ہوائیں خوشبُو بنی ہوئی ہیں
اندھیرے سہمے سے لگ رہے ہیں
اُجالوں کی ہمتیں بڑھی ہیں
ستم زدوں کے دُکھی دلوں میں
عجب مسرت سی جاگ اٹھی ہے
غلام حیرت زدہ
''یکایک یہ تازیانوں کے سب نشانوں
سے اٹھتی ٹیسیں ٹھہر گئی ہیں''
ہے آج ششدر ہر ایک بیٹی
وہ سوچتی ہے
''یہ دل میں اترا قرار کیسا؟
یہ کیسی ہیں ساعتیں جو مجھ میں
سکون بن کر اتر گئی ہیں''
جہالتوں پہ ہے خوف طاری
اور علم کا حوصلہ بڑھا ہے
بشارتوں پر نظر جمائے
وہ بوڑھے اور پُروقار عالِم
صحیفے پڑھنے میں منہمک تھے
نہ جانے کیا منکشف ہُوا ہے
کہ چونک اٹھے ہیں
کوئی مقدس کتاب رکھ کر
نظر اٹھاکر
دمکتی آنکھوں میں مسکراکر
ہے خود سے گویا
''سبھی علامات کہہ رہی ہیں
وہ (ﷺ) آگئے ہیں''