دماغ کے خلیے
زندگی کی سانس بند ہونے سے پہلے اگر ان خلیوں میں حرکت پیدا بھی ہوئی تو کیا فائدہ؟
خبر تھی کہ کھانا اور دوائیاں نہ ملنے پر سپرہائی وے اور نیشنل ہائی وے کو ملانیوالے لنک روڈ کو سیلاب متاثرین نے احتجاج کے دوران بند کردیا جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگیا۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ انھیں نہ تو کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی، ان کے بچوں کے لیے ادویات بھی نہیں مل رہیں۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ ان کو رات کا کھانا اتنی تاخیر سے دیا جاتا ہے کہ ان کے بچے بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دوسری خبر اس طرح سے تھی کہ ابھی تک متاثرہ علاقوں میں پانی جمع ہے جو تعفن کا باعث بن رہا ہے۔ یہ پانی انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔ پانی جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
موسم کی تبدیلی کے باعث دنیا بھر میں مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں، بارش، طوفان، ژالہ باری نے علاقوں میں ابتری مچا رکھی ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ زمین کے گرد حفاظتی تہہ اوزون بھی خطرے میں ہے۔
ماہرین گلیشئرز کو بچانے کے لیے تراکیب سوچ رہے ہیں، عمل کر رہے ہیں، بڑے بڑے ترپالوں کو برف کے ذخائر پر ڈھانپ کر سمجھا جا رہا ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے گلیشئرز کو بچانے کا۔ کس قدر عجیب سی بات ہے انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اپنے اردگرد کی جگہوں کو برباد کرتا چلا جا رہا ہے لیکن ابھی تک اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے؟ انسانی فطرت تو دراصل قدرت ہے لیکن جب اسے اس کے خلاف چلایا جاتا ہے تو ہمیشہ بربادی اور تباہی آتی ہے۔
حدیث نبوی ہے ''اعمالوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔''انسانی ذہن بہت زرخیز ہے، ایک ایسا وسیع کمرہ جس کے خانوں میں بہت سی کام کی چیزیں ساری زندگی پڑی رہتی ہیں اور انسان ان چیزوں کو استعمال میں ہی نہیں لاتا کیونکہ اس کی نظر میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ہر چیز پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پہنچ کہا جا کر رکے گی، اس کا کیا حل ہے؟بات پھر حدیث نبویؐ سے شروع ہوتی ہے۔
انسانی زندگی کا ہر عمل نوکری سے لے کر شادی بیاہ، گھریلو معاملات تک اسی ایک بات سے شروع ہوتا ہے۔ انسان کی نیت جو اگر مثبت ہے تو اس کے اردگرد کی منفی سوچیں اس سے ٹکرائیں گی، لیکن مثبت کی اپنی ایک خاصیت ہے جو منفی کے اثر کو زائل کرتے مثبت کرتی جائے گی۔ دراصل اچھی سوچ منفی سوچ کی کئی پرتوں کو کھولنے کے بعد عیاں ہوتی ہے اور اسی طرح بظاہر مثبت سوچ والوں کی کئی پرتوں کو جاننے کے بعد ان کی منفی سوچ عیاں ہوتی ہے۔
ہم انسان مادی خواہشات کے دائرے پہ دائرے بناتے جا رہے ہیں اور ان دائروں کے بیچ قید ہو کر حسد، بے رحمی، ظلم، تشدد، کرپشن، عصبیت اور اسی طرح کی اخلاقی برائیوں میں گھرتے جا رہے ہیں، بظاہر ہمارے پاس بڑی بڑی ڈگریاں، بڑے بڑے عہدے، شان و شوکت ہے، خاندانی پس منظر اگر شان دار ہو تو کیا ہی کہنے کہ گردن اکڑا کر کچھ اور غرور سے زمین پر چلتے ہیں ورنہ یہ کوالٹی اور بہت سی خصوصیات کے ساتھ اب ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
انسانی دماغ کہتا ہے کہ دو لیکن اتنا کہ ہماری تجوری نہ خالی ہو، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سیلاب متاثرین کے لیے شہروں سے امداد نہیں دی گئی ہے، ترکی سے لے کر بنگلہ دیش تک امداد دے رہا ہے، پاکستان سے باہر بھی اور اندر بھی فلاحی کیمپ لگائے گئے ہیں اتنا کچھ جمع کیا گیا اور کیا جا رہا ہے لیکن انسانی دماغ کے بہت سے خلیے جو دماغ کے وسیع کمرے میں اب بھی بے سدھ پڑے ہیں، استعمال میں نہیں آ رہے، امید ہے کہ وہ خلیے جاگ ہی جائیں گے۔
انسانی دماغ یہ بھی کہتا ہے کہ سب کچھ دے دو، ہماری تجوری بھی اٹھا لے جاؤ کہ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا، ہم ایک غیرت مند قوم ہیں۔ خلوص ہی ہمیں ایک باوقار قوم بنا سکتا ہے، لیکن ہم انسان ابھی تک اسی سائنسی تحقیق پر لگے ہیں کہ قدرتی برف کے ذخائر پر اگر ترپال ڈال دیے جائیں تو جیسے گرمیوں میں اسٹاپ پر برف رکھ کر بیچی جاتی ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے بوریاں ڈالی جاتی ہیں تاکہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں کمی آئے تو ہو سکتا ہے کہ گلیشئرز کو جلدی پگھلنے سے بچایا جاسکے۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے قانون ناکارگی کو کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ دنیا کی توانائی مسلسل ختم ہو رہی ہے۔ اس عمل کو لوٹایا نہیں جاسکتا۔ اس قانون کے تحت کچھ عرصہ پہلے غالباً چین کی جانب سے یہ شوشہ اٹھا تھا کہ دنیا اب ختم ہو جائے گی اور اس کے لیے ایک وقت بھی مقرر کیا جا چکا تھا لیکن دنیا ان سائنس دانوں کی حکمت عملی اور تجربات و مشاہدات سے تو نہیں چل رہی، یہ تو ایک مکمل قانون کے تحت جاری ہے اور جب تک اس کو حکم نہیں ہوگا یہ یوں ہی چلتی رہے گی۔
یعنی ایسے ہی بارش، طوفان، زلزلے اور قدرتی آفات آتی رہیں گی لیکن انسان ان آفات کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے؟کیا اس طرح کہ جب سندھ اور پنجاب اور پورے پاکستان کو بارش اور سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان جیسا مسائل میں گھرا ملک اور ٹورانٹو جیسے پرتعیش شہر میں بڑے ایوارڈ کی تقریب، چمکتے چہرے، مہنگے ملبوسات، جیولریز، میک اپ اور برانڈز کا شور اور اس حسین تصویر کے پیچھے سیلاب کے ٹھہرے پانی میں گھرے علاقے، بھوک اور دوائیوں کی طلب کے مجبور لوگ۔ انسانی دماغ کے بے کار، بے ہوش خلیے۔
سیلاب میں گھرے لوگ، پریشانیوں اور مصائب میں گھرے بچے، بوڑھے اور خواتین جن میں بہت سے اپنا سب کچھ لٹا کر بھی لٹ گئے۔ وہ معصوم لڑکی جو اپنے ہی جیسے لوگوں کے درمیان رہ کر بھی اپنی عصمت، اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی اور وجہ نیت کا فتور، دھوکا، بدنیتی کا یہ زہر ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے، کبھی بھی ڈنک مار دیتا ہے۔
یہ تو محض ایک کیس ابھر کر آیا ہے نہ جانے کتنی بچیاں، بچے، خواتین، جوان لڑکیاں اب بھی اس نیت کے منفی زاویوں کے دائروں میں سسک رہے ہیں۔ہر چار پانچ برسوں بعد اس آنیوالے سیلاب، بارشوں کو برا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی اس رب العزت کی نعمت ہے۔ ہمیں اپنے اپنے دماغ کے کمرے میں پڑے بے کار خلیوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
زندگی کی سانس بند ہونے سے پہلے اگر ان خلیوں میں حرکت پیدا بھی ہوئی تو کیا فائدہ؟ کیا انسانی ہاتھ پیر ان کا ساتھ دینے کے بھی قابل ہوسکیں گے یا نہیں؟ شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات!
متاثرین کا کہنا تھا کہ ان کو رات کا کھانا اتنی تاخیر سے دیا جاتا ہے کہ ان کے بچے بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔دوسری خبر اس طرح سے تھی کہ ابھی تک متاثرہ علاقوں میں پانی جمع ہے جو تعفن کا باعث بن رہا ہے۔ یہ پانی انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔ پانی جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
موسم کی تبدیلی کے باعث دنیا بھر میں مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں، بارش، طوفان، ژالہ باری نے علاقوں میں ابتری مچا رکھی ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ زمین کے گرد حفاظتی تہہ اوزون بھی خطرے میں ہے۔
ماہرین گلیشئرز کو بچانے کے لیے تراکیب سوچ رہے ہیں، عمل کر رہے ہیں، بڑے بڑے ترپالوں کو برف کے ذخائر پر ڈھانپ کر سمجھا جا رہا ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے گلیشئرز کو بچانے کا۔ کس قدر عجیب سی بات ہے انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی اپنے اردگرد کی جگہوں کو برباد کرتا چلا جا رہا ہے لیکن ابھی تک اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے؟ انسانی فطرت تو دراصل قدرت ہے لیکن جب اسے اس کے خلاف چلایا جاتا ہے تو ہمیشہ بربادی اور تباہی آتی ہے۔
حدیث نبوی ہے ''اعمالوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔''انسانی ذہن بہت زرخیز ہے، ایک ایسا وسیع کمرہ جس کے خانوں میں بہت سی کام کی چیزیں ساری زندگی پڑی رہتی ہیں اور انسان ان چیزوں کو استعمال میں ہی نہیں لاتا کیونکہ اس کی نظر میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ہر چیز پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پہنچ کہا جا کر رکے گی، اس کا کیا حل ہے؟بات پھر حدیث نبویؐ سے شروع ہوتی ہے۔
انسانی زندگی کا ہر عمل نوکری سے لے کر شادی بیاہ، گھریلو معاملات تک اسی ایک بات سے شروع ہوتا ہے۔ انسان کی نیت جو اگر مثبت ہے تو اس کے اردگرد کی منفی سوچیں اس سے ٹکرائیں گی، لیکن مثبت کی اپنی ایک خاصیت ہے جو منفی کے اثر کو زائل کرتے مثبت کرتی جائے گی۔ دراصل اچھی سوچ منفی سوچ کی کئی پرتوں کو کھولنے کے بعد عیاں ہوتی ہے اور اسی طرح بظاہر مثبت سوچ والوں کی کئی پرتوں کو جاننے کے بعد ان کی منفی سوچ عیاں ہوتی ہے۔
ہم انسان مادی خواہشات کے دائرے پہ دائرے بناتے جا رہے ہیں اور ان دائروں کے بیچ قید ہو کر حسد، بے رحمی، ظلم، تشدد، کرپشن، عصبیت اور اسی طرح کی اخلاقی برائیوں میں گھرتے جا رہے ہیں، بظاہر ہمارے پاس بڑی بڑی ڈگریاں، بڑے بڑے عہدے، شان و شوکت ہے، خاندانی پس منظر اگر شان دار ہو تو کیا ہی کہنے کہ گردن اکڑا کر کچھ اور غرور سے زمین پر چلتے ہیں ورنہ یہ کوالٹی اور بہت سی خصوصیات کے ساتھ اب ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
انسانی دماغ کہتا ہے کہ دو لیکن اتنا کہ ہماری تجوری نہ خالی ہو، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سیلاب متاثرین کے لیے شہروں سے امداد نہیں دی گئی ہے، ترکی سے لے کر بنگلہ دیش تک امداد دے رہا ہے، پاکستان سے باہر بھی اور اندر بھی فلاحی کیمپ لگائے گئے ہیں اتنا کچھ جمع کیا گیا اور کیا جا رہا ہے لیکن انسانی دماغ کے بہت سے خلیے جو دماغ کے وسیع کمرے میں اب بھی بے سدھ پڑے ہیں، استعمال میں نہیں آ رہے، امید ہے کہ وہ خلیے جاگ ہی جائیں گے۔
انسانی دماغ یہ بھی کہتا ہے کہ سب کچھ دے دو، ہماری تجوری بھی اٹھا لے جاؤ کہ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا، ہم ایک غیرت مند قوم ہیں۔ خلوص ہی ہمیں ایک باوقار قوم بنا سکتا ہے، لیکن ہم انسان ابھی تک اسی سائنسی تحقیق پر لگے ہیں کہ قدرتی برف کے ذخائر پر اگر ترپال ڈال دیے جائیں تو جیسے گرمیوں میں اسٹاپ پر برف رکھ کر بیچی جاتی ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے بوریاں ڈالی جاتی ہیں تاکہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں کمی آئے تو ہو سکتا ہے کہ گلیشئرز کو جلدی پگھلنے سے بچایا جاسکے۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے قانون ناکارگی کو کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ دنیا کی توانائی مسلسل ختم ہو رہی ہے۔ اس عمل کو لوٹایا نہیں جاسکتا۔ اس قانون کے تحت کچھ عرصہ پہلے غالباً چین کی جانب سے یہ شوشہ اٹھا تھا کہ دنیا اب ختم ہو جائے گی اور اس کے لیے ایک وقت بھی مقرر کیا جا چکا تھا لیکن دنیا ان سائنس دانوں کی حکمت عملی اور تجربات و مشاہدات سے تو نہیں چل رہی، یہ تو ایک مکمل قانون کے تحت جاری ہے اور جب تک اس کو حکم نہیں ہوگا یہ یوں ہی چلتی رہے گی۔
یعنی ایسے ہی بارش، طوفان، زلزلے اور قدرتی آفات آتی رہیں گی لیکن انسان ان آفات کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے؟کیا اس طرح کہ جب سندھ اور پنجاب اور پورے پاکستان کو بارش اور سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان جیسا مسائل میں گھرا ملک اور ٹورانٹو جیسے پرتعیش شہر میں بڑے ایوارڈ کی تقریب، چمکتے چہرے، مہنگے ملبوسات، جیولریز، میک اپ اور برانڈز کا شور اور اس حسین تصویر کے پیچھے سیلاب کے ٹھہرے پانی میں گھرے علاقے، بھوک اور دوائیوں کی طلب کے مجبور لوگ۔ انسانی دماغ کے بے کار، بے ہوش خلیے۔
سیلاب میں گھرے لوگ، پریشانیوں اور مصائب میں گھرے بچے، بوڑھے اور خواتین جن میں بہت سے اپنا سب کچھ لٹا کر بھی لٹ گئے۔ وہ معصوم لڑکی جو اپنے ہی جیسے لوگوں کے درمیان رہ کر بھی اپنی عصمت، اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی اور وجہ نیت کا فتور، دھوکا، بدنیتی کا یہ زہر ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے، کبھی بھی ڈنک مار دیتا ہے۔
یہ تو محض ایک کیس ابھر کر آیا ہے نہ جانے کتنی بچیاں، بچے، خواتین، جوان لڑکیاں اب بھی اس نیت کے منفی زاویوں کے دائروں میں سسک رہے ہیں۔ہر چار پانچ برسوں بعد اس آنیوالے سیلاب، بارشوں کو برا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی اس رب العزت کی نعمت ہے۔ ہمیں اپنے اپنے دماغ کے کمرے میں پڑے بے کار خلیوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
زندگی کی سانس بند ہونے سے پہلے اگر ان خلیوں میں حرکت پیدا بھی ہوئی تو کیا فائدہ؟ کیا انسانی ہاتھ پیر ان کا ساتھ دینے کے بھی قابل ہوسکیں گے یا نہیں؟ شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات!