امرتا پریتم کی بھوک ہڑتال

یہاں امرتا کا اشارہ ساحر لدھیانوی کی طرف ہے۔ ساحر اور امرتا اردو ادب کی ایک خوبصورت اور انوکھی داستان ہیں

zahedahina@gmail.com

امرتا پریتم ایک صدی قبل پیدا ہوئیں۔ وہ بلاشبہ بیسویں صدی کی عظیم شاعر اور ادیب تھیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے مایہ ناز تاریخی ، تہذیبی اور ادبی اثاثوں کے بارے میں بے خبر ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ گاہے بہ گاہے ان لوگوں کی یادیں تازہ کی جائیں تاکہ نوجوان نسل ان کے نام اور کام کے بارے میں کچھ جان سکے۔

امرتا پنجابی میں لکھتی تھیں اور ان کی کتابیں برصغیر کی اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوجاتی تھیں۔ ان کی کہانیاں شعر اور ناول روسی، سرب، انگریزی، البانوی، جاپانی اور ڈینش میں ترجمہ ہوئے۔ برصغیر کی زبانوں میں ہونے والے ترجموں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ '' میرے اپنے ملک میں بھی دوسری زبانوں والوں نے مجھے بہت عزت دی ہے۔

اردو والوں نے میری لگ بھگ 15 کتابیں ترجمہ کر کے شایع کی ہیں۔ تین کنٹر والوں نے ، دو گجراتی ، دو ملیالم ، دو مراٹھی والوں نے اور ہندی والوں نے تو میری تمام کتابیں ترجمہ کر ڈالی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ معاشی آزادی مجھے ہندی سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ منتخب تحریروں کا ایک بڑا مجموعہ میری اپنی زبان میں نہیں لیکن ہندی میں موجود ہے۔''

یہ بات انھوں نے اپنی خود نوشت '' رسیدی ٹکٹ '' میں لکھی ہے۔ اس کے بعد بھی ان کی متعدد کتابیں اور خود '' رسیدی ٹکٹ '' اردو میں ترجمہ ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں چھپی۔ ہمارے یہاں کے بہت سے پڑھنے والے تو انھیں اردو کی ہی ادیب سمجھتے تھے۔ غرض ان کا قلم برصغیر اور برصغیر سے باہر دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کو فتح کرتا رہا۔

وہ برصغیر کی ان چند خوش نصیب ادیبوں میں سے ہیں، جن کا سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں والہانہ استقبال ہوا اور لوگوں نے قطار بنا کر ان کی کتابوں اور تصویروں پر ان کے آٹو گراف لیے۔ انھیں ڈی لٹ کی کئی اعزازی ڈگریاں دی گئیں، پدم شری، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، فرانس اور جارجیا سے بڑے ادبی ایوارڈ ملے ، وہ راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔

1919 امرتا کی پیدائش کا سال ہے۔ یہ وہ سال ہے جب اپنے سیاسی اور جمہوری حقوق کی مانگ کے لیے جلیانوالہ باغ میں اکھٹے ہونے والے 30, 25 ہزار پُر امن نہتے شہریوں پر بریگیڈیئر ڈائر کے سپاہیوں نے گولیوں کا مینہ برسا دیا تھا۔ یہ مینہ اس وقت تک برستا رہا تھا جب تک سپاہیوں کے پاس میگزین ختم نہیں ہوا تھا۔ 1919ء کا وہ دن ہماری تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے جب بچوں ، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ سیکڑوں گولیوں کا شکار ہوئے اور سیکڑوں روندے گئے۔

امرتا کی پیدائش کے دن اور برطانوی راج کے خلاف پنجاب کے سیاسی غصے اور بغاوت کے ابال کا زمانہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ حق اور انصاف ، کی جستجو میں اپنا رشتہ بغاوت سے جوڑنا امرتا نے شاید ان ہی دنوں میں سیکھ لیا تھا ، تب ہی باپ سے بے پناہ محبت کے باوجود سولہ برس کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ '' ٹھنڈیاں کرناں '' شایع ہوا تو اس میں کوئی ایک نظم بھی ایسی نہ تھی جو ان کے چہیتے باپ کو خوش کرسکے۔


گجرانوالہ میں پیدا ہونے والی یہ حساس اور پور پور شاعر لڑکی ابھی گیارہ برس کی تھی کہ ماں سے ابدی جدائی ہوئی اور درد کے بھنور نے اسے اپنے اندر کھینچ لیا۔ باپ شاعر تھے ، کتابوں کے رسیا تھے ، ان ہی نے امرتا کو ردیف قافیے کو برتنے اور شعر کہنے کے سلیقے سے آشنا کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ امرتا کی نظمیں مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی ہوں اور امرتا کے سینے میں آزادی اور بغاوت کا پرندہ اپنے پر مارتا ، بیٹی کو باپ سے حد درجہ محبت تھی ، وہ اسے خوش کرنے کے لیے مذہبی نظمیں لکھتی اور پھر چپکے چپکے وہ شعر بھی کہتی جن کی حدت سے اس کا سارا وجود تپ اٹھتا۔ اس اندرونی کشمکش نے اسے کچھ اور بھی بے باک اور اس کی شاعری کو کچھ اور بھی تابناک کیا۔

بن ماں کی بچی باپ اور نانی کے سائے میں پل رہی تھی ، اس کے اندر شعر ہلچل مچائے رکھتے اور باہر گرو گرنتھ صاحب کے شبد گونجتے۔ سماج سے، سماجی اقدار سے بغاوت کا اکھوا ذہن کی زمین میں پرورش پا رہا تھا ، بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ اس اکھوے کے سر اٹھانے کا سبب رسوئی گھر کے چند برتن بن جائیں گے۔

باپ اپنے مذہب پر قائم و دائم ضرور تھے لیکن ان کی دوستیاں مسلمانوں سے بھی تھیں، ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا تھا ، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا تھا۔ امرتا اپنے باپ کے ان دوستوں کو 'چاچا ' کہتی۔ وہ اسے پیار کرتے، اس کے لیے گڑ کی گزک اور تل کے لڈو لاتے، ان سے امرتا کو عید، ہولی، دیوالی پر تہواری ملتی۔ ایک روز اچانک امرتا کو یہ محسوس ہوا کہ اس کے چہیتے 'چاچا ' آتے ہیں تو انھیں لسّی، شربت یا چائے ان برتنوں میں نہیں دی جاتی جو سب کے استعمال میں رہتے ہیں۔ نانی پرچھتی سے ان کے لیے گلاس اور دوسرے برتن اترواتی ہے اور ان کے جانے کے بعد وہ برتن دُھل کر واپس پرچھتی پر رکھ دیے جاتے ہیں۔

بارہ برس کی امرتا کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی تو اس نے نانی سے اس بارے میں سوال کیا۔ جواب ملا کہ '' اس کے چاچائوں کا دھرم ، ان کے دھرم سے الگ ہے اس لیے ان کے برتن بھی الگ ہیں۔'' یہ جواب امرتا کو بہت برا لگا، اُس نے اپنے برتن اٹھائے اور اپنے چاچائوں کے برتنوں کے ساتھ پرچھتی پر رکھ دیے۔ نانی اور نواسی میں اس بات پر جھگڑا ہوا۔ نانی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن امرتا نے کچھ بھی سننے اور سمجھنے سے انکار کردیا۔ ننھی امرتا نے پہلا علم بغاوت بلند کیا اور کھانے پینے سے انکار کردیا۔

نانی نے بھلا ایسی بھوک ہڑتال کب سنی یا دیکھی تھی۔ اُس نے امرتا کو بہلایا ، پھُسلایا ، پر چایا لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ امرتا تو بہت جلد زمانے سے ٹکر لینے والی ہے۔ بات آخر کہاں تک چھپتی، باپ کو معلوم ہوا تو وہ حیران رہ گئے۔ انھیں بھلا کیا معلوم تھا کہ رسوئی گھر میں کس قسم کی فضا ہے اور ان کے دوستوں کے استعمال میں آنے والے برتن، گھر والوں کے برتنوں سے الگ رکھے جاتے ہیں۔

اس واقعے کے بارے میں امرتا نے لکھا ہے کہ '' والد کو پتہ چلا تو میری بغاوت کامیاب ہوگئی۔ پھر نہ کوئی برتن ہندو رہا اور نہ مسلمان۔ اس گھڑی میری نانی بھلا کہاں جانتی تھیں کہ بری ہو کر میں زندگی کے کئی برس جس شخص کے عشق میں گزاروں گی وہ اُسی مذہب کا ہوگا جس مذہب کے لوگوں کے لیے گھر کے برتن بھی اچھوت قرار دیے جاتے تھے۔ یہ اسی شخص کا چہرہ تھا جو میرے اندر کے انسان کو اتنا فراخ دل بنا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت ، تقسیم کے ہاتھوں تباہ ہوکر بھی، دونوں طرف کے ظلم کسی رعایت یا جانبداری کے بغیر تحریر کرسکی۔ یہ چہرہ نہ دیکھا ہوتا تو میرے ناول ''پنجر'' کی جانے کیا تقدیر ہوتی۔''

یہاں امرتا کا اشارہ ساحر لدھیانوی کی طرف ہے۔ ساحر اور امرتا اردو ادب کی ایک خوبصورت اور انوکھی داستان ہیں ، ایسی داستان جو ادھوری ہی رہی۔ ان کے ناول '' پنجر '' پر ایک یاد گار فلم بھی بن چکی ہے جو پاکستان میں بھی بہت ذوق شوق سے دیکھی گئی اور آج بھی جس کا ذکر ہوتا ہے۔ امرتا کی شاعری اور ان کے ناول پنجاب کی ادبی فضا میں ہل چل کا سبب بنے۔ اسی زمانے میں ان کی شادی ہوئی اور پھر 1947ء کا خونیں سال برصغیر کے کروڑوں انسانوں پر قہر بن کر ٹوٹا۔ برطانوی راج سے آزادی کے شادیانے بجنے چاہیے تھے لیکن فرقہ وارانہ فسادات نے آزادی کے سورج کو گہنا کر رکھ دیا۔ (جاری ہے)
Load Next Story