تھر…کاش گلستاں ہوتا…
سندھ 5 جغرافیائی حصوں پر مشتمل ہے ، جسے مقامی زبان میں سِرو، وچولو، لاڑ، تھر اور کوہستان۔ سِرو کہتے ہیں
QUETTA:
تھر کے معنی ہیں ریگستان۔ ہمارے ملک کا مشرقی حصہ جنوبی پنجاب کے بہاولپور اور رحیم یار خان (جہاں چولستان کا ریگستان ہے) سے لے کر سندھ کے زیریں علاقہ جو سمندر سے جا کر ملتا ہے، گو کہ سندھ کے تھر کے ساتھ کارونجھر کا پہاڑ بھی ہے، جہاں سے ہمیں کالا سونا یعنی کوئلہ بھی ملا ہے۔ اس سے پہلے اسی پہاڑ کی کوکھ سے گرینائٹ کا پتھر بھی دریافت ہوا تھا، جس سے ہمارے گھر ، دفاتر اور عمارتیں مزین ہیں اور ہم اسے برآمد کر کے زر مبادلہ بھی کماتے ہیں۔
سندھ 5 جغرافیائی حصوں پر مشتمل ہے۔ سِرو، وچولو، لاڑ، تھر اور کوہستان۔ سِرو (سندھی زبان میں سِر اردو زبان والے سَر کو کہتے ہیں، جس سے مراد ہوتی ہے اوپر)۔ سِرو سے مراد ہے اوپر کا علاقہ جو جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے ملتا ہے اور اس میں جیکب آباد، کندھ کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ شہداد کوٹ اور خیرپور کے اضلاع آ جاتے ہیں، وچولو سے مراد ہے بیچ والا علاقہ، جس میں نوشہرو فیروز، نوابشاہ،سانگھڑ، مٹیاری، حیدرآباد، میرپور خاص اور ٹنڈو اللہ یار کے اضلاع آ جاتے ہیں، لاڑ سے مراد ہے، ٹنڈو محمد خان، بدین اور ٹھٹہ کے اضلاع آ جاتے ہیں، اور یہ علاقہ علی بندر کے ساتھ سمندر سے جا ملتا ہے، تھر میں میرپورخاص سے نیچے سے لے کر کچھ کے ریگستان (جس پر ہمارا بھارت سے تنازعہ تھا، جو الحمدللہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا تھا) تک عمرکوٹ اور مٹھی کے اضلاع آ جاتے ہیں اور کوہستان میں ضلع دادو اور کراچی آ جاتے ہیں، جو بلوچستان سے ملتے ہیں۔ تھر کسی زمانے میں بہت سرسبز علاقہ تھا، وہاں ہاکڑو دریا بہتا تھا ( شاید آج کل دریائے سندھ کا حصہ تھا)، جو بعد میں وہاں سے روٹھ گیا اور اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ ہمارے تھر اور ہندوستان کے راجھستان کے تھر کے درمیان صرف سرحد حائل ہے۔ ہندوستان نے کافی حد تک اپنے تھر کو آباد کر دیا ہے۔
وہاں 1965ء کی جنگ کے دوران اتنے ہوائی اڈے نہیں تھے، جتنے 1971ء کی جنگ میں بنے۔ مانا کہ ہمارے ملک کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، لیکن اگر پہلے دن سے ہی تھوڑا تھوڑا کر کے اس علاقے کو گلستان بنانے کو حکومتی ترجیحات میں شامل کیا جاتا تو اب تک وہ پورے کا پورا گلستان بن چکا ہوتا۔ اس طرح سندھ کے دادو ضلعے میں گورکھ پہاڑی اور رنی کوٹ کا قلعہ کو بھی ترجیحات میں شامل کیا جاتا تو آج وہ علاقے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی پر کشش ہوتے۔ گورکھ پہاڑی کی اونچائی اتنی ہے کہ وہاں گرمیوں میں بھی موسم ٹھنڈا ہو جا تا ہے۔ اس طرف صرف سڑک بننی ہے۔ کب بنے گی، اس کے لیے ریڈیو یا ٹی وی کے کسی استخارہ والے پروگرام میں پوچھنا پڑے گا۔ اس طرح اسی علاقے میں تھانو بولاخان نامی ایک پر فضا قصبہ ہے، جس کی آب و ہوا تپ دق اور دمے کے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے، جب کہ تپ دق کا سینیٹوریم کوٹری کے قریب ایک اونچائی والی جگہ پر بنایا گیا ہے، جس کی اونچائی اتنی بڑی نہیں ہے۔ مٹھی سے شوکت عزیز کو ضمنی انتخاب کے ذریعہ منتخب کروایا گیا تھا، جس کے بدلے میں انھوں نے وہاں ایک ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کروایا تھا، معلوم نہیں وہ ابھی تک وہاں قائم ہے کہ نہیں۔ چونکہ تھر میں کوئی نہری نظام نہیں ہے، وہاں آبپاشی کا دار و مدار صرف اور صرف بارش پر ہے۔
بارشیں ہوتی ہیں تو وہاں باجرے وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ بارشوں کے موسم میں ایک مخصوص تاریخ تک اگر بارش نا ہو تی تو اس علاقے کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کر لوگوں کے لیے اناج وغیرہ فراہم کرنا شروع کر دیا جاتا تھا۔ لیکن ہمارے حکام اب یہ رواج بھول چکے ہیں۔ انگریز کو ہم نے نکال دیا تو اس کی جائز ریتیں رسمیں بھی ہم قائم کیوں رکھیں؟ البتہ اس کی ایجادات سے ہم بڑے فائدے اٹھا رہے ہیں، حج اور عمرے کو بھی جاتے ہیں اور وہاں سے موبائل فون پر گھر اور دکان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ تھر کا علاقہ ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے وہاں آمد و رفت کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ کچھ سالوں تک تو وہاں کا ذریعہ آمد و رفت صرف اونٹ ہوتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد وہاں سے فارغ ہوئے تو کھلی بڑی جیپیں (جن کو فادر جیپ کہا جاتا تھا چلنے لگیں، تھر میں ان کو عرف عام میں کیکڑا کہا جانے لگا، جو ٹیلوں پر آسانی سے چڑھ سکتی ہیں)، تو لوگوں کے لیے کچھ آسانیاں ہوئیں۔ یہ کیکڑے لوگوں کو نوکوٹ ریلوے اسٹیشن تک لاتے تھے، جو تھر کے انتہائی نچلے قصبے ڈیپلو سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور لوگوں کا دنیا سے رابطہ وہاں سے شروع ہوتا تھا۔
یہ بات قابل بھی ذکر ہے کہ کارونجھر پہاڑ جس کے قریب کوئلے کے ذخائر تو اب دریافت ہوئے ہیں، لیکن اس کے قریب کافی سال پہلے گرینائیٹ پتھر کے ذخائر بھی ملے تھے، جس کے ٹھیکے لوگوں کو دیے گئے تھے اور وہ لوگ اب تک اربوں روپے کما چکے ہیں، لیکن ا ن کو ٹھیکے دیتے وقت اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ وہا ں کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالیں، بلکل اسی طرح جس طرح گنے کے کارخانوں کے پرمٹ دیتے وقت ان کے مالکان کو اس بات کا پابند تو بنایا گیا تھا کہ وہ اس علاقے کی سڑکیں بھی بنوائیں گے، لیکن انھوں نے نہیں بنوائیں تو ان سے کوئی باز پرس کرنے کی کسی کو جرأت بھی نہیں ہوئی اور نا ہو گی۔ سڑکوں کی وہی حالت زار ہے۔ تھر کا آخری قصبہ ڈیپلو ہے، جہاں کے لوگوں نے ان رکاوٹوں کو عبور کر نے کی ایک بہت بڑی مثال قائم کی۔ پہلے یہ پورا علاقہ تھرپارکر ضلع کہلواتا تھا۔ ڈیپلو میں تعلیم صرف پرائمری کی سطح تک تھی اور ہائی اسکول میرپور خاص (جو وہاں سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا)، کے علاوہ کہیں بھی نہیں تھا۔ یہ باہمت لوگ تعلیم کے حصول کے لیے اونٹوں پر اور بعد میں ان کیکڑوں پر سوار ہو کر جاتے تھے۔ کہا جاتاہے کہ کچھ سالوں میں وہاں سڑکیں بنی ہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے، تھر کی زندگی کا دارومدار بارشوں اور صرف بارشوں پر ہی ہے جہاں بارشیں نا ہونے کی وجہ سے کوئی زرعی آبادی نہیں ہوتی۔ اس لیے لوگ گندم کی کٹائی اور کپاس کی چنائی کے لیے والے زرعی علاقوں کی طرف ان موسموں میں نقل مکانی کرتے ہیں۔ البتہ جس سال کافی بارشیں ہوتی ہیں تو وہاں کے لوگوں میں بے انتہا خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، کہ وہاں زرعی اجناس خاص طور پر گندم، باجرہ، جوار وغیرہ کی فصلیں اگتی ہیں، جن سے ان کے لیے پورے سال کا غلہ فراہم ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے سرحدوں کے دونوں اطراف میں ریگستان ہے، اِدھر تھر ، اْدھر راجھستان۔1965ء کی جنگ میں راجھستان کے علاقے میں کوئی بھی ہوائی اڈہ نہیں تھا، کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کو کافی آباد بھی کیا گیا ہے، جب کہ ہماری طرف کوئی آبادی نہیں ہوئی، جس کا نتیجہ یہ قحط اور صحت کی سہولیات کے نہ ہونے کی صورت میں آیا ہے۔ تھر میں پکے تو کیا کچے مکان بھی نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں گول گول جھونپڑے ہوتے ہیں، جن کو چئونرو کہا جاتا ہے (ن غْنے کے ساتھ)۔ اسی میں وہ لوگ بارشوں ( جب ہوں) میں زندگی گذارتے ہیں۔ کچی دیواریں اور گھاس پھوس کی چھتیں ان کا مسکن ہوتا ہے۔ امریکا کی ریاست کیلیفورنیا کا بہت بڑا علاقہ ریگستان پر مشتمل تھا، لیکن اس کو انھوں نے بتدریج آباد کیا اور آج وہ گلستان ہے۔ کاش، ہمارے لوگوں نے بھی تھر، چولستان اور دیگر ریگستانی علاقوں کو بتدریج آباد کیا ہوتا۔ اللہ جانے ہمیں کب ہوش آئے گا۔