اساتذہ پر تشدد

پشاور میں پرائمری اسکول ٹیچرز کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا


شہریار شوکت October 08, 2022
اساتذہ پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ (فوٹو: فائل)

دنیا بھر میں 5 اکتوبر یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس بار بھی منایا گیا۔ پاکستان میں اس بار طلبا میں یوم اساتذہ منانے کا رجحان کچھ زیادہ تھا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں استاد کی سزا کو تشدد کا نام دیا گیا ہے، وہیں ایک فائدہ یہ ہوا کہ دیگر عالمی دنوں کی طرح اس دن کو بھی اہمیت ملنا شروع ہوگئی۔ دنیا کے تمام مہذب معاشروں اور ترقیاتی ملکوں میں استاد کو جو مقام دیا جاتا ہے وہ کسی اور شعبے سے وابستہ افراد کو نہیں دیا جاتا۔ مملکت خداداد اسلام کے نام پر قائم ہے، یہاں اساتذہ کا احترام و اکرام دیگر ممالک سے زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ اللہ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیؐ کو معلم بنا کر بھیجا اور استاد کی اہمیت کو واضح کردیا۔

یوم اساتذہ کو ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اسلام اور تمام اقوام میں موجود اساتذہ کے مقام کو بھلا کر اپنے ہی انداز میں یوم اساتذہ منایا۔ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پرائمری اسکول ٹیچرز کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر پولیس کی جانب سے زدوکوب اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اساتذہ پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا ہر صوبے کے اساتذہ ماضی میں حکومتی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف مرد اساتذہ ہی نہیں بلکہ خواتین ٹیچرز پر بھی کئی بار تشدد کیا گیا، جو کسی بھی ریاست کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

اساتذہ کا مقام ہر لحاظ سے اہم ہے اور یہ ایک مقدس پیشہ ہے۔ اس پیشے سے وابستہ افراد کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیا حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا؟ یا پھر حکومت کا زور بس اساتذہ پر ہی چلتا ہے، ملک میں لانگ مارچ کرنے والے، سرعام ڈکیتیاں کرنے والے، قتل عام کرنے والے حکومت کے بس سے باہر ہیں۔

جہاں ایک جانب اس حکومتی اقدام کی مذمت لازم ہے، وہیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ملک بھر میں اساتذہ جب بھی احتجاج کرتے ہیں تو اس احتجاج کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ انتہائی معذرت کے ساتھ ان کا احتجاج بھی ان ہی مقاصد کےلیے ہوتا ہے جس کےلیے ملک کا ہر سرکاری افسر احتجاج کررہا ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ، من پسند ادارے میں پوسٹنگ، چھٹیاں ختم نہ کی جائیں، گریڈ بڑھایا جائے وغیرہ۔

ایک لمحے کو سوچیے، کیا اس ملک میں اساتذہ کو ان کے حقوق نہیں مل رہے؟ ملک کے اکثر اسکولوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے سرکاری اسکولوں کا حال دیکھ لیجئے، وہاں کا معیار تعلیم دیکھ لیجئے، آپ کو اساتذہ کی محنت اور فرض شناسی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ این ٹی ایس سے قبل ہونے والی بھرتیاں کس طرح کی گئیں۔ کیا یہ شعبہ سیاسی بھرتیوں سے پاک ہے؟ کیا اس شعبے میں گھوسٹ ملازمین نہیں ہیں؟ کیا سرکاری اسکولوں میں قائم امتحانی مراکز نقل کلچر سے پاک ہوتے ہیں؟ کیا ان اساتذہ نے کبھی معیار تعلیم بہتر بنانے کےلیے احتجاج کیا؟ اسکولوں، کالجوں میں سہولتوں کے فقدان کے خلاف احتجاج کیا؟ کیا انہوں نے معیار تعلیم کی بہتری پر حکومت سے اصلاحات کے نفاذ کےلیے احتجاج کیا؟ ان تمام ہی سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔

ان اساتذہ کو پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کے مقابل بہتر تنخواہ ملتی ہے اور بروقت ملتی ہے۔ ملکی صورتحال کچھ بھی ہو ان کی تنخواہ جاری رہتی ہے۔ انہیں پنشن ملتی ہے، میڈیکل کی سہولت ہے۔ سرکاری ملازمین کی طرح تنخواہوں میں سالانہ اضافہ ہے۔ چھٹیاں ہیں، پروموشن ہے۔ ان سہولتوں میں سے کچھ بھی پرائیوٹ اداروں کے اساتذہ کے پاس نہیں لیکن اُن کی قابلیت اور کارکردگی ان سرکاری اساتذہ سے بہت بہتر ہے بلکہ یہ کہہ لیجئے کہ پرائیوٹ اسکول چل ہی ان اساتذہ کی لگن سے رہے ہیں۔ اگر سرکاری اداروں کا حال بہتر ہوجائے تو کون مہنگائی کے اس دور میں بھاری فیسیں دے کر اپنے بچوں کو پرائیوٹ اداروں میں پڑھائے۔ ان سرکاری اساتذہ میں سے اکثر اپنی ملازمت کے ساتھ پرائیوٹ اداروں میں بھی ملازم ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ کے اپنے اسکول بھی ہیں۔

جہاں ایک طرف حکومت کے اقدام کو کسی طرح سپورٹ نہیں کیا جاسکتا وہیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ اساتذہ کو بھی اپنے مقام کا خیال کرنا ہوگا اور اپنی کارکردگی پر توجہ دینا ہوگی۔ حق بات کےلیے ضرور احتجاج کیا جائے۔ پورا ملک اس طبقے کے ساتھ کھڑا ہوگا لیکن ان کا کردار بھی وہی ہو جو ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کا قوم کی تعمیر کےلیے ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔