سیاسی اخلاقیات پر مبنی سیاست

ایسے کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی تنقید کو ذاتیات پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بنائینگے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ اخلاقیات کا ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں سیاست اور جمہوریت کا عمل بغیر کسی اخلاقی اصولوں کے چل سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔کیونکہ اخلاقی معیارات سے ہی سیاست اورجمہوریت کی تصویر بنتی ہے۔

لیکن کیونکہ یہاں جو سیاست او رجمہوریت کا کھیل کھیلا جارہا ہے اس کو دیکھ کر عملا ایسا لگتا ہے کہ سیاست سے جڑے اخلاقی اصول ہماری قومی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست او رجمہوریت میں ہمیں سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن سیاست پر اخلاقی برتری کے اصول پس پشت چلے گئے ہیں۔

حال ہی میں لندن میں وفاقی وزیر مریم اورنگ زیب کے ساتھ جو کچھ ہوا اورجس طرح سے بدتمیز لوگوں نے انھیں روک کر نازیبا الفاظ کہے ، اس گھٹیا حرکت کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں اس طرز کے کلچر کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جاسکتی یا نہیں کی جانی چاہیے ۔لیکن یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔

یہ منظرنامہ ظاہر کرتا ہے قومی سیاست میں آگے بڑھ رہی ہے ۔اس کے زمہ دار محض جذباتی سیاسی کارکن نہیں بلکہ اس کے اصل ذمے دار ہمارا سیاسی نظام اور اس کو چلانے والی سیاسی و مذہبی قیادت ہے کیونکہ جو کچھ ہماری سیاسی قیادت خود کررہی ہے اس کا ہی ہمیں عوامی ردعمل کی صورت میں ایسے منفی مناظر کو دیکھنا پڑتا ہے۔

سیاسی قیادتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے حمایت یافتہ سیاسی کارکنوں کا یہ حق اور فرض بھی ہے کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین پر جس حد تک منفی تنقید یا تضحیک کی جاسکتی ہے ، ضرور کریں ۔ لیکن کیونکہ اس وقت پاکستان میں ایک بڑی واضح سیاسی تقسیم ہے اور لوگ اسی تقسیم کی بنیاد پر اپنی رائے بناتے ہیں یا قائم کرتے ہیں۔

اس وقت بھی ایک بڑا طبقہ تحریک انصاف اوران کے حامیوں پر یہ کہہ کر شدید تنقید کرتا ہے کہ وہ گالی کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں اوریہ تنقید ہونی بھی چاہیے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا منفی کھیل محض تحریک انصاف سے جڑا ہوا ہے اورباقی سیاسی جماعتیں ، ان کی قیادت او رکارکن ان تمام معاملات سے بری ہیں ۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ اعتراف کیا جانا چاہیے یہ مسئلہ تمام جماعتوں او رقیادت سمیت کارکنوں کا ہے۔ جو لب ولہجہ ہماری سیاسی قیادت کا ہے وہی لب ولہجہ نیچے سیاسی کارکنوں تک منتقل ہوتا ہے۔


ماضی میں بھٹو مخالفین او ربھٹو حامیوں نے جو کچھ کیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں سوشل میڈیا نہیں تھا او رنہ ہی اس طرح کا الیکٹرانک میڈیا وگرنہ ماضی کا کھیل آج کے کھیل سے مختلف نہیں تھا ۔ طوفان بدتمیزی میں ذاتیات پر مبنی کردار کشی جن میں عورتوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا ہماری سیاست کا خاصہ تھا ۔

عمران خان سمیت کونسی سیاسی جماعت کی قیادت ہے جس نے اپنے ایسے سیاسی کارکنوں کو جوابدہ بنایا یا ان کا احتساب کیا یا ان کو سزادی جو سیاسی تنقید میں ہوش کا دامن چھوڑ کر بدتمیزی پر اتر آتے ہیں ۔ ایک طرف عوامی سطح پر ان پر تنقید کی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کو بلا کر عملاً شاباش دی جاتی ہے تاکہ ان کو زیادہ پزیرائی دی جاسکے۔

کاش کوئی ایسا کمیشن بیٹھے جو آج کے تمام سیاست دانوں کی پہلے اور دوسرے سطح کی قیادت کی تقاریر سنیں او ران کا پوسٹ مارٹم کیا جائے کہ کون کیا کہہ رہا ہے ۔ جب سیاسی قیادت دوسری جماعتوں کی قیادت پر سنگین اخلاق سے گری باتیں کریں گی ، الزامات لگائیں گی یا ان کی ذاتیات پر مبنی سیاست کو موضوع بحث بنایا جائے گا تو اس کا ردعمل آنا بھی فطری امر ہے ۔اس لیے یہ جو سب کچھ ہورہا ہے اس کے ذمے دار سیاست سے جڑے افراد ہیں۔ سیاسی جماعتوںمیں قیاد ت کی کوئی تربیت نہیں ہوتی تو سیاسی کارکنوں پر کیسا الزام لگایا جائے۔

جو ارکان اسمبلی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کے پاس وزراتیں ہیں ان کا سیاسی جلسوں میں لب ولہجہ یا ٹی وی ٹاک شوز میں میں مخالفین کے کپڑے اتارنے کے علاوہ کیا کا م باقی رہ گیا ہے ۔یہ ہی کھیل میڈیا سے جڑے افراد بھی کررہے ہیں جن کا مقصد ہنگامہ پیدا کرنا یا اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی تقسیم میں او رزیادہ شدت پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ہمارا میڈیا تو ایسی ہنگامہ خیزی یا طوفان کی بنیاد پر ریٹنگ سیاست کا بھی شکار ہے او راس کا بھی ہمیں اجتماعی طور پر کوئی حل نکالنا ہوگا۔

سیاسی اور مذہبی قیادتوں سمیت رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کا علاج کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ ایک اجتماعی حکمت عملی یا دانش درکار ہے ۔ ایسے کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی تنقید کو ذاتیات پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بنائیں گے۔ میڈیا سمیت تمام اداروں کو ایسے لوگوں کو ہر صورت جوابدہ بنانا ہوگا جو سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔

ہمارے کلچر میں کسی کی تضحیک کرنا یا ان پر جھوٹا الزام لگانا یا ان کی کردار کشی خاص طو رپر جس انداز میں عورتوں پر کی جاتی ہے وہ قومی مزاج بنتا جارہا ہے ۔نوجوان نسل کو دی جانے والی تعلیم میں تربیت کا عمل بہت دور کہیں کھوگیا ہے۔ مجموعی طور پر ہمیں اس پورے نظام کو جو اخلاقیات کے برعکس کھڑا ہے اس کو ٹھیک کرنا ہے تاکہ ملک اچھی اور صاف ستھری سیاست کی طرف بڑھ سکے۔
Load Next Story