یکساں نظام انصاف کی نفی نہیں ہونی چاہیے
ایک قانون ہی نظام انصاف کو یکساں انصاف پر قائم رکھ سکتا ہے
نظام انصاف کی بنیادی شرط ہی یکساں نظام انصاف ہے۔ نظام انصاف کتنا ہی اچھا اور فعال کیوں نہ ہو اگر یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم نہیں تو پھر وہ نظام انصاف نہیں۔
نظام انصاف کو یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم کرنے کے لیے ملک میں قانون اور آئین بنایا جاتا ہے تا کہ نظام انصاف، ججز اور عدالتوں کو اسی آئین وقانون کا پابند بنایا جائے۔ ایک قانون ہی نظام انصاف کو یکساں انصاف پر قائم رکھ سکتا ہے۔ ججز کی جانب سے قانون اور آئین کی پاسداری ہی یکساں نظام انصاف کی ضامن ہے۔
میں ذاتی طور پر ججز کے ریمارکس میڈیا میں شایع کرنے کے خلاف ہوں۔ لیکن ریمارکس شوق سے شایع کرائے جا رہے ہیں۔ ریمارکس کی ہیڈ لائنز بن جاتی ہیں۔ بریکنگ بن جاتی ہیں۔ اس لیے اب ججز کے فیصلے کم میڈیا میں نظر آتے ہیں ریمارکس کا ایک شور ہے۔
حال ہی میں تاحیات نا اہلی کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس نے بھی پاکستان میں ایک سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے فیصل واڈا کا مقدمہ سنتے ہوئے کہا ہے کہ 62 (1 F) ایک ڈریکونین قانون ہے۔ اور وہ تاحیات نا اہلی کے حق میں نہیں ہیں۔ آج مجھ جیسا طفل مکتب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کل جب نواز شریف کا کیس تھا تو 62 (1 F) ایک بہترین آئینی شق تھی۔ ہم اس کے حق میں لیکچر سن سن کر تھک گئے تھے۔
کیوں ایک رکن اسمبلی کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ کیوں اس کو فراڈیا ہونا چاہیے۔ عمران خان صاحب بھی ٹی وی پر آکر 62 (1F)کے حق میں گھنٹوں دلائل دیتے تھے۔ عدلیہ کے فیصلے بھی اس کے حق میں تھے۔ لیکن آج وہی عدلیہ اس کو ایک ڈریکونین قانون کہہ رہی ہے۔ کیا عام آدمی کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں کہ جب کیس کسی ایک جماعت کا ہو تو قانون اچھا ہو جاتا ہے اور جب وہی کیس کسی اور جماعت کا آجائے تو وہی قانون ڈریکونین ہ وجاتا ہے۔ ایک ہی قانون کی دو تشریح کیا یکساں نظام انصاف کی نفی نہیں ہے۔
کل تک اسی 62 (1F) کی تشریح کے لیے نظر ثانی کی درخواست سنی نہیں جا رہی تھی۔ وہ آج بھی موجود ہے کیونکہ اس سے نواز شریف کے لیے راستہ بن سکتا تھا۔ لیکن آج معاملہ مختلف ہو گیا۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات بھی موجود ہے کہ آج توشہ خانہ اور دیگر کیسز میں جب عمران خان کے62 (1F) میں پھنسنے کی بازگشت ہے تو پھر تاحیات نا اہلی ڈریکونین قانون ہو گیا۔ کل جب نواز شریف کی باری تھی تو بہترین قانون تھا۔
قانون تو قانون ہے ملزم جہاں بھی اس قانون کی زد میں آئے گا تو اسے وہی سزا ہوگی۔ نواز شریف کا کیس تھا اس لیے تاحیات نا اہلی ہو سکتی تھی اور چونکہ فیصل واڈا کا کیس الیکشن کمیشن نے سنا ہے اس لیے وہاں تاحیات نا اہلی نہیں ہو سکتی۔ چاہے جرم کی نوعیت ایک جیسی ہی کیوں نہ ہو۔
ویسے تو چیف جسٹس پاکستان نے ایک فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگر کسی جج نے قانون اور آئین کی غلط تشریح ایک مقدمہ میں کر دی ہو تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اگلے کسی مقدمہ میں صحیح تشریح کر دے۔میری رائے میں اگر کسی محترم جج صاحب کو اپنی غلط تشریح کا احساس ہو جائے تو انھیں کھلے دل کے ساتھ ملزم سے معافی مانگنی چاہیے۔
جج صاحبان اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلے نہیں کر سکتے۔ انھوں نے آئین وقانون کے تحت فیصلے کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اگر ان کے ضمیر اور قانون میں اختلاف ہے تو پھر انھیں قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔ نظام انصاف میں جج کے ضمیر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ججز کی ذاتی رائے اور ان کی ذاتی سوچ ان کے فیصلوں میں نظر نہیں آنی چاہیے۔ ان کے فیصلوں میں آئین وقانون ہی نظر آنا چاہیے۔
اسی طرح عمران خان کی توہین عدالت کے لیے معافی نے بھی یکساں نظام انصاف پر کافی سوال اٹھائے ہیں۔ اگر کوئی جج صاحب ذاتی طور پر توہین عدالت کے قانون کو اچھا قانون نہیں سمجھتے اور ان کی ذاتی رائے میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوجانا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں اب یہ قانون ختم کر دیا گیا ہے تب بھی ذاتی سوچ کو اس قانون پر ترجیح نہیںدی جا سکتی۔ ذاتی سوچ سے قطع نظر قانون کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔
یہ سوال عام آدمی کے ذہن میں موجود ہے کہ جب توہین عدالت میںایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو سزاؤں پر سزائیں دی گئیں تو آج نرمی کیوں۔ جب یہ طے ہوگیا کہ اگر پہلے موقع پر معافی نہیں مانگی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے کھلے دل سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی تو پھر عمران خان کو بار بار مواقع کیوں دیے گئے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ معافی نامہ میں غیر مشروط معافی کے الفاظ ہونے چاہیے تو عمران خان کے لیے خصوصی رعائت کیوں۔ کیا جج کے ریڈر سے معافی مانگ لینے سے توہین عدالت ختم ہو سکتی ہے۔
یہ سوالات یکساں نظام انصاف کی پاسداری کے لیے اہم ہیں کہ کل جب ایک جماعت کے لوگ توہین عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے تو نظام انصاف کا کیا رویہ تھا اور آج جب دوسری جماعت کے لیڈر آئے ہیں تو کیا رویہ ہے۔ نرمی اچھی ہے لیکن یکساں نظام انصاف کی نفی ہے ۔ یہ سوال نظر انداز نہیں کیے جا سکتے کہ ایک ہی جرم میں بار بار معافی مل سکتی ہے۔ آپ بار بار جرم کریں اور بار بار معافی مل جائے باقیوں کو پہلی دفعہ ہی سخت سزا مل جائے۔
ان کی ایک معافی بھی قبول نہ کی جائے اور کسی کی دو دو غیر مشروط معافیاں بھی قبول ہو جائیں۔ ہمارے نظام انصاف کا سنہری اصول ہے کہ امیر و غریب پر کوئی ترجیح نہیں۔ اہم کو غیر اہم پر کوئی ترجیح نہیں۔ رنگ و نسل ذات برادری اور عہدہ کی بنیاد پر کوئی ترجیح نہیں۔ مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح نہیں۔قانو ن اور نظام انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں۔
قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اس لیے قانون کی عملداری بھی ایک ہی ہونی چاہیے۔ اسی میں نظام انصاف کی بہتری ہے۔ ورنہ عام آدمی کے ذہنوں میں سوال اٹھیں گے۔ وہ سوال عدالت سے تو نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال موجود تو ہیں۔ ان سے منہ بھی نہیں موڑا جا سکتا۔
نظام انصاف کو یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم کرنے کے لیے ملک میں قانون اور آئین بنایا جاتا ہے تا کہ نظام انصاف، ججز اور عدالتوں کو اسی آئین وقانون کا پابند بنایا جائے۔ ایک قانون ہی نظام انصاف کو یکساں انصاف پر قائم رکھ سکتا ہے۔ ججز کی جانب سے قانون اور آئین کی پاسداری ہی یکساں نظام انصاف کی ضامن ہے۔
میں ذاتی طور پر ججز کے ریمارکس میڈیا میں شایع کرنے کے خلاف ہوں۔ لیکن ریمارکس شوق سے شایع کرائے جا رہے ہیں۔ ریمارکس کی ہیڈ لائنز بن جاتی ہیں۔ بریکنگ بن جاتی ہیں۔ اس لیے اب ججز کے فیصلے کم میڈیا میں نظر آتے ہیں ریمارکس کا ایک شور ہے۔
حال ہی میں تاحیات نا اہلی کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس نے بھی پاکستان میں ایک سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے فیصل واڈا کا مقدمہ سنتے ہوئے کہا ہے کہ 62 (1 F) ایک ڈریکونین قانون ہے۔ اور وہ تاحیات نا اہلی کے حق میں نہیں ہیں۔ آج مجھ جیسا طفل مکتب بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کل جب نواز شریف کا کیس تھا تو 62 (1 F) ایک بہترین آئینی شق تھی۔ ہم اس کے حق میں لیکچر سن سن کر تھک گئے تھے۔
کیوں ایک رکن اسمبلی کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ کیوں اس کو فراڈیا ہونا چاہیے۔ عمران خان صاحب بھی ٹی وی پر آکر 62 (1F)کے حق میں گھنٹوں دلائل دیتے تھے۔ عدلیہ کے فیصلے بھی اس کے حق میں تھے۔ لیکن آج وہی عدلیہ اس کو ایک ڈریکونین قانون کہہ رہی ہے۔ کیا عام آدمی کو یہ سوال کرنے کا حق نہیں کہ جب کیس کسی ایک جماعت کا ہو تو قانون اچھا ہو جاتا ہے اور جب وہی کیس کسی اور جماعت کا آجائے تو وہی قانون ڈریکونین ہ وجاتا ہے۔ ایک ہی قانون کی دو تشریح کیا یکساں نظام انصاف کی نفی نہیں ہے۔
کل تک اسی 62 (1F) کی تشریح کے لیے نظر ثانی کی درخواست سنی نہیں جا رہی تھی۔ وہ آج بھی موجود ہے کیونکہ اس سے نواز شریف کے لیے راستہ بن سکتا تھا۔ لیکن آج معاملہ مختلف ہو گیا۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات بھی موجود ہے کہ آج توشہ خانہ اور دیگر کیسز میں جب عمران خان کے62 (1F) میں پھنسنے کی بازگشت ہے تو پھر تاحیات نا اہلی ڈریکونین قانون ہو گیا۔ کل جب نواز شریف کی باری تھی تو بہترین قانون تھا۔
قانون تو قانون ہے ملزم جہاں بھی اس قانون کی زد میں آئے گا تو اسے وہی سزا ہوگی۔ نواز شریف کا کیس تھا اس لیے تاحیات نا اہلی ہو سکتی تھی اور چونکہ فیصل واڈا کا کیس الیکشن کمیشن نے سنا ہے اس لیے وہاں تاحیات نا اہلی نہیں ہو سکتی۔ چاہے جرم کی نوعیت ایک جیسی ہی کیوں نہ ہو۔
ویسے تو چیف جسٹس پاکستان نے ایک فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگر کسی جج نے قانون اور آئین کی غلط تشریح ایک مقدمہ میں کر دی ہو تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اگلے کسی مقدمہ میں صحیح تشریح کر دے۔میری رائے میں اگر کسی محترم جج صاحب کو اپنی غلط تشریح کا احساس ہو جائے تو انھیں کھلے دل کے ساتھ ملزم سے معافی مانگنی چاہیے۔
جج صاحبان اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلے نہیں کر سکتے۔ انھوں نے آئین وقانون کے تحت فیصلے کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اگر ان کے ضمیر اور قانون میں اختلاف ہے تو پھر انھیں قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔ نظام انصاف میں جج کے ضمیر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ججز کی ذاتی رائے اور ان کی ذاتی سوچ ان کے فیصلوں میں نظر نہیں آنی چاہیے۔ ان کے فیصلوں میں آئین وقانون ہی نظر آنا چاہیے۔
اسی طرح عمران خان کی توہین عدالت کے لیے معافی نے بھی یکساں نظام انصاف پر کافی سوال اٹھائے ہیں۔ اگر کوئی جج صاحب ذاتی طور پر توہین عدالت کے قانون کو اچھا قانون نہیں سمجھتے اور ان کی ذاتی رائے میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوجانا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں اب یہ قانون ختم کر دیا گیا ہے تب بھی ذاتی سوچ کو اس قانون پر ترجیح نہیںدی جا سکتی۔ ذاتی سوچ سے قطع نظر قانون کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔
یہ سوال عام آدمی کے ذہن میں موجود ہے کہ جب توہین عدالت میںایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو سزاؤں پر سزائیں دی گئیں تو آج نرمی کیوں۔ جب یہ طے ہوگیا کہ اگر پہلے موقع پر معافی نہیں مانگی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے کھلے دل سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی تو پھر عمران خان کو بار بار مواقع کیوں دیے گئے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ معافی نامہ میں غیر مشروط معافی کے الفاظ ہونے چاہیے تو عمران خان کے لیے خصوصی رعائت کیوں۔ کیا جج کے ریڈر سے معافی مانگ لینے سے توہین عدالت ختم ہو سکتی ہے۔
یہ سوالات یکساں نظام انصاف کی پاسداری کے لیے اہم ہیں کہ کل جب ایک جماعت کے لوگ توہین عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے تو نظام انصاف کا کیا رویہ تھا اور آج جب دوسری جماعت کے لیڈر آئے ہیں تو کیا رویہ ہے۔ نرمی اچھی ہے لیکن یکساں نظام انصاف کی نفی ہے ۔ یہ سوال نظر انداز نہیں کیے جا سکتے کہ ایک ہی جرم میں بار بار معافی مل سکتی ہے۔ آپ بار بار جرم کریں اور بار بار معافی مل جائے باقیوں کو پہلی دفعہ ہی سخت سزا مل جائے۔
ان کی ایک معافی بھی قبول نہ کی جائے اور کسی کی دو دو غیر مشروط معافیاں بھی قبول ہو جائیں۔ ہمارے نظام انصاف کا سنہری اصول ہے کہ امیر و غریب پر کوئی ترجیح نہیں۔ اہم کو غیر اہم پر کوئی ترجیح نہیں۔ رنگ و نسل ذات برادری اور عہدہ کی بنیاد پر کوئی ترجیح نہیں۔ مقبول کو غیر مقبول پر کوئی ترجیح نہیں۔قانو ن اور نظام انصاف کی نظر میں سب برابر ہیں۔
قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اس لیے قانون کی عملداری بھی ایک ہی ہونی چاہیے۔ اسی میں نظام انصاف کی بہتری ہے۔ ورنہ عام آدمی کے ذہنوں میں سوال اٹھیں گے۔ وہ سوال عدالت سے تو نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال موجود تو ہیں۔ ان سے منہ بھی نہیں موڑا جا سکتا۔