جب ان کو ضرورت ہے تو ان کے لیے ہم جوق در جوق وہاں پہنچ ہے ہیں۔

آگے چلیں۔

ایک سیاحتی پلیٹ فارم سے مجھے بلوچستان کے دوردراز علاقے ''جھٹ پٹ'' کا ایک نوجوان ملتا ہے جو فارماسسٹ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اچھا دوست بن جاتا ہے۔ اس سے بار بار بلوچستان آنے کا وعدہ ہوتا ہے لیکن ملازمت کی بیڑیوں کے باعث کسی بھی جاڑے میں وہ وعدہ وفا نہیں ہو پاتا۔ لیکن جب اس کے وطن، اس کی سرزمین بلوچستان کو ضرورت پڑتی ہے تو بندہ وہاں جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

ملیریا اور ڈینگی سے تڑپتے بلوچ عوام کے لیے پنجاب سے مچھرمار لوشن اور مچھردانیاں بھیجی جاتی ہیں۔ دوردراز سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی امداد کے طفیل وہاں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں مستحقین میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔

یہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟

سوشل میڈیا کی طاقت اور اس سے بنے تعلقات ہی تو ہیں کہ کبھی ایک دوسرے سے نہ ملے ہوئے چند لوگ ملک کی خاطر ایک دوسرے پر اندھااعتماد کر کے کام کیے چلے جا رہے ہیں۔

سیاحت کا ادب سے بھی تو تعلق ہے۔ ادبی گروپ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ ''پیبورپ'' نامی ادبی گروپ سے جڑے لوگ بھی اس عرصے میں بہت کام آئے۔ مختلف پوسٹس سے بہت سے دوردراز علاقوں کے حالات کا علم ہوا۔ وہیں ایک دن معلوم ہوا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کی تحصیل پہاڑ پور کے ایک گاؤں میں ایک بوڑھے جوڑے کا مکان گر چکا ہے۔ ادب اور کتاب سے جڑے ایک مقامی دوست نے رابطہ کیا، تحقیقات کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالی اور یوں چٹکیوں میں پھر سے پاکستان جڑ گیا۔

لاہور، میانوالی، کراچی اور دیگر علاقوں سے ان کے لیے امداد پہنچی اور اللہ کے کرم سے مقامی دوست کے ذریعے اس خاندان کا ایک کمرا اور غسل خانہ بن کر تیار ہوگیا۔

آخری بات بھی سن لیجیے۔

قراقرم کلب کی ہی ایک پوسٹ کے کمنٹ سیکشن میں ایک دوست بنتے ہیں جو ڈیرہ مراد جمالی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان سے تو سمجھو جگری دوستی ہوجاتی ہے لیکن پھر وہی بات، ملاقات کی تشنگی۔

سیلاب میں موصوف بھی اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر کام شروع کردیتے ہیں۔ ملک بھر سے موصول ہونے والی لوگوں کی امانتیں روزانہ جا کر متاثرین تک پہنچاتے ہیں۔ ان ہی کے توسط سے رتوڈیرو کی ایک ایسی فیملی کا پتا چلتا ہے جس کے دو افراد معذور ہیں۔ سیلاب اور بارشوں سے گھر کی چھت ٹوٹ چکی ہے اور بے آسرا پڑے ہیں۔ پھر سے سوشل میڈیا کے دوست اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے لیے ورکنگ شروع ہوتی ہے۔ معلومات کی تصدیق اور بنیادی سروے کرنے کے بعد گھر کی تعمیر کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔

لسبیلہ، بدین، فاضل پور، جھل مگسی، روجھان، تونسہ، بروغل، گنڈاخہ، داجل، جعفر آباد، دادو اور نجانے کتنے ہی متاثرہ علاقے ایسے ہیں جہاں سوشل میڈیا کے دوستوں کے توسط سے کچھ نہ کچھ کام ہوا ہے۔ کہیں میڈیکل کیمپ تو کہیں راشن اور گرم کپڑوں کی فراہمی۔ کہاں کے ڈاکٹر کہاں جا پہنچے ہیں۔ یہی تو ہے میرے ملک کا اصل چہرہ۔

کبھی سوچتا ہوں تو دل خوش ہوجاتا ہے کہ آج کل کے مطلبی دور میں ایسے مخلص دوست بھی ایک نعمت ہیں جو چاہے اپنے لیے کبھی فون نہ کریں لیکن جب ملک کو ضرورت پڑے تو سب رابطے بحال کر لیں۔

ان احباب کا بھی شکریہ کہ جو دوردراز محفوظ علاقوں میں بیٹھے ہیں لیکن دکھی انسانیت کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ ملازمت کے باعث خود نہیں جا سکتے لیکن ان علاقوں میں کام کرنے والے دوستوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔

قراقرم کلب، وسیب ایکسپلورر اور پیبورپ جیسے پلیٹ فارمز کا بھی شکریہ جو متاثرین کے حوالے سے ہر پوسٹ کا رسپانس دیتے ہیں اور ان کی مدد کرنے والوں کے لیئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔

سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا سے بننے والے تعلقات بھی ایک نعمت ہیں اگر ان کو صحیح سے برتا جائے تو۔ آج جب یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں تو اپنی سیاحتی و ادبی کمیونٹی پر فخر ہو رہا ہے۔ جہاں سرکار اور ذمہ دار ادارے تک نہیں پہنچ پائے وہاں ہمارے یہ دوست والنٹیئرز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور خنجراب سے کراچی تک پورا پاکستان ان کی مدد کو کھڑا ہے۔ لیکن ہمارا امتحان ابھی باقی ہے۔ متاثرین کے گھروں میں جانے تک ہمیں ہمت نہیں ہارنی۔

سیلاب زدہ علاقوں میں کسی بھی طرح کا رفاہی کام کرنے والے تمام غیرسرکاری اداروں، سوشل میڈیا کے دوستوں اور سیاحتی تنظیموں کا میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

وطن کی مٹی عظیم ہے تو

عظیم تر ہم بنا رہے ہیں

گواہ رہنا۔۔۔۔۔

۔۔۔

دریا کا جنون
عثمان دموہی

ہم نے دریا کے جنوں کی یہ ادا بھی دیکھ لی
وائے اپنی غلطیوں کی یہ سزا بھی دیکھ لی

دور تک بپھری ہوئی موجوں سے وحشت عام ہے
رنج و غم درد و الم کا ہر قدم پر دام ہے

صرف ساماں ہی نہیں انسان بھی تو بہہ گیا
اس کا یہ جور و ستم گردوں بھی تکتا رہ گیا

شہر اور دیہات اس سیلاب سے برباد ہیں
کل جہاں رونق تھی اب خوف و خطر آباد ہیں

آہ! وہ پانی کہ جس سے کھیت پاتے تھے قرار
ہوگئی تاراج اس سے آج فصلوں کی بہار

تیرے دم سے ہی تھا دہقاں کامیاب و کامراں
تیری لہروں نے کیا تھا کھیتیوں کو شادماں

تو نے بخشی زندگی ہر کھیت ہر کھلیان کو
تو نے طاقت اور ہمت دی ہر اک انسان کو

ہم ہمیشہ تیری عظمت کی قسم کھاتے رہے
تیری لہروں کے سُروں پر جھومتے گاتے رہے

تیری موجوں کے سہارے آگے ہم بڑھتے رہے
تیرے پانی کے لیے ہم دم بہ دم لڑتے رہے

تیرے دم سے ہوں گے اک دن ہم غذا میں خود کفیل
تیری سرشاری ہے ملت کی ترقی کی دلیل

تو مقدر ہے ہمارا ہم کو تجھ پر ناز ہے
آج کل لیکن ترا بدلا ہوا انداز ہے

جانے کیوں تو ہو گیا ہے آج کل ہم سے خفا
تیری طغیانی ہمارے واسطے ہے اک سزا

چھوڑ اب اپنا جنوں اور ہر ستم سے باز آ
پُرسکوں ہو کر بقائے زندگی کے گیت گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں