پانی کی کمی کا مسئلہ

پانی کی پالیسی بناتے وقت ان تمام نکات کو مدنظر رکھنا ہوگا جن پر تمام متاثرہ فریقین کا اتفاق رائے ضروری ہو

jamilmarghuz1@gmail.com

پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اکثر اوقات کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بات کرتے رہتے ہیں ہے'حالانکہ کالا باغ صرف پختونخوا کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان کا مسئلہ بھی ہے۔

کچھ عرصہ قبل سابق چیئر مین واپڈا جناب ظفر محمود صاحب نے اپنے کالموں کے سلسلے میں کالاباغ ڈیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی' جس کے رد عمل میں 3جولائی 2016 کے اخبارات میں شایع شدہ ایک خبر کے مطابق ''قومی وطن پارٹی کے چیئرمین 'محترم آفتاب احمد خان شیرپائو نے اس کی مخالفت کی تھی اور کالاباغ ڈیم کو ایک مردہ گھوڑا قرار دیا تھا 'انھوں نے مطالبہ کیا کہ بھاشا ڈیم پر توجہ دی جائے 'جس سے سستی و صاف ٍ بجلی ٍ اور پانی کی کمی کے دونوں مسائل حل ہوں گے''۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ 'ممبر قومی اسمبلی محترمہ نفیسہ شاہ اور خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی مخالفانہ ردعمل ظاہر کیا 'ان کا کہنا تھا کہ '' مرکزی حکومت لوڈشیڈنگ پر عوامی احتجاج سے توجہ ہٹانے کے لیے کالاباغ ڈیم ایشو زندہ کررہی ہے 'بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے کے لیے'حکومت کو بھاشا اور دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے''۔

اسی طرح کالا باغ ڈیم کے حق میں سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے بھی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی ، سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کے آخری برسوں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں مہم چلائی تھی لیکن یہ سب کوششیں ناکام رہیں۔

پاکستان میں اصل مسئلہ پانی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قلت کا ہے 'جوپاکستان میں عوامی بے چینی اور کا باعث بن رہا ہے ' کاروباری طبقہ اور زرعی طبقہ بھی شدید متاثر ہورہا ہے ۔بدقسمتی سے اس مسئلے پر قومی اتفاق رائے کے بجائے اختلافات زیادہ ہیں ۔ ادھر پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا اس کی مناسب تقسیم کا ' اس کا حل کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہی تجویز کیا جاتا ہے۔

اس ڈیم کے بارے میں خیبر پختونخوا کی قوم پرستوں اور دیگر لوگوں کے اپنے تحفظات ہیں لیکن سب سے زیادہ تحفظات اور اعتراضات سندھ صوبہ کی سیاسی اشرافیہ نے ظاہر کیے ہیں' ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو سندھ میں حالیہ سیلاب سے تباہی نہ ہوتی۔

اس بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ 2010کا سیلاب اس سے شدید تھا لیکن کوٹری اور سکھر بیراج سے پانی بغیر کسی نقصان کے گزر گیا تھا۔ موجودہ پانی کا خطرناک ریلا بالائی علاقوں سے نہیں بلکہ سندھ کے اندر غیر معمولی بارشوں'کوہ سلیمان کے خطرناک سیلابوں اور بلوچستان کے پانی کی وجہ سے تھا۔


آبی معاملات کے سندھی ماہر جناب نصیر میمن نے لکھا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کے پانی کے مسائل مکمل طور پر حل ہوجائیں گے یا یہ دلیل کہ پچھلے 40سال میں 1200 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہہ کر ضایع ہو گیا ہے اور اس طرح پاکستان کو 750ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے' پانی کی یہ مقدار مانپنے کے لیے کون سا پیمانہ استعمال ہے، کوئی پتہ نہیں ہے گیا ؟

سندھی ماہر کا کہنا تھا کہ جتنا پانی سمندر میں گیا ہے اگر اس کا استعمال فصلوں کے لیے کیا جاتا تو اتنی رقم کی فصل حاصل ہوتی 'یہ اعدادوشمار مبالغہ آمیز ہیں کیونکہ زراعت کی پیداوار کا سارا دار و مدار صرف پانی پر نہیں ہوتا'پانی زراعت کے لوازمات میں ایک اہم عنصر ہے لیکن اس کا کل پیداوار میں حصہ دس فی صد سے زیادہ نہیں بنتا 'زراعت میں مناسب زمین' کسان کی محنت 'بہتربیج' مناسب مقدار میں کھاد 'کیڑے مار ادویات ' مشینری وغیرہ کے علاوہ موسمی تغیرات اور منڈی میں اتار چڑھائو بھی پیداوار کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔

عالمی سطح پر آبی ماہرین نے ایک قانون بنایا ہے کہ '' پانی کی مناسب مقدار کا سمندر میں جانا' ماحولیات کی بقاء کے لیے ضروری ہے'' لیکن سمندر میں جانے والے پانی کو'' ضایع ہونا'' کہا جاتا ہے' لیکن خشک سالی کے دوران 'جب سمندر میں جانے والے پانی کی مقدار کم ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جب سمندر کا پانی اندر آکر زرعی اراضی کو تباہ کرتا ہے'مینگرو (Mangrove)جنگلات کو نقصان پہنچتا ہے 'انڈس ڈیلٹا کے ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے سمندری حیات تباہ ہو جاتی ہے'اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاتا ہے۔

پاکستان کے لیے پریشانی اور فکر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 'افغانستان مختلف ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے' پاکستان کے ساتھ پانی کی حصہ داری کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں' وہ اپنے استعمال کے لیے پانی کے بڑے حصے کا رخ موڑ سکتا ہے 'کچھ اندازوں کے مطابق پاکستان کو15فیصد پانی سے محروم ہونا پڑیگا' جو دریائے کابل کی وجہ سے مل رہا ہے ' کوئی ان حقائق کا ذکر کرنا گوارہ نہیں کرتا۔

سمندر کا پانی اندر آنے کی وجہ سے سندھ کی دو ملین ایکڑ ساحلی اراضی سمندر برد ہوگئی ہے اگر اس اراضی کی کم سے کم قیمت بھی دو لاکھ روپے فی ایکڑ لگائی جائے تو کل نقصان کا اندازہ 4ارب ڈالر بنتا ہے 'موجود اعداد و شمار کے مطابق '50سال قبل تک سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں 6 لاکھ ہیکٹر کے رقبے پر مینگرو کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے 'اب یہ جنگلات سکڑ کر صرف 80ہزارہیکٹر رہ گئے ہیں 'اس طرح سندھ کی ڈیلٹا کو صاف پانی کی کم مقدار کی وجہ سے5لاکھ 20ہزار ہیکٹر مینگرو کے قیمتی جنگلات کا نقصان اٹھانا پڑا'جس رفتار سے ڈیلٹا کے علاقے میں ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے' اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ پانی کی مقدار کم ہے اور اس علاقے کے لیے مزید صاف پانی کی ضرورت ہے۔

پالیسی ڈرافٹ میں درج ہے کہ ''یہ امر یقینی بنایا جائے گا کہ مناسب مقدار میں تازہ پانی دریائوں سے سمندرکے ڈیلٹا میں جائے تاکہ ساحلی علاقوں کا ماحولیاتی سسٹم بحال رہے اور سمندر میںمچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کی افزائش ہو سکے ۔مختلف وجوہات کی بناء پرپاکستان کو مناسب مقدار میں پانی کی دستیابی کے کمی کا سامنا ہے 'پانی کا بحران صرف ذخیرہ کرنے کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر وجوہات بھی شامل ہیں مثلاً آبادی میں اضافہ 'پانی کے استعمال کے غلط طریقے 'فصلوں کا طریقہ کار 'ماحولیات کی تبدیلی اور پانی کے سیکٹر میں بوسیدہ انفرا اسٹرکچر۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کے مسئلے پر ایک مثبت پالیسی بنائی جائے 'اب مناسب ہوگا کہ ہم پانی کے لیے ایک متفقہ پالیسی بنانے کے لیے ان امور کی نشاندہی کریں جن پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے 'پانی کا مسئلہ سیاسی تنازعات اور بداعتمادی کا شکار ہو گیا ہے۔

پانی کی پالیسی بناتے وقت ان تمام نکات کو مدنظر رکھنا ہوگا جن پر تمام متاثرہ فریقین کا اتفاق رائے ضروری ہو مثلاً پانی کے وسائل کی حفاظت' پانی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور آبی صلاحیت کو بڑھانا وغیرہ شامل ہیں'ان امور کا فیصلہ ہونے سے مثبت نتائج کی توقع ہو سکتی ہے۔پاکستان کے پانی اور توانائی کے مسئلے کے حل پر آیندہ روشنی ڈالیں گے۔
Load Next Story