عالمی برادری کی پاکستان کے لیے ہمدردانہ کوششیں

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جو کچھ کہا اور جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جو کچھ کہا اور جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امیر ممالک سے گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے لیے غریب ممالک کے لیے مزید رقم کی فراہمی کی اپیل کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس حوالے سے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔

193 رکنی باڈی میں اتفاق رائے سے منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی موسمیاتی فنانسنگ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں مدد دینے کے لیے اہم ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جو سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ 2020 میں شروع ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے امیر ممالک کی جانب سے 100 بلین ڈالر سالانہ فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیوگوتیرس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ترقی پذیر ممالک سب سے کم ذمے دار ہیں لیکن اس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ پاکستان کا ہے جہاں سیلاب نے تقریباً 1700 جانیں لے لی ہیں، 20 لاکھ گھر تباہ یا انھیں نقصان پہنچا ہے اور ملک کا ایک تہائی حصہ گندے، ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے لیے انسانی امداد اور بحالی کے لیے فنڈز میں اضافہ کرے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ایک اعلیٰ سطحی ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ تباہی صرف اس کا ذائقہ ہے جو گلوبل وارمنگ کے ساتھ آنے والی ہے۔ قرارداد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 ارکان میں سے 159 ممالک نے اسپانسر کیا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جو کچھ کہا اور جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔ ویسے تو یہ پوری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے لیے اچھی پیش رفت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک پر مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے حالیہ سیلاب نے بہت سے آیندہ کے خطرات کے اشارے دے دیے ہیں۔

پاکستان کی حکومت کو بھی اقوام متحدہ اور دوست ممالک سے ملنے والی امداد کو ایسے انداز میں خرچ کرنا چاہیے جس سے گلوبل وارمنگ اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کا سدباب ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ اس رقم کو شفاف طریقے سے خرچ کرنے کے لیے بھی میکنزم بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔

ادھر بلوچستان کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کی صدیوں پرانی نشانیوں کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق رپورٹ یونیسکو اور پاکستان میں موجود فرانسیسی آثار قدیمہ کے مشن کو بھیج دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 36 مقامات کو سیلاب نے نقصان پہنچایا۔ متاثرہ آثار کو فوری طور پر محفوظ بنانے اور مزید نقصان سے بچانے کی ضرورت ہے۔

ضلع کچھی میں دس ہزار سال قدیم تہذیب مہرگڑھ، نوشہرہ، سبی میں پیرک، ڈیرہ مراد جمالی میں جودر جو دارو، جھل مگسی میں موتی گہرام کا مقبرہ، التاز خان کا مقبرہ، میری آف خان قلات، پنجک دمب، مین قبرستان کے مقبرے، خان پور کا قلعہ شامل ہیں۔

بلوچستان کی اس رپورٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ سیلاب نے اس خطے کی تاریخ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی واضح ہوا ہے کہ بلوچستان کی حکومت نے آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے انتظامات کو اہمیت نہیں دی۔ اگر بلوچستان کی حکومت اپنے فنڈز شفاف انداز میں خرچ کرے تو بلوچستان کی اچھے طریقے سے تعمیرنو ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو جرمنی میں ہیں، برلن میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بورک نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے 1کروڑ یورو امداد دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان بری طرح متاثرہ ہوا جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔


وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے جرمن حکومت کی امداد کا شکریہ ادا کیا۔ یوں اس اضافی 10ملین یورو امداد کے ساتھ جرمنی کی جانب سے دی جانے والی مجموعی امداد 60ملین یورو ہو گئی ہے۔

برطانیہ میں قائم ایک فلاحی ادارے سیو دی چلڈرن نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ 34 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں جس میں سیلاب زدہ علاقوں میں 76 ہزار بچے خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے شدید غذائیت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

ملک کے بیشتر حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بھوک کے شکار افراد کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے جہاں پہلے 59 لاکھ 60 ہزار لوگ خوراک کی ہنگامی قلت سے دوچار تھے اب ان کی تعداد 86 لاکھ 20 ہزار ہوگئی ہے جن کی اکثریت کا تعلق سیلاب زدہ علاقوں سے ہے۔بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسم سرما کی آمد پر بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر بروقت اقدام نہ کیے گئے تو لاکھوں نوجوان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔

جنوبی کوریا نے سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اضافی 17 لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان کر دیا۔ جنوبی کوریا سے پہلے 3 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی جا چکی۔ سیو دی چلڈرن کی وارننگ پر ہمارے اربابِ اختیار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے البتہ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور پاکستان کی حکومت بھی معیشت کو استحکام دینے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ موڈیز کی درجہ بندی سے گھبرائیں نہیں، موڈیز سے بات ہوئی ہے، موڈیز نے جن بنیادوں پر درجہ بندی کی اس کا مناسب جواب دوں گا،یہ ریٹنگ سکوک بانڈ جاری کرنے کے لیے ہوتی ہے، ابھی ہم اس طرف جا نہیں رہے،ابھی ہم نے اپنے معاشی اشاریئے بہتر بنانے ہیں،موڈیز نے یہ ایک دن میں نہیں کیا وہ کئی مہینے سے اس پر کام کر رہے ہوں گے،ان کے سسٹم میں ایک بار یہ چیز آجائے تو واپس کرنا مشکل ہوتی ہے،موڈیز سے کہا ہے گنجائش نکالیں ورنہ اگلے ہفتے ملاقات ہے جواب دوں گا۔

احتساب عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہاکہ میں پہلے سے کہتا تھا ڈالر کی یہ اصل قدر نہیں ہے،ڈالر کی صحیح قدر دو سو روپے سے نیچے ہے۔2ہزار6سو ارب روپے کا ملکی قرض کم ہو چکا،ٹھیک طرح سے کام کیا جائے تو مستقبل روشن ہے۔ پٹرول کی قیمت میں کمی کی، ہماری برآمدی صنعت بہت اہم ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے۔ وزیر خزانہ کی باتیں بھی حوصلہ افزا ہیں اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی اشاریے مزید بہتر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی(ایکنک) نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس میں 43 ارب79 کروڑ ستر لاکھ روپے کے نولونگ ملٹی پرپز ڈیم کے نظر ثانی شدہ منصوبے سمیت مجموعی طور پر 496.37ارب روپے کے دس ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے دی۔ بجلی کے منصوبوں کے لیے بھی فنڈز کی منظوری دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ آیندہ ماہ سے بجلی سستی ہو جائے گی، عالمی منڈی میں تیل اور ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے آیندہ ماہ سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام کو بڑا ریلیف ملے گا، حکومت نے دوسے تین سو بجلی کے یونٹ استعمال کرنے والوں کو اب تک 55 ارب روپے کا ریلیف دیا ہے۔ حکومت نے کسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ اچھی پیش رفت ہے۔ پاکستان میں چھوٹے کسانوں اور دیہات کو سہولیات کی فراہمی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے۔

اس وقت پاکستان کے متوسط اور غریب طبقے کو سب سے زیادہ پریشانی بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی سے ہے۔ حکومت کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر اس مسئلے کو لینا چاہیے اور جس قدر ہو سکے اس مد میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حکومت بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جتنا زیادہ استحکام لائے گی، اتنا زیادہ معیشت بہتر ہو گی اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو روکنے کے لیے بھی میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس وسائل بھی ہیں اور تجربہ بھی ہے۔ ضرورت صرف شفاف طرزِ حکمرانی کی ہے۔
Load Next Story