فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی

ہمارے ملک کے اندر ایک مخصوص سوچ اسٹبلشمنٹ کو آگے لے کر نکلی کہ اس اٹھارھویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے

Jvqazi@gmail.com

بڑی دیرکی مہرباں آتے آتے۔ سنا ہے فوج اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی،ایسی بات ہمارے جنرل اشفاق پرویزکیانی نے بھی کی تھی، جب وہ فوج کے سربراہ بنے تھے، غالبا بے نظیرکی شہادت کے فوری بعد ، لیکن اس بار جس انداز میں ہمارے جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن میں کی ہے زمینی حقائق دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ یہ پالیسی بیان ہے۔

اس بیان سے جو ٹھوس چیز واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ملک واپس اسی سمت یا پالیسی پر لوٹ آیا ہے جسے سول ملٹری تعلقات کا توازن کہا جائے گا یا دوسرے الفاظ میں اسے Quasi Democracy کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جسے لنگڑی لولی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔ یقیننا ہماری جمہوریت ایسی جگہ نہیں پہنچی جہاں ہندوستان یا بنگلہ دیش ہے، لیکن یہ سفر اگر بغیرکسی رکاوٹ جاری رہا تو یہ منزل بھی آجائے گی۔

ہمارے خان صاحب کا بھی شکریہ کہ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ سبق بہت اچھی طرح پڑھا دیا کہ وہ خان صاحب کا انتخاب کرکے یا دوسرے الفاظ میں ہائبرڈ نظام کو متعارف کر کے بہت بڑی غلطی کر بیٹھے۔ اتنی سنگین غلطی کہ جان کے لالے پڑگئے۔ سانحہ ڈھاکا ہونے سے بال بال بچ گئے ، لیکن اس بار یہ بیماری ہمارے معیشت کوکچھ ایسے لگی، جس طرح سوویت یونین پورے کا پورا بیٹھ گیا تھا۔

دراصل ہمارے 75 سال کی تاریخ اسی حقیقت کا تسلسل ہے۔ ہم نے اقتدار پہلے دن سے عوام کے حقیقی نمایندوں کے حوالے نہیں کیا۔ شہید سہروردی اور مشرقی پاکستان کی مسلم لیگ کو پارٹی سے نکال کر باہرکیا۔ انھوں نے جاکے عوامی مسلم لیگ بنائی جو آگے جا کر عوامی لیگ بنی۔ جب شہید سہروردی کا اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ ہوا تو اس عوامی لیگ کے کوکھ سے نکلتی ہے نیشنل عوامی پارٹی۔ ہمارے لیاقت علی خان ایک جماعتی پارٹی کی حکومت (ون پارٹی رول) کے چکر میں تھے۔ مارے گئے کیونکہ اتنی بڑی بات انھوں نے کہہ تو دی مگر عوامی طاقت ان کے پاس نہ تھی۔

یہ سیاسی قتل تھا جو ویکیوم پیدا ہوا، وہ گورنر غلام محمد نے جا کے بھرا۔ یہاں بنتی ہے اسٹبلشمنٹ کی ایک شکل ۔ ایک مخصوص طبقہ اور جنرل ایوب خان۔ یہ تھا دراصل سول اور ملٹری افسر شاہی کا گٹھ جوڑ اور ساتھ ساتھ سرد جنگ کا بین الاقوامی کھلاڑی یعنی امریکا۔ وزیر اعظم آتے اور جاتے رہے۔ کوئی بھی ایک سال سے زیادہ نہ رہا اور ادھر نہرو تھے جو پورے سترہ سال وزیر اعظم رہے۔ ہم انکاری تھے مقامی ثقافت کے، زبانوں کے ، تاریخ کے۔ ہم نے ایک مخصوص بیانیہ دیا جو بلآخر 1971کو جان لیوا ثابت ہوا۔

پاکستان کی واحد جمہوریت جو Quasi Democracy یا لنگڑی لولی جمہوریت نہ تھی جو دراصل Non Diluted جمہوریت تھی، وہ تھی ذوالفقار علی بھٹو والی جمہوریت جس کا ایک ثمر اب بھی ہمیں بچائے بیٹھا ہے وہ ہے اس اسمبلی کا دیا ہوا 1973کا آئین۔


ذوالفقارعلی بھٹو ملک کے پہلے مضبوط اور پاپولر وزیراعظم تھے، وہ سب کو بدنصیبی سے ساتھ چلا نہ سکے، ان کو جو بیانیہ ملا تھا، اور جس بیانیے پر پلے بڑھے تھے وہ خود آمریت والی سوچ کا شکار ہوئے ، دوسرا یہ کہ وہ ان وڈیروں ،گماشتہ شرفا طبقے کے کاندھوں پر بیٹھ گئے ، ان کو تیسری دنیا کا لیڈر بننے کا بڑا شوق تھا۔ بھٹو غلط کھیل گئے۔ بھٹوکو دراصل امریکا سے ٹکر نہیں لینی تھی۔ اتنا over confident ہونے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ایک سازش کے تحت ان کا تختہ الٹا گیا اور مارے بھی گئے۔ یہ تھا سرد جنگ والا زمانہ اور پاکستان کا فرنٹ لائن والا کردار جہاں پر جمہوریت ممنوع تھی۔

پھر ہم آتے ہیں جب بے نظیرکو اقتدار ملتا ہے۔ وہ لے کے آئی تھیں سول ملٹری توازن کا خیال مگر اس زمانے میں جنرل ضیاء الحق والی سوچ کا تسلسل تھا، فوجی قیادت میں۔ افغانستان میں امریکی مداخلت نے اسٹبلشمنٹ کو بہت مضبوط کیا۔ آرٹیکل 58(2)(b) کی تلوار لٹکتی رہی۔ کسی بھی جمہوری دور نے پانچ سال مکمل نہیں کیے۔ پھر کھلی لاٹری جنرل مشرف کی، نواز شریف غلط کھیل گئے۔ افغانستان ایک بار پھر ایک نئی نوید لے آیا۔ پہلے مجاہدین پالے اور پھر ان کو مارنے کے لیے ہمیں کام ملا۔

ہم در اصل کرائے کے گوریلے تھے جو دراصل اپنی جغرافیائی تناظر میں فٹ بال کی مانند بن گئے، انٹرنیشنل طاقتوں نے ہمیں خوب کھیلا اور یہاں مخصوص طبقہ مزے لیتا رہا۔ اس لیے کہ یہاں جمہوریت پنپ نہ سکی۔ عوامی لیڈر ملکی مفادات پر سودے نہیں کرتے، یہ کام آمرکرتے ہیں، وہ چاہے جنرل ایوب تھے، یحیٰ تھے، جنرل ضیاء تھے یا جنرل مشرف گریٹ گیم میں پاکستان میں جمہوریت ثانوی ٹھہری۔ پھر اس بار ہماری بربادی کا نیا سامان بنا ، ہمارے اوپر بیلینس آف پیمنٹ کے حوالے سے ، ہماری معیشت کے حوالے سے۔

ہماری سوچ کہ ہم نظریاتی ریاست ہیں۔ ہم نے لوگوں میں انوسمنٹ نہیں کی، معیار زندگی ان کا بلند نہیں کیا۔ ہمارے غیر ترقیاتی خرچے حد سے باہر چلے گئے اور ترقیاتی خرچے بتدریج کم ہوتے گئے۔ اشرافیہ کی اقربا پروری ،کرپشن پروان چڑھتی گئی لیکن ساتھ ساتھ ایک اور بہترکام ہوا وہ بھی اس لیے کہ جنرل مشرف اورآمریت کو شکست ہوئی، اس لیے ہوا کہ 1971 کے بعد جو دو سب سے بڑے سانحے ہوئے وہ تھا، ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکا قتل۔ اس کے بعد اٹھارھویں ترمیم سے جمود ٹوٹا۔

کیری لوگر بل آیا، اٹھارھویں ترمیم آئی جس میں ایک طرف امریکا نے توبہ کی ۔ انھوں نے ستر سال پرانی اپنی پالیسی میں تبدیلی لائی اور دوسری طرف ہماری پارلیمان نے 1973 کے آئین میں جو ابہام تھے جو جنرل ضیاء الحق نے یا جنرل مشرف نے بگاڑکیا تھا، اس کو درست کیا، وفاق اور مضبوط ہوا اٹھارھویں ترمیم لائے۔

ہمارے ملک کے اندر ایک مخصوص سوچ اسٹبلشمنٹ کو آگے لے کر نکلی کہ اس اٹھارھویں ترمیم کو رول بیک کیا جائے۔ انھوں نے عمران خان کی پرورش کی ، ہائبرڈ نظام بنایا۔ ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر چین ایک بڑی طاقت بن کے ابھرا۔ انھوں نے اپنا اثر رسوخ پوری دنیا میں بڑھانا چاہا ، وہ ہمارے پرانے دوست بھی تھے۔ سی پیک بہت اچھا لیکن تھا یہ قرض۔ جس طرح وہ سری لنکا کو لے کے اڑا یا جس طرح وہ افریقہ سے لے کے بنگلہ دیش کے لیے قرضوں کے ادائیگی کے لیے مسئلہ بنا ہمارے قرضے بہت بڑھ گئے جو ہم نے چین سے لیے تھے۔ ہمارا چین کے قریب جانا یا خود امریکا کو اچھا نہ لگا۔ ہم ان دو طاقتوں کے بیچ سرد جنگ میں فٹبال کی حیثیت لے بیٹھے۔

دنیا میں پھر سے توڑ پھوڑ شروع ہوچکی ہے۔ ہمیں اس ماحول میں انتہائی مضبوط سول ملٹری تعلقات چاہئیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہائبرڈ نظام نے ایک طرف ملک کی معیشت کو تباہ کیا ، ساتھ ساتھ ہماری خارجہ پالیسی انتہائی مبہم رہی۔یقیننا جو بات جنرل قمرجاوید باجوہ نے کی، وہ لائق تحسین ہے، لیکن یہ سب ایک رات میں تو ممکن نہیں۔ یہ پالیسی ہے اس کا اثر آہستہ آہستہ جڑ پکڑے گا اور اس کی ذمے داری جمہوری قوتوں پر بھی ہے کہ وہ پر فارم کریں ورنہ پھر کوئی جنرل مشرف اوور ایمبیشیس شخص اس کو اور ساتھ ساتھ انا پرست اور ضدی سول قیادت کہیں دوبارہ نہ سسٹم ڈی ریل کر بیٹھے۔
Load Next Story