انداز حکمرانی بدلنے کی ضرورت…
بدقسمتی سے وطن عزیز بھی اس وقت اسی قسم کے حالات سے نبرد آزما ہے اور اپنی بقا اور سلامتی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔۔۔
کوئی بھی سماج، معاشرہ یا ریاست اپنے جغرافیے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کو مسلسل کئی عشروں تک جانی و مالی تحفظ، صحت عامہ، تعلیم و تربیت اور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے، اپنے شہریوں کی جائز آرزوئوں اور خواہشات کی تکمیل نہ کرسکے تو وہ معاشرہ افرا تفری، معاشی بدحالی اور انتشار کا شکار ہوکر تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ طویل غربت و افلاس اور بے روزگاری شہریوں کے دلوں میں معاشرے کے خلاف عدم اطمینانیت کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں، عدم اطمینانیت ریاست کے خلاف باغیانہ خیالات کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے اور پھر یہ خیالات متشدد ہوکر معاشرے کو خانہ جنگی اور خونیں انقلاب کے راستے پر دھکیل دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز بھی اس وقت اسی قسم کے حالات سے نبرد آزما ہے اور اپنی بقا اور سلامتی کی جدوجہد میں مصروف ہے، ملک کے انتظامی ڈھانچے کی کارکردگی پر غور کیا جائے تو وہ قریب قریب مفلوج ہوچکا ہے اور صرف لفاظی کارکردگی دکھانے میں مصروف ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے غربت و افلاس، پسماندگی، افراتفری، معاشی ناہمواری اور سماجی انتشار قوم کا مقدر بن چکی ہو، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کی غالب اکثریت صرف صدمات، تکالیف اور مصیبتیں سہنے کے لیے ہی اپنا وجود رکھتی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم کی خوشیوں اور مسرتوں کو ان سے چھین کر لوہے کے ایک مضبوط صندوق میں بند کردیا ہو۔
جمہوریت جیسے پرکشش اور پرفیض نظام حکومت کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو قوم کی زندگیوں میں پرآسائش تبدیلی لانے کے بڑے بڑے عہد و پیمان کیے جاتے ہیں۔ گزری ہوئی آمرانہ حکومتوں یا نظام کو عوام کو درپیش تمام سماجی اور معاشی مسائل کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے، اسے ایک استبدادی نظام قرار دیا جاتا ہے اور جمہوریت ہی کو بہترین نظام حکومت قرار دے کر ہر شہری کو بہترین تعلیم و تربیت، صحت عامہ، امن وامان، بدعنوانی کا خاتمہ، قابلیت کی بنیاد پر روزگار اور معاشی خوشحالی دینے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ ان کے مقدر سنوارنے کی مکمل یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں۔ مگر حق حکمرانی کی سند حاصل کرتے ہی یہ جمہوری رہنما وہ تمام دعوے اور وعدے جو ''اپنی'' مفلوک الحال عوام سے کرتے ہیں انھیں توڑ دیا جاتا ہے، ان کے وعدوں اور عہد و پیماں سے قوم کے وجود میں اٹھنے والی آرزوئوں، تمنائوں اور خواہشات کو بغیر کسی ندامت اور شرمندگی کے کچل دیتے ہیں اور اپنے اصل مقاصد کے حصول میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے لگتے ہیں۔
حکمرانی کے اختیارات کو اپنے ذاتی، خاندانی دوستوں و احباب اور رشتے داروں کو ناجائز اقتصادی اور معاشی فوائد پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جمہوری نظام کے معتبر نام پر ہی قوم کو اقتصادی طور پر دیوالیہ اور تعلیمی طور پر پسماندہ رکھنے کا عمل شروع کردیتے ہیں۔ قابلیت، محنت کے سنہری اصولوں کو اپنی پسند و ناپسند کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، خواہشات کو احکامات کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں دولت کی تقسیم کو بہتر کرنے کے بجائے اسی دولت سے اپنی تجوریاں بھرنے کا عمل شروع کردیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں قوم کی دولت اور وسائل پھر سے چند سو افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے، معاشرے کا معاشی توازن مزید بگڑ جاتا ہے اور اس طرح عوام کی مرضی اور منشا سے قائم ہونے والا یہ جمہوری نظام قوم کو غربت و افلاس، بے روزگاری، مہنگائی کے شدید عذاب میں مبتلا کردیتا ہے اور قوم کی فلاح و بہبود ترقی و خوشحالی کا خواب پھر سے چکناچور ہوجاتا ہے۔
پھر اچانک نظام کی خرابی، احتساب اور عوام کو درپیش دکھوں کے ازالے کے نام پر ایک آمرانہ نظام نافذ کردیا جاتا ہے، فوجی جرنیل اور بیوروکریٹ پاکستان کی سلامتی اور عوام الناس کی اجتماعی فلاح و بہبود کے پرفریب نعرے تلے تمام حکومتی اختیارات پر قابض ہوجاتے ہیں، عوام کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، سابقہ حکمرانوں کو ملک کو اقتصادی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کی یاداش میں انھیں ہر قیمت پر احتساب کے کٹہرے میں لانے کے وعدے کیے جاتے ہیں، ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل نکالنے کی حکمت عملی طے کرنے کا اظہار کیا جاتا ہے، عوام کو بہترین تعلیم و تربیت، صحت عامہ، قابلیت کی بنیاد پر روزگار، انصاف عوام کی دہلیز پر اور امن وامان دینے کے عہد و پیمان کیے جاتے ہیں۔
مگر کچھ عرصہ بعد ہی ان وعدوں اور دعوئوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ قوم کو گہری مایوسی میں دھکیل کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے، سابقہ بدعنوان سیاست دانوں کو جنھیں قوم کو درپیش تمام مشکلات کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا اور انھیں ہر قیمت پر احتساب کے کٹہرے میں لانے کی باتیں کی جاتی تھیں انھیں اپنی شرائط پر اقتدار میں شریک کرکے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں نظام پچھلے 66 سال سے اس معاشرے میں نافذ العمل رہے، مگر ان میں سے کوئی بھی نظام پاکستانی قوم کی اجتماعی خوشحالی کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکا۔
قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں کی ترقی و خوشحالی میں نظام کے بجائے اس نظام کے نافذ کرنے اور اسے چلانے والے عوامی رہنمائوں نے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے، جب بھی کسی معاشرے یا ریاست کی باگ ڈور، نظام حکمرانی، اقربا پرور، خویش پرور، دولت پرست اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا رہنمائوں کے ہاتھوں میں رہی وہ قوم مفلسی، بے چارگی، پسماندگی، جہالت، بیماری اور آفتوں کی دبیز چادر میں لپٹی رہی، کڑکتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں شب و روز محنت و مشقت کرنے کے باوجود اپنی فطری ضرورتوں اور جائز آرزوئوں کو حاصل کرنے میں ناکام رہی اور جن لوگوں کو معاملہ فہم، غریب پرور، قابلیت اور محنت پسند، سادگی، تقویٰ اور قناعت جیسی روحانی خوبیوں سے مالا مال سیاسی رہنما میسر آگئے انھوں نے چند سال میں ہی اپنی قوم کو آسودگی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کردیا۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی نظام کے چلانے والے درجہ اول اور درجہ دوئم کے حکمرانوں کے انداز حکمرانی اور پاکستانی قوم سے متعلق ان کے نقطۂ نظر اور انداز فکر کو بدلنے کی پرامن کوشش کی جائے، ان کے اندر صلہ رحمی، معاملہ فہمی، عفو ودرگزر، سخاوت، علم و عمل جیسی پاکیزہ خوبیوں اور جذبات کو پروان چڑھانے کی دانشمندانہ جدوجہد کی جائے اور یہ کام اب ملک میں موجود ''آزادی اظہار'' کی نعمت کی بدولت اتنا مشکل نہیں رہا جتنا ایک دو صدی پہلے تھا۔