گدھوں وکتوں کی اہمیت

گدھوں کا گوشت بھی چین میں مقبول ہیں لیکن چین میں ان کی تعداد کم ہو گئی ہے


Shabbir Ahmed Arman October 09, 2022
[email protected]

گدھے کو پاکستان میں بے وقوف جانور تصورکیا جاتا ہے مگر تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ لاکھوں گدھے پیٹ میں گئے یا چین کو مگر ہمارے ملک میں چیخ و پکار اور گدھے پن میں ذرہ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اسی طرح ہمارے ملک میں کتوں کو بھی عزت نہیں ہے ، جس کسی کو برے الفاظ میں پکارا جاتا ہے اسے کتا یا گدھا ضرور کہا جاتا ہے۔

بہرکیف پاکستان کے لیے چین گوشت برآمد کرنے کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ چین پاکستان سے گدھے اورکتے درآمد کرنے کا خواہاں ہے ، چینی سفیرکئی بار گوشت برآمد کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ ملک بھر میں گدھوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق مالی سال 22-2021 میں ملک بھر میں سابقہ مالی سال کی طرح رواں مالی سال کے دوران بھی گدھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ملک بھر میں یہ تعداد بڑھ کر 57 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

ملک میں سالانہ ایک لاکھ گدھوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں گدھوں کا شمار ایسے جانوروں میں ہوتا ہے جنھیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی لیکن چین میں اس کی بڑی مانگ ہے کیونکہ اس کے چمڑے کو وہاں اہم ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت لوگوں کو روزگارکے نئے مواقعے بھی ملیں گے۔

گدھوں کا گوشت بھی چین میں مقبول ہیں لیکن چین میں ان کی تعداد کم ہو گئی ہے اور سپلائرز اس کی تلاش میں دوسری جگہوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد میں کمی کا ایک سبب ان کی افزائش نسل میں کمی بھی ہے۔ گدھے کی کھال کی چین میں بہت مانگ ہے ہر سال 18 لاکھ چمڑے کی تجارت ہوتی ہے لیکن اس کی مانگ ایک کروڑ ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق چین میں گدھوں کی تعداد 1990 میں ایک کروڑ دس لاکھ تھی جو کم ہو کر آج محض 30 لاکھ رہ گئی ہے۔ گدھے کے چمڑے کو ابال کر جو جیلاٹین ملتی ہے اس کی قیمت بازار میں 388 ڈالر فی کلو ہے اور اس کا چینی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔ یوگینڈا، تنزانیہ، نائجر، برکینا فاسو، مالی اور سینیگل نے گدھوں کی چین برآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کا گوشت اور چمڑا حاصل کرنے سے قبل ان کے سر پر بولٹ گن ماری جاتی ہے۔

گدھوں کو بھوکا رکھ کر مارا جا رہا ہے تاکہ ان کی جلد اتارنے میں آسانی ہو ، لیکن بین الاقوامی دباؤکے اثرات اب دیکھے جا رہے ہیں اورکئی ممالک نے چین کوگدھے اور اس سے تیار مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

جنوبی چین میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کے باوجود کتوں کے گوشت کا سالانہ میلہ لگایا جاتا ہے ، یولن شہر میں منعقد دس روزہ میلے کے دوران تقریباً دس ہزارکتوں اور بلیوں کو مارنے کے بعد ان کا گوشت کھایا جائے گا۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے یہ ایک ظالمانہ تقریب ہے اور اس سال اس تہوار پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ایک کروڑ سے زائد افراد نے دستخط کیے ہیں۔

مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تہوار سرکاری سطح پر نہیں منایا جاتا بلکہ اس نجی طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ چین میں کتوں کے گوشت کی بطور انسانی خوراک چین میں فروخت قانونی طور پر جائز ہے اور ہر سال تقریباً ایک کروڑ کتے انسانی خوراک کے لیے مارے جاتے ہیں۔

یولن میں منعقد ہونے والا میلہ مقامی افرا کے لیے باعث فخر ہے، کتوں کے گوشت سے کھانا تیارکرنے والے بہت سارے ریستوران اور شہر میں آنے والے افراد اس میں شرکت کرتے ہیں ، لیکن ہر سال اس پر تنقید میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

گدھا ایک مظلوم محنتی جانور ہے ہمارے ملکی ترقی میں گدھوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جس زمانے میں تعمیرات کے لیے بھاری مشینری کا تصور بھی نہیں تھا تب محنت کش گدھوں نے اپنے کمزور ناتواں کمر پر بھاری بھاری پتھر ، ریت ، لوہے ، مٹی اور دیگر ضروری تعمیراتی سامان لاد کر تعمیراتی کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے جن کا ہمیں گدھوں کا احسان مند ہونا چاہیے لیکن ہم اسے صرف ایک پالتو جانور جان کر اس سے کام لیتے رہے ہیں۔

آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں گدھوں کی بڑی اہمیت ہے آج بھی دنیا کی بہت سے ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، گدھے مال برداری کا کام سر انجام دیتے ہیں۔

ہمارے وطن عزیز کے اداکار سید کمال نے گدھوں کے حقوق پر مبنی ایک فلم'' انسان اورگدھا '' بنائی تھی جس میں انسان اور گدھوں کا موازنہ کیا گیا تھا اس فلم میں اداکار کمال گدھا گاڑی چلانے والا ہوتا ہے جس کے گدھے کا نام منگو ہوتا ہے منگو کو اپنی برادری گدھوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر بڑا دکھ ہوتا ہے اور انسانی زندگی پر رشک ہوتا ہے۔ ایک دن منگو یعنی گدھا ، اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ '' اے خدا مجھے انسان بنا دے ، اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور منگوگدھے سے انسان بنا جاتا ہے، اس گدھا نما کردار کو ہمارے پسندیدہ اداکار رنگیلا نے خوب نبھایا ہے لیکن وہ انسانوں کا انسانوں کے ساتھ ظلم و ستم دیکھ کر دھنگ رہ جاتا ہے اور وہ خود بھی اس کا شکار ہوجاتا ہے اس پر قتل کا جھوٹا الزام لگا دیا جاتا ہے اسے جیل ہوجاتی ہے اور اسے پھانسی کی سزا ہوجاتی ہے ، اسے تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ پھانسی سے چند لمحے پہلے منگو پھر دعا مانگتا ہے کہ '' اے خدا مجھے پھر حیوان بنا دے'' اور وہ انسان سے پھر گدھا بن جاتا ہے۔ اس فلم کی مختصر کہانی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ نسل نو اس فلم کو ایک بار ضرور دیکھے جوکہ یو ٹیوب پر دستیاب ہے۔

ادھر اہل پنجاب بھی گدھا مار یا گدھا بھگائو مہم میں کے پی کے والوں سے کس طرح پیچھے رہے جاتے تھے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ہزاروں گدھوں کی کھالوں کو سندھ اسمگل کر دیا گیا۔ اہل دانش تو اسی سوچ بچار میں غرق ہیں کہ گدھوں کو چین بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانیوں کو چینی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تو کہیں گدھوں کی کھالیں سندھ اسمگل کی جا رہی ہے۔ ہوٹلوں میں بکرے' بیل اور گدھے کے گوشت میں تمیز ختم کی جا رہی ہے۔ ان تمام معاملات کا مقصد پاکستانیوں میں گدھے کی اہمیت میں اضافہ ثابت کرنا مقصود ہے یا اس جانور کو وہیں سے نکالا جا رہا ہے اور پاکستان کو گدھوں سے پاک کرنے کا کوئی خاص عزم کیا جا چکا ہے ، چونکہ یہ پاکستانی گدھے ہیں جو بے وقوفی کی علامت ہیں۔

یہ امریکی گدھے نہیں جن کی تصویر پر عوام الیکشن میں مہر لگا کر وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کر کے دنیا بھر میں دو لتی مارتے رہتے ہیں مگر ہائے افسوس! صد افسوس۔ اس بار تو امریکا میں بھی گدھوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور وائٹ ہاؤس بھی گدھے کے نشان والوں سے پاک ہوگیا۔ شاید امریکا میں اہل گدھا کی شکست سے مایوس ہو کر ہی پاکستان میں گدھے کی بیخ کنی کی جا رہی ہے۔ دوسرے معنوں میں امریکا تا پاکستان اور اس کے بعد افغانستان تک گدھوں کی بے قدری کی جا رہی ہے ، جب امریکا جیسے گدھا پرست معاشرے نے گدھوں کو مسترد کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں ،گدھوں کو سر پرچڑھانے والے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں