انصاف کے متلاشی لوگ
کتنے ہی سیاست دانوں کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جارہے ہیں
پاکستان میں اس وقت تقریباً تمام کلیدی ادارے سیاست زدہ ہوگئے ہیں۔ سیاسی مقدمات ترجیح اول بن گئے ہیں ، جب کہ عوام کے مقدمات التواء میں چلے گئے ہیں۔
یہاں میں ایک واقعے کا ذکر کروں گا جو مجھے بزرگ صحافی سعود ساحر مرحوم نے سنایا تھا، بلوچستان کے ایک ڈپٹی کمشنر ان کے دوست تھے شاید وہ گوادر یا مکران کے ڈپٹی کمشنر تھے اور انتظامی امور کی وجہ سے ان کا کوئٹہ آناجانا لگا رہتا تھا۔ ایک بار وہ گوادر سے کوئٹہ جارہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص پیدل چل رہا ہے اور اس کے کندھے پر ایک گٹھری چھڑی کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔
انھیں اس پر رحم آیا کہ اس ویرانے میں یہ بوڑھا شخص نہ جانے کہاں کے لیے سفر کررہا ہے انھوں نے اس سے پوچھ لیا کہ '' بابا جی کہاں کا ارادہ ہے'' اس نے کہا کہ ''کوئٹہ جانا ہے وہاں میرے مقدمے کی تاریخ ہے'' ڈپٹی کمشنر نے کہا '' بابا جی آؤ گاڑی میں بیٹھ جاؤ '' بابا جی تھکے ہوئے تھے اور گاڑی میں بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی سوگئے ، ڈپٹی کمشنر نے اطمینان کا سانس لیا کہ بابا جی کو لفٹ دینا درست ثابت ہوا۔6 یا 7 گھنٹوں بعد وہ کوئٹہ پہنچ گئے۔
انھوں نے بابا جی کو جگایا کہ '' بابا جی اٹھو ہم کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ '' بابا جی نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ''کیا مذاق کرتا ہے؟'' ڈپٹی کمشنر نے کہا '' بابا جی مذاق نہیں ہے آپ کو عدالت جانا تھا نا ، ہم کورٹ کے باہر ہی کھڑے ہیں۔'' بابا جی نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا تو وہ واقعی کوئٹہ میں کھڑے تھے۔ باباجی چکرا کر گر پڑے اور پھر درد بھرے لہجے میں ڈپٹی کمشنر سے کہنے لگے '' یہ تم نے کیا غضب کیا ؟ مجھے اتنی جلدی کوئٹہ پہنچا دیا عدالت میں میری تاریخ پندرہ دن بعد ہے اب میں یہ پندرہ دن اتنے مہنگے شہر میں کیسے گزاروں گا؟''
بابا جی عدالت میں جاتے اور عدالت میں ان کے مقدمے کی نئی تاریخ پڑ جاتی۔ ڈپٹی کمشنر نے باباجی کے رہنے کا انتظام تو کردیا لیکن یہ سوال سامنے آگیا کہ یہ بوڑھا شخص صرف ایک مقدمے کی پیشی کے لیے ایک مہینہ پیدل سفر کرتا تھا اور جب وہ عدالت میں پہنچتا تو اس کے مقدمے کی نئی تاریخ پڑجاتی اور وہ اگلی تاریخ پر آنے کے لیے ایک ماہ کے سفر کی پھر تیاریاں کرنے لگتا۔ اس کے لیے عدالت رات 12 بجے کے بعد نہیں کھلتی ہے اور نہ ہی چھٹی کے دن جج اٹھ کر فوری طور پر عدالت کا کمرہ کھولتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں سیاسی رہنماؤں کو عدالتی فیصلوں سے ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔
ایک عدالتی فیصلے کا فائدہ مریم نواز کو ہوا ،ان کا پاسپورٹ بحال کر دیا گیا ہے، جس کے بعد وہ فوری طور پر لندن پہنچ گئیں۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ ایک سنگین مسئلہ تھا اور ایک فیصلہ انھیں کئی سالوں کے لیے سیاست سے نااہل قرار دے سکتا تھا۔ کتنے ہی سیاست دانوں کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جارہے ہیں ، لیکن کتنے ہی مقدمات ہیں جن میں برسوں سے حکم امتناعی چل رہا ہے۔ حکم امتناعی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی اعلیٰ اور نچلی عدالتوں میں21 لاکھ 44 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں کیونکہ 2021 کے دوران 41 لاکھ 2 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور 40 لاکھ 60 ہزار نئے مقدمات دائر کیے گئے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے آغاز میں سپریم کورٹ کے سامنے 46 ہزار 695 مقدمات زیر التوا تھے اور سال کے آخر تک یہ 51 ہزار 766 ہوگئے کیونکہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 12 ہزار 838 مقدمات کا فیصلہ کیا جب کہ 18 ہزار 75 نئے مقدمات دائر ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال ایک لاکھ 49 ہزار 362 مقدمات کا فیصلہ کیا اور اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ 48 ہزار 436 نئے مقدمات قائم کیے گئے اور 31 دسمبر2021 کو لاہور ہائی کورٹ میں کل ایک لاکھ 87 ہزار 255 مقدمات زیر التوا تھے۔
سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 31 ہزار سے زائد مقدمات کو نمٹا دیا تاہم اسی عرصے کے دوران 34 ہزار کے قریب نئے مقدمات بھی قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 84 ہزار سے زائد رہی۔ اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کو 23 ہزار 941 مقدمات موصول ہوئے اور 2021 کے دوران 20 ہزار 528 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور 44 ہزار 703 مقدمات زیر التوا رہے ، جب 2021 کا آغاز ہوا تو بلوچستان ہائی کورٹ میں 4 ہزار 194 مقدمات زیر التوا تھے اور اس نے 7 ہزار 287 مقدمات کو نمٹا دیا اور اس سے قبل 7 ہزار 182 نئے مقدمات دائر کیے گئے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات 4 ہزار 108 ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2021 میں 7 ہزار 918 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 9 ہزار 433 نئے مقدمات قائم کیے گئے اور گزشتہ سال کے آخر تک زیر التوا مقدمات کی تعداد 17ہزار 456 تھی۔ اسی طرح پنجاب کی نچلی عدالتوں نے 29 لاکھ 4 ہزار 745 اور گزشتہ سال 28 لاکھ 26 ہزار 774 نئے مقدمات نمٹائے جب کہ 13 لاکھ 13 ہزار 669 مقدمات زیر التوا رہے۔ سندھ کی ضلع عدلیہ نے 3 لاکھ 44 ہزار 701 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 2021 میں 3لاکھ 46 ہزار 109 مقدمات دائر کیے گئے اور 31 دسمبر کو زیر التوا کل مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 17ہزار 790 تھی۔ خیبر پختونخوا میں ماتحت عدالتوں نے گزشتہ سال 4 لاکھ 75ہزار 927 مقدمات کا فیصلہ کیا، اسی عرصے کے دوران 5 لاکھ 417 مقدمات قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر 2 لاکھ 56 ہزار 873 مقدمات زیر التوا ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کی ضلع عدلیہ نے 59 ہزار 652 اور 59 ہزار 289 مقدمات کا فیصلہ کیا اور زیر سماعت مقدمات کی کُل تعداد 15 ہزار 675 رہی، جب کہ اسلام آباد کی نچلی عدالتوں نے 87 ہزار 661 مقدمات نمٹائے جن میں سے 2021 کے دوران 90 ہزار 292 مقدمات قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر 50 ہزار 949 مقدمات زیر التوا ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2017 تک دائر کیے گئے 88 ہزار 661 اور 30 اپریل تک ایک لاکھ 30 ہزار 327 پرانے مقدمات انصاف کی فراہمی کے منتظر تھے۔
یہاں میں ایک واقعے کا ذکر کروں گا جو مجھے بزرگ صحافی سعود ساحر مرحوم نے سنایا تھا، بلوچستان کے ایک ڈپٹی کمشنر ان کے دوست تھے شاید وہ گوادر یا مکران کے ڈپٹی کمشنر تھے اور انتظامی امور کی وجہ سے ان کا کوئٹہ آناجانا لگا رہتا تھا۔ ایک بار وہ گوادر سے کوئٹہ جارہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص پیدل چل رہا ہے اور اس کے کندھے پر ایک گٹھری چھڑی کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے۔
انھیں اس پر رحم آیا کہ اس ویرانے میں یہ بوڑھا شخص نہ جانے کہاں کے لیے سفر کررہا ہے انھوں نے اس سے پوچھ لیا کہ '' بابا جی کہاں کا ارادہ ہے'' اس نے کہا کہ ''کوئٹہ جانا ہے وہاں میرے مقدمے کی تاریخ ہے'' ڈپٹی کمشنر نے کہا '' بابا جی آؤ گاڑی میں بیٹھ جاؤ '' بابا جی تھکے ہوئے تھے اور گاڑی میں بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی سوگئے ، ڈپٹی کمشنر نے اطمینان کا سانس لیا کہ بابا جی کو لفٹ دینا درست ثابت ہوا۔6 یا 7 گھنٹوں بعد وہ کوئٹہ پہنچ گئے۔
انھوں نے بابا جی کو جگایا کہ '' بابا جی اٹھو ہم کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ '' بابا جی نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ''کیا مذاق کرتا ہے؟'' ڈپٹی کمشنر نے کہا '' بابا جی مذاق نہیں ہے آپ کو عدالت جانا تھا نا ، ہم کورٹ کے باہر ہی کھڑے ہیں۔'' بابا جی نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا تو وہ واقعی کوئٹہ میں کھڑے تھے۔ باباجی چکرا کر گر پڑے اور پھر درد بھرے لہجے میں ڈپٹی کمشنر سے کہنے لگے '' یہ تم نے کیا غضب کیا ؟ مجھے اتنی جلدی کوئٹہ پہنچا دیا عدالت میں میری تاریخ پندرہ دن بعد ہے اب میں یہ پندرہ دن اتنے مہنگے شہر میں کیسے گزاروں گا؟''
بابا جی عدالت میں جاتے اور عدالت میں ان کے مقدمے کی نئی تاریخ پڑ جاتی۔ ڈپٹی کمشنر نے باباجی کے رہنے کا انتظام تو کردیا لیکن یہ سوال سامنے آگیا کہ یہ بوڑھا شخص صرف ایک مقدمے کی پیشی کے لیے ایک مہینہ پیدل سفر کرتا تھا اور جب وہ عدالت میں پہنچتا تو اس کے مقدمے کی نئی تاریخ پڑجاتی اور وہ اگلی تاریخ پر آنے کے لیے ایک ماہ کے سفر کی پھر تیاریاں کرنے لگتا۔ اس کے لیے عدالت رات 12 بجے کے بعد نہیں کھلتی ہے اور نہ ہی چھٹی کے دن جج اٹھ کر فوری طور پر عدالت کا کمرہ کھولتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں سیاسی رہنماؤں کو عدالتی فیصلوں سے ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔
ایک عدالتی فیصلے کا فائدہ مریم نواز کو ہوا ،ان کا پاسپورٹ بحال کر دیا گیا ہے، جس کے بعد وہ فوری طور پر لندن پہنچ گئیں۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ ایک سنگین مسئلہ تھا اور ایک فیصلہ انھیں کئی سالوں کے لیے سیاست سے نااہل قرار دے سکتا تھا۔ کتنے ہی سیاست دانوں کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جارہے ہیں ، لیکن کتنے ہی مقدمات ہیں جن میں برسوں سے حکم امتناعی چل رہا ہے۔ حکم امتناعی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی اعلیٰ اور نچلی عدالتوں میں21 لاکھ 44 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں کیونکہ 2021 کے دوران 41 لاکھ 2 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور 40 لاکھ 60 ہزار نئے مقدمات دائر کیے گئے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے آغاز میں سپریم کورٹ کے سامنے 46 ہزار 695 مقدمات زیر التوا تھے اور سال کے آخر تک یہ 51 ہزار 766 ہوگئے کیونکہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 12 ہزار 838 مقدمات کا فیصلہ کیا جب کہ 18 ہزار 75 نئے مقدمات دائر ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال ایک لاکھ 49 ہزار 362 مقدمات کا فیصلہ کیا اور اسی عرصے کے دوران ایک لاکھ 48 ہزار 436 نئے مقدمات قائم کیے گئے اور 31 دسمبر2021 کو لاہور ہائی کورٹ میں کل ایک لاکھ 87 ہزار 255 مقدمات زیر التوا تھے۔
سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 31 ہزار سے زائد مقدمات کو نمٹا دیا تاہم اسی عرصے کے دوران 34 ہزار کے قریب نئے مقدمات بھی قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 84 ہزار سے زائد رہی۔ اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کو 23 ہزار 941 مقدمات موصول ہوئے اور 2021 کے دوران 20 ہزار 528 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور 44 ہزار 703 مقدمات زیر التوا رہے ، جب 2021 کا آغاز ہوا تو بلوچستان ہائی کورٹ میں 4 ہزار 194 مقدمات زیر التوا تھے اور اس نے 7 ہزار 287 مقدمات کو نمٹا دیا اور اس سے قبل 7 ہزار 182 نئے مقدمات دائر کیے گئے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات 4 ہزار 108 ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2021 میں 7 ہزار 918 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 9 ہزار 433 نئے مقدمات قائم کیے گئے اور گزشتہ سال کے آخر تک زیر التوا مقدمات کی تعداد 17ہزار 456 تھی۔ اسی طرح پنجاب کی نچلی عدالتوں نے 29 لاکھ 4 ہزار 745 اور گزشتہ سال 28 لاکھ 26 ہزار 774 نئے مقدمات نمٹائے جب کہ 13 لاکھ 13 ہزار 669 مقدمات زیر التوا رہے۔ سندھ کی ضلع عدلیہ نے 3 لاکھ 44 ہزار 701 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 2021 میں 3لاکھ 46 ہزار 109 مقدمات دائر کیے گئے اور 31 دسمبر کو زیر التوا کل مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 17ہزار 790 تھی۔ خیبر پختونخوا میں ماتحت عدالتوں نے گزشتہ سال 4 لاکھ 75ہزار 927 مقدمات کا فیصلہ کیا، اسی عرصے کے دوران 5 لاکھ 417 مقدمات قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر 2 لاکھ 56 ہزار 873 مقدمات زیر التوا ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کی ضلع عدلیہ نے 59 ہزار 652 اور 59 ہزار 289 مقدمات کا فیصلہ کیا اور زیر سماعت مقدمات کی کُل تعداد 15 ہزار 675 رہی، جب کہ اسلام آباد کی نچلی عدالتوں نے 87 ہزار 661 مقدمات نمٹائے جن میں سے 2021 کے دوران 90 ہزار 292 مقدمات قائم کیے گئے اور مجموعی طور پر 50 ہزار 949 مقدمات زیر التوا ہیں۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2017 تک دائر کیے گئے 88 ہزار 661 اور 30 اپریل تک ایک لاکھ 30 ہزار 327 پرانے مقدمات انصاف کی فراہمی کے منتظر تھے۔