زباں فہمی اُردواوربعض دیگر زبانوں کے مشترک الفاظ

ہماری پیاری زبان کے دیگر عالمی زبانوں سے اشتراک کا موضوع بہت دل چسپ اور وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ وقیع بھی ہے

ہماری پیاری زبان کے دیگر عالمی زبانوں سے اشتراک کا موضوع بہت دل چسپ اور وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ وقیع بھی ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 158

ہماری پیاری زبان کے دیگر عالمی زبانوں سے اشتراک کا موضوع بہت دل چسپ اور وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ وقیع بھی ہے۔ اس باب میں تحقیق ابھی تھوڑی ہے اور ماہرین لسانیات کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اردو کے بے شمار الفاظ وتراکیب، محاورات وضرب الامثال کا دیگر زبانوں میں بعینہ پایا جانا یا مماثل ہونا کوئی ایسی معمولی بات نہیں کہ نظر انداز کی جاسکے۔

وسط ایشیا اور خطہ ہند کے ہمہ جہتی تعلقات کی بنیاد ہزاروں سال پہلے پڑی اور اس ضمن میں تاجروں، سیاحوں، حکمرانوں، فاتحین، مبلغِین (صوفیہ وعلماء) اور عوام الناس کا کردار یکساں رہا۔ مختلف ممالک کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ جب کہیں یکجا ہوتے تو زبانوں، کھانوں اور اشیائے تجارت کا تبادلہ بھی فطری طور پر ہوا کرتا تھا۔

اِس خطے میں اسلام کی اشاعت کے لیے آنے والے متعدد صوفیہ کرام کا تعلق وسطِ ایشیا، ایران، عراق اور افغانستان سے تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عرب وعجم کے مابین کسی بھی سلسلہ نسب کا فروغ پانا بھی اسی طرح ممکن ہوا۔ (تاریخ سے ناواقف لوگ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ جناب! اتنے سید تو عرب میں تھے نہیں، یہاں کیسے آگئے)۔

ہمارے نانھیال سمیت برعظیم کے اکثر سادات، براہ راست سرزمین عرب سے نہیں آئے، بلکہ عراق، ایران، افغانستان یا وسطِ ایشیا کے کسی ملک، خصوصاً موجودہ اُزبِکستان (ازبیکستان) سے آئے تھے ، مثلاً شیخ نورالدین مبارک غزنوی، سید جلال الدین بخاری سرخ پوش (میرے نانھیالی جدّامجد)، شیخ جلال الدین تبریزی (سلہٹ، بنگال: یہ شاہ جلال سلہٹی کے علاوہ ہیں جو جلال الدین بخاری کے نواسے تھے)، سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش اور دیگر (رحمہم اللہ )۔ ان ممالک سے ہوکر ہندوستان کا رُخ کرنے والوں نے اپنے حسب نسب کے محفوظ کرنے کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ واسطی (واسط، عراق کی نسبت سے)، بخاری، ترمذی، مشہدی، سبزواری اور سمرقندی جیسی نسبتیں بطور لاحقہ استعمال کیں ۔

وسط ِ ایشیا اور ہمسایہ ممالک کے متنوع سیاسی، سماجی بشمول ثقافتی (بشمول لسانی) تعلقات کا سفر صدیوں پر محیط ہے اور اس اثناء میں یوں تو بہت سی زبانیں معرض وجود میں آئیں، مگر دیسی وبدیسی زبانوں اور بولیوں کے عظیم ومنفرد فطری اختلاط سے تشکیل پانے والی اردو زبان کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس زبان کے ابتدائی نقوش اسی کثیرلسانی معاشرت سے منسلک دکھائی دیتے ہیں۔

حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی (رحمۃ اللہ علیہ) جیسے نامعلوم کتنے ہی صوفیہ کرام اس خطے سے مذکور بالا مقامات کی سیاحت کو بھی گئے اور اپنا سلسلہ تصوف آگے بڑھایا یعنی یہ یک طرفہ سلسلہ نہیں تھا کہ فاتح یا کوئی دیگر غیرملکی آئے اور یہاں اپنا طرزِمعاشرت بشمول زبان پھیلا کر چلے گئے ہوں، جیسا کہ بعض ناواقف لوگ مفروضہ بیان کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں اردو اور دیگر مقامی زبانوں اور بولیوں (پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، سرائیکی، پشتو، بلوچی، سندھی، میمنی وگجراتی) نے دوسری زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ سے استفاد ہ کیا تو جواب میں اُن زبانوں نے بھی کثیر تعداد میں ہمارے الفاظ اپنائے۔

آج بھی آذربائیجان کے دارالحکومت باکُو میں موجود ''سرائے ملتانیاں '' نامی سرائے [Inn] ان تاریخی رشتوں کا قدیم اور بَیّن ثبوت ہے۔ الفاظ کے اشتراک کی بات کریں تو کسی تحقیقی مواد سے بھی پہلے، آپ کی معلومات کے لیے، ذاتی تجربہ پیش کرتا ہوں۔ پاکستان میں آذربائیجان کے سابق سفیر عزت مآب علی زادہ صاحب، اردو اچھی طرح بولتے تھے اور مجھ سے ٹوئیٹر پر رابطہ تھا (موجودہ سفیر بھی شاید کچھ کچھ اردو جانتے ہیں)، اُن کے پیغامات میں، اُن کے وطن میں مروج، اردو الفاظ تندور اور کباب دیکھ کر حیرت آمیز مسرت ہوئی تھی۔ (ویسے قدیم لفظ تنور تھا جسے عوام نے بگاڑ کر تندور کردیا، جیسے گاہک کو بگاڑ کر 'گراہک' کہتے ہیں)۔

فارسی الفاظ سیر، تنور، وقت، مرہم، باغبان اور قہر، پنجابی میں سیل، تندور، وخت ، مَلّھم، باغوان اور قار ہوگئے تو وسط ِ ایشیا کی زبانوں میں بھی انھیں اسی تلفظ کے ساتھ اپنالیا گیا۔ (میرے داداجان مرحوم بھی مَلَّم کہا کرتے تھے، شاید پنجاب میں عارضی قیام کا اثر ہو، ویسے یہ بگڑا ہوا تلفظ ہماری معیاری لغات میں بطور عوامی یاSlang تلفظ بھی مل جاتا ہے)، باغوان پر یاد آیا کہ ماضی میں روزنامہ ایکسپریس، پشاور سے منسلک صحافی جناب جمشید باغوان سے بھی چند ایک بار (ٹیلی فونک) گفتگو کا موقع ملا، نہایت بااخلاق آدمی ہیں۔

جس طرح بصرہ (عراق) کی کھجوریں ہمارے یہاں مشہور ہیں، اسی طرح ہمارے باورچی خانے اور دسترخوان سے متعلق بے شمار اسمائے معرفہ ونکرہ بھی اُنھی مقامات، خصوصاً وسطِ ایشیا سے یہاں آئے ہیں جن کا ماقبل ذکر ہوا۔ اس طویل فہرست میں آفتابہ، کاسہ، پیالہ، کف گیِر، دیگ، پلائو ، تہ دیگ جیسے الفاظ شامل ہیں۔ پھولوں میںگل دائودی اور پھلوں میں خربوزہ (خرپُزہ: فارسی) اور تربوز سمیت بے شمار تحائف ہیں اسی تبادلہ معاشرت کے۔ پلائو سے لکھنؤ والوں نے بریانی بنائی جس کا نام ہی فارسی الاصل ہے (بِریاں یعنی بھُنا ہوا سے مشتق) جو اہلِ پنجاب نے بھی اپنائی اور آج یہ بات دُہرانی پڑتی ہے کہ کراچی والے نوجوان یا دیگر لوگ، بریانی کو لاہوری پکوان سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں۔


جب ہم بات کرتے ہیں ایران اور ہمسایہ نیز فارسی گو ریاستوں کی تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان اور تاجکستان میں قدیم فارسی، دَری (نیز دَرّی) اور تاجک (نیز تاجیک، تاژیک) کی شکل میں زندہ اور مروج ہے، جبکہ دیگر زبانوں یا بولیوں میں ایسا ذخیرہ الفاظ موجود ہے جس کا کوئی ایک جامع لغات ابھی تک مرتب نہیں ہوسکا۔ اس خطے کی دوسری بڑی زبان ترکی اور اس کی ہم رشتہ زبانیں بشمول اُزبک ہیں۔

فارسی کی باقیات قازق (نیز قزاق، قزاخ، قازخ) اور قرغیز اور آذری میں موجود ہیں، جبکہ آذری اب ترکی سے زیادہ متأثر ہے اور اس کے اردو سے مشترکات میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جو فارسی وترکی میں پہلے سے مشترک تھے۔ ازبک، تاجک اور آذری میں بعض تغیرات مشترک ہیں جیسے حرف 'ب' کا 'و' سے بدل جانا۔ کالم زیرِتحریر تھا کہ ایک لفظ 'آسمان ' کی تحقیق کے لیے ترکی میں مقیم اپنے مہربان، مشفق بزرگ معاصر پروفیسرڈاکٹر اے بی (احمدبختیار) اشرف صاحب سے رابطہ کرنا پڑا۔ اُن کے تحسین آمیز پیغامات میں یہ بات مزید واضح ہوئی کہ مصطفی کمال پاشا کی جدت طرازی کے سبب، جدید ترکی زبان میں عربی کا دیس نکالا ہوا تو کثیر تعداد میں انگریزی، فرینچ، یورپی وبعض خالص ترکی الفاظ شعوری طور پر اس میں شامل کیے گئے، مگر آفرین ہے کہ اس اقدام کے باوجود، آج بھی اردو اور ترکی کے مشترک الفاظ کی تعداد، آٹھ ہزار سے زائد ہے۔

یہ ہے زبان کا ارتباط واشتراک اور فروغ جو کسی فرد ِ واحد یا ادارے یا تنظیم کے روکے سے نہیں رکتا۔ قدیم ترکی میں لفظ آسمان بھی تھا، جیسا کہ '' قاموس عثمانی'' از سیف علی سیدی سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح آگے دیے گئے الفاظ کی فہرست میں اکثر قدیم ترکی میں تھے، اب اس طرز کی ترکی کا احیاء بھی ہورہا ہے۔ جب ہم عثمانی/عثمانلی ترکی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کا ایک حصہ آج بھی چین کے ویغور مسلمانوں کی زبان میں محفوظ اور اَسّی فیصد الفاظ کا اشتراک ترکی سے واضح ہے۔

اب دیکھیے اردو کے یہ الفاظ اُزبک، آذری، تاجک، فارسی، دری، قازق، قرغیز، ترکی (اکثرعثمانی ترکی) اور ترکمن (اُن کے اپنے تلفظ کے مطابق، تورکمن) زبانوں میں مشترک ہیں، جبکہ اکثریت عربی یا فارسی سے ترکی میں شامل ہوئی اورپھر ترکی کی ہم رشتہ زبانوں اور بولیوں میں، یوں بہ یک وقت، عالم اسلام کی اپنے وقت کی تین بڑی زبانوں کا اثرونفوذ نمایاں ہوجاتا ہے: آباد، آبادی (ماسوائے قازق وقرغیز) (جدید ترکی میں نُفُوس)، (براہوئی میں آبادی، بلوچی میں آبادی و آباتی، پشتو میں اَبادی، سندھی میں وَستی وآبادی)، آب پاشی (ماسِوائے ترکمن، قازق وقرغیز) (بلوچی میں آپ کاری)، آب ِ حیات (ماسوائے قازق وقرغیز)، آبرو (براہوئی وبلوچی میں آبرو، سرائیکی میں اَبرو، سندھی میں آبرو اور عزیت) (جدیدترکی میں اونر;انگریزی لفظ، نیز، ناموس)، آبشار (ماسوائے قازق وقرغیز)، (سندھی میں آبشار)، آبلہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آبنوس (لکڑی کی ایک قسم) ]ماسِوائے ترکمن، قازق وقرغیز[، آب ودانہ، آب وہوا (ماسِوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، (براہوئی میں آب وہوا، پشتو میں اُبہ اَئو ہَوا، پنجابی میں رُت اور آب وہوا)،آپا، آتش، آتش پرست (ماسوائے قازق وقرغیز)، آثار (ماسوائے قازق وقرغیز)، آخر (ماسوائے قازق وقرغیز)، آخرت، آخرکار (ماسِوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، آداب (قازق وقرغیز میں آدپ)، آدم (ماسوائے قازق وقرغیز) (نیزجدید ترکی میں اِنسان)، آدم زاد (قرغیزمیں آدم ذات)، آدمی (قازق وقرغیز میں آدمک)، (نیزجدیدترکی میں اِنسان)، آدمیت (ماسوائے قازق وقرغیز)، آرا (ماسوائے قازق وقرغیز)، آراستہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آرام، آرزو، آرزومند (ماسوائے قازق وقرغیز)، آزاد، آزادی (ماسوائے قازق وقرغیز)، آزار، آزمائش (ماسوائے قازق وقرغیز)، آسان، آسرا، آسمان، (جدید ترکی میں آسمان کو gök،gökyüzü اور hava کہتے ہیں)، آشنا، آغاز (ماسوائے قازق وقرغیز)، آغوش (ماسوائے قازق وقرغیز)، آفت، آفتاب، آفتابہ، آقا (ایرانی فارسی میں قاف، غین سے بدل جاتا ہے اور اس قدر گول آواز ہے کہ آقا کی بجائے اَوغا اور آقائی کی بجائے اَوغائی سنائی دیتا ہے)۔

آگاہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آل واولاد (آل اولاد درست ہے) (ماسوائے قازق وقرغیز)، آل ِ رسول (ماسوائے قازق وقرغیز)، آلودگی (ماسوائے قازق وقرغیز)، آلودہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آمادہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آمین (ماسوائے قازق وقرغیز)، آوارہ (ماسوائے قازق)، آوارہ گرد (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، آواز (آباز: قازق وقرغیز)، آوازہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آہستہ (آستہ: قازق وقرغیز)، آئندہ /آیندہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آئین (ماسوائے قازق وقرغیز)، آئینہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، آئینہ ساز (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابابیل (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابتداء (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابتدائی (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، ابجد (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابر (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابرک (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، اَبرُو (ماسوائے قازق وقرغیز)، اَبریشم (ریشم: عربی میں اَلاَبرِیسِم و اِلابریسَم) (ماسوائے قازق وقرغیز)، ابلیس، اتالیق، اتحاد (ماسوائے قازق وقرغیز)، اتفاق، اجازت، اجتماع (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، اجتماعی (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، اجر(ماسوائے قازق وقرغیز)، اجل، اجنبی، احباب (ماسوائے ترکمن)،احترام، احتیاط، احسان (ماسوائے قازق وقرغیز)، اخبار (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، اختلاف (ماسوائے قازق وقرغیز)، اختیار، ادا، ادارہ، ادب، ادبی، ادراک، ادیب (ماسوائے قازق وقرغیز)، اذان، اذیت (ماسوائے قازق وقرغیز)، ارادہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، ارباب، اردو، ارزاں، ارمان، ازل، ازلی، اژدہا (ماسوائے قازق وقرغیز)، اساس (ماسوائے قازق وقرغیز)، اساسی، اسباب، استاد، استحکام (ماسوائے قازق وقرغیز)، استراحت (ماسوائے قازق وقرغیز)، استعارہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، استعداد (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، استعفیٰ/استعفا (ماسوائے قازق وقرغیز)،

استعمال (ماسوائے قازق وقرغیز)، استقلال (ماسوائے قازق وقرغیز)، اسراف (ماسوائے قازق وقرغیز)، اسلام، اسلحہ، اسلوب، اسیر، اشارہ، اشتراک (ماسوائے ترکمن)، اشتیاق، اشک، اشیاء، اصرار، اصل، اصطلاح (ماسوائے ترکمن)، اصلاح، اصلی، اصول، اضافت (ماسوائے قازق وقرغیز)، اطاعت (اطات: قازق وقرغیز)، اظہار (ماسوائے قازق وقرغیز)، اعتبار، اعتراض (ماسوائے قازق وقرغیز)، اعتراف (ماسوائے قازق وقرغیز)، اعتقاد، اعتماد (ماسوائے ترکمن)، اعزاز، اعظم، اعلان، اغوا (ماسوائے ترکمن)، افتخار، افسانہ، افسر، افسوس، افسوں، افضل، افطار، افق، اقبال(ماسوائے قازق وقرغیز)، اقتصاد (ماسوائے قازق وقرغیز)، اکبر، اگر، الائو، الحمد، الزام، الفت، امانت، امت، املاء (ماسوائے ترکمن)، امید، الماس، امن، انار، انبار، انتظار، انصاف، ان شاء اللہ، انعام، انجام، انجمن (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، انجیر، انداز، اندازہ، انگور (ماسوائے قازق وقرغیز)، انواع (ماسوائے قازق وقرغیز)، انیس (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، اوباش (ماسوائے قازق وقرغیز)، اوج، اوزار (ماسوائے قازق وقرغیز)، اوسط (ماسوائے قازق وقرغیز)، اوصاف (ماسوائے قازق وقرغیز)، اوقات، اوقیانوس (ماسوائے قازق وقرغیز)، اول، اولاد، اولیٰ (ماسوائے قازق وقرغیز)، اولیاء، اولیت (ماسوائے قازق وقرغیز)، الہام (ماسوائے قازق وقرغیز)، اہانت (ماسوائے قازق وقرغیز)،

اہرمن (ماسوائے قازق وقرغیز)، اہل، اہل اللہ (یعنی اللہ والے لوگ)، اہل کار (ماسوائے قازق وقرغیز)، اہلیت(ماسوائے قازق وقرغیز) ،اہمیت،اَئمہ ، ایام ، ایثار، ایجاب، ایجاد، ایذاء، ایران، ایرانی، ایزد، ایشیا (آسیا: ازبک، آذری، تاجک، ترکی، ترکمن، دری، فارسی، قازق وقرغیز;نیز عربی)، ایشیائی (آسیائی: ازبک، آذری، تاجک، ترکی، ترکمن، دری، فارسی، قازق وقرغیز)، ایلچی، ایمان، باب، بابا، بابت (ماسوائے قازق وقرغیز))، بابو (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، باج (یعنی ٹیکس)، باج گزار (ماسوائے قازق وقرغیز)، باج گیر (ماسوائے قازق وقرغیز)، باجی (ماسوائے ترکمن)، باخبر (ماسوائے قازق وقرغیز)، باخدا (یعنی خداکے ساتھ) (ماسوائے قازق وقرغیز)، باد (یعنی ہَوا) (ماسوائے قازق وقرغیز)، بادام، بادبان (ماسوائے قازق وقرغیز)، بادشاہ، بادِصبا (ماسوائے قازق وقرغیز)، بادِمخالف (ماسوائے قازق وقرغیز)، بادہ (یعنی شراب)، بادہ کَش (یعنی شرابی) (ماسوائے قازق وقرغیز)، باران (ماسوائے قازق وقرغیز)، بارانِ رحمت (ماسوائے قازق وقرغیز)، باربار (ماسوائے قازق وقرغیز)، بارش (ماسوائے قازق وقرغیز)، بارگاہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، باری (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، باریاب (ماسوائے قازق وقرغیز)، باریک (ماسوائے قازق وقرغیز)، باز، بازار، بازاری، بازی گر (ماسوائے قازق وقرغیز)، باصفا (ماسوائے قازق وقرغیز)، باطل (ماسوائے قازق وقرغیز)، باطن (ماسوائے قازق وقرغیز)، باعث (ماسوائے قازق وقرغیز)، باغ، باغبان، باغ وبہار (ماسوائے قازق وقرغیز)، باغیچہ،باقلہ، باقی، باکرہ (عربی سے ماخوذ) (ماسوائے ترکمن)،

بالا، بالاخانہ، بالادستی، بالش، بالشت (ماسوائے ترکمن)، بالعکس (ماسوائے ترکمن)، بالغ، بالفرض، بالمشافہ (اصل بالمشافہہ: عربی)، بالواسطہ، بامداد (تڑکے، صبح سویرے، منھ اندھیرے، فجرکا وقت)، بامعنی، باوجود، باور، باوصف، باہم (ماسوائے ترکمن)، ببر (ماسوائے ترکمن)، بُت، بت پرست، بت تراش، بت خانہ، بتر، بجا، بجز، بجنسہ (ماسوائے ترکمن)، بچگانہ (ماسوائے ترکمن)، بچگی، بچہ، بحال، بحث، بحر، بحران، بحری، بُحَیرہ (ماسوائے ترکمن)، بخت، بختیار، بخرہ (جیسے حصہ بخرہ)، بخشش، بخشی، بخشیش، بُخل، بخیل، بخیہ (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، بداَخلاق (ماسوائے قازق وقرغیز)، بداَندیش (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدباطن (ماسوائے ترکمن، قازق وقرغیز)، بدبخت، بدبو (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدتر، بدترین (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدخشاں (ایک شہر) (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدخط (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدخطی (ماسوائے قازق وقرغیز)، بدخُو، بدخواہ، بدر، بدرَو (یعنی گندہ نالہ /نالی;نیز پنجابی)، بدرقہ، بدستور، بدسَرِشت (ماسوائے ترکمن)، بدسلوکی (ماسوائے ترکمن)، بدشکل، بدصورت، بدطینت، بدظن، بدعت، بدعہد، بدفعل، بدکار، بدکردار، بدگمان، بدل، بدلا، بدمست، بدمعاش، بدمعاملگی، بدمعاملہ، بدن، بدنام، بدنصیب، بدنُما، بدنیت، بدی، برابر، برابری (ماسوائے قازق وقرغیز)، برادر، برادرانہ، برادری، براعظم (ماسوائے قازق وقرغیز)، براق، برباد، بربریت، بربط، برپا، برتر، برج، برجستہ، برحق، برخاست، برداشت، بُردبار، برطرف، برقرار، برکت، بروَقت، برہ، برہم، برہمن، بزاز، بُزدل، بزرگ، بزرگوار، بزم، بساط، بَست وکُشاد، بستر، بسیط، بِشارت، بشاش، بشر، بصارت، بصیر، بعد، بعدازاں/بعداَزآں، بعض، بعید، بعینہ، بغیچہ (باغیچہ)، بغل گیر، بغیر (ماسوائے ترکمن)، بقاء، بقّال، بقایا (ماسوائے قازق وقرغیز)، بقچہ /بغچہ، بقیہ (ماسوائے قازق وقرغیز)،

بلا، بلاغت، بلبل، بلدیہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، بلغم (ماسوائے قازق وقرغیز)، بلکہ،بلند، بلندی، بلور (ماسوائے ترکمن)، بلوری (نیز بلورِیں) (ماسوائے ترکمن)، بلوغت، بلیغ، بم، بمباری، بَنات (یعنی بیٹیاں) (بَنَت: قازق وقرغیز)، بند(یعنی تسمہ ) (بَنت: قازق وقرغیز)، بندگی، بندہ، بندہ پرور، بندہ پروَری، بنفشہ، بھنگ (دیگر زبانوں میں بنگ، قازق وقرغیز میں مَنگ)، بنیاد، بُو، بواسیر، بوالعجب، بوالہوس، بُوٹا (یعنی ننھا پودہ یا اُس جیسا چھوٹا: ازبک، آذری، تاجک اور ترکمن میںبُوتا، ترکی میںبُو، دری، فارسی، قازق وقرغیز میں بُوتا۔ ہمارے یہاں اردو اور مقامی زبانوں میں کسی کے چھوٹے قد کو بُوٹے سے تشبیہ دینا عام ہے)، بُودوباش، بوسہ، بوسیدہ، بُوم (یعنی اُلّو)، بہا (یعنی قیمت) (با: قازق وقرغیز)، بہادر (باتر:قازق وقرغیز)، بہادرانہ (باترانہ:قازق وقرغیز)، بہار (بار: قازق وقرغیز)، بہانہ (ماسوائے قازق وقرغیز)، بہبود (ماسوائے قازق وقرغیز)، بہتان (ماسوائے قازق وقرغیز)، بہتر (ماسوائے قازق وقرغیز)، بہترین (ماسوائے قازق وقرغیز)، بہرحال (ماسوائے قازق وقرغیز)۔ اس طویل فہرست سے صرفِ نظر کرکے اگر ہم محض ترکی (جدید)، اردولغت پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ہمیں ایسے انکشافات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک ہی قسم کے لباس کے لیے مروج نام عَبا، قَبا اور چُغہ ، بدستور ، ترکی زبان میں موجود ہیں۔ آبنوس، اب اَبانوز ہوچکا ہے۔

ابدال بعینہ موجود ہے، وضو کرنے کے عمل کو آب دست المک کہتے ہیں، گویا آب دست+وضو کو ایک ترکیب میں سمودیا گیا، بڑے بھائی کو قدیم عہد میں آکا کہتے تھے جو ہمارے یہاں بھی رائج ہے، اب جدید ترکی میں اسے اَبی کہتے ہیں (جو عربی میں باپ کے لیے ہے)، ویسے آکا کا فارسی ماخذ، آغا اَب وہاںجاگیردار یا زمیں دار ہے، جبکہ آغابے بمعنی بڑا بھائی ہے۔ آپا یعنی بڑی بہن کو اَب وہاں اَبلا کہتے ہیں، اَبلَق یعنی چتکبرا، ابھی بھی 'اَبلک' ہے، عجیب کو 'عجائپ' ، عاجز کو عاجز ہی کہتے ہیں، عدالت وہی عدالت، عادِل بھی وہی، افیون عرف افیم، افیون ہی ہے، قدیم فارسی لفظ اَہالی بمعنی عوام ، رعایا ابھی تک برقرار ہے۔

احباب کو احباپ، آہنگ کو آہنک کہتے ہیں، اخلاق کو احلاق، آہو بمعنی ہرن موجود ہے، ایقان یا عقیدہ، اَکیدے، اقرباء کو اَکربا، مخالف یا برعکس کو اَکسی (عکسی)، شام کے وقت کو اَک شام،مغربی /فرنگی طرز کو اَلاَفرنگا اور علاقہ بمعنی تعلق کو اَلا کا کہتے ہیں۔ نشان کو جدید ترکی میں اَلامت (علامت)، البم یعنی مرقع کو البم، عالم یا دانش مند کو آلِم، ایلومینئیم کو اَلیمینئیم، آمادہ کو اَمادے، شوقیہ کو انگریزی کی تقلید میں اَماتور، مزدور کو آملے (عامل سے)، آمر بمعنی حاکم کو اَمیر، امیرالبحر کو اَمیرَل ، آن یعنی لمحہ کو اَن، تجزیہ کو انگریزی کی تقلید میں اَنالِز، انارکی یعنی بداَمنی یا لاقانونیت کو اَنارشی ، خلافِ معمول کو انگریزی کی تقلید میں اَنورمَل، اراضی بمعنی زمین جائیداد، وہی ہے ، اشرافیہ /اُمرائیت یعنی Aristocracy کو ترکی میں بھی اَرِستوکریسی اور اُمراء کو اَرِستوکریت کہتے ہیں۔
Load Next Story