الزامات کی سیاست
بالاتروں نے جب نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا تو عمران خان ان سے بھی ناراض ہوگئے اور انھوں نے کھلے عام الزام تراشی شروع کردی
عمران خان نے اقتدار سے محرومی سے قبل وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنے ہی مقرر کیے گئے چیف الیکشن کمشنر پر الزام تراشی شروع کی تھی اور ان پر جانبداری کا الزام لگا کر ان سے ازخود ہی مستعفی ہو جانے کا مطالبہ شروع کر رکھا تھا اور اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کے چیف الیکشن کمشنر پر الزامات نہ صرف بہت بڑھ گئے ہیں بلکہ ممنوعہ فنڈنگ کے کیس کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اب سابق وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمشنر کے متعلق انتہائی قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے ہیں جس کے جواب میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے تردید کی ہے اور ان کے الزامات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔
اپنے ردعمل میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ شفاف الیکشن جب بھی ہوئے اپنی ذمے داری نبھائیں گے اور کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنی ذمے داریاں آئین اور قانون کے مطابق پوری کرتے ہوئے فیصلے کریں گے۔
حال ہی میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو مدینہ کے بعد لندن میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی نعرے بازی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملک میں کئی سالوں سے اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دینے اور بعد میں صلح ہو جانے کے بعد حکومت میں شریک کرنے کا کارنامہ بھی عمران خان ہی کا ہے۔
عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دینے کی عدالت اقتدار ملنے سے قبل جو سجائی تھی اس عمرانی عدالت میں عمران خان کے فتوے کے بعد ملک کی کسی عدالت میں نہ کسی اپیل کی گنجائش ہے اور نہ ہی ملک میں کسی نے عمران خان سے پوچھا کہ وہ کس حیثیت میں سیاستدانوں کو چور ڈاکو قرار دیتے آ رہے ہیں اور ان کی زبانی عدالت کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ ملک میں اپنی عدالت کیوں کر لگائے بیٹھے ہیں جب کہ یہ اختیار صرف ملکی عدالتوں کا ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر احسن اقبال کو بھی موٹروے پر ایک ریستوران میں پی ٹی آئی کے ایک حامی خاندان کی طرف سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اور احسن اقبال نے بھی مریم اورنگزیب کی طرح نعرے بازی کرنے والوں کو اپنے استدلال سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تھی اور وہ خاندان شاید حقائق سمجھ گیا تھا اور اس نے بعد میں احسن اقبال کے گھر جا کر اپنے جارحانہ رویے پر معذرت بھی کی تھی جو عمران خان کو پسند نہیں آئی تھی کیونکہ عمران خان نے احسن اقبال کو معاف نہیں کیا تھا۔
عمران خان نے اقتدار سے قبل ایم کیو ایم کو نہ جانے کیا کچھ کہا تھا مگر جب ایم کیو ایم عمران خان کی حکومت میں شامل ہوئی تو عمران خان نے ایم کیو ایم کو پاک صاف اور اس کے رہنماؤں کو نفیس قرار دیا تھا مگر پونے چار سال بعد جب ایم کیو ایم نے عمران خان کا ساتھ چھوڑا تو وہ پھر پی ٹی آئی والوں کے قریب دوبارہ برے بن چکے ہیں۔
عمران خان نے مخالف سیاستدانوں کو ملک کا سب سے بڑا چور ڈاکو، ملک لوٹنے والا کہا اور وہ کسی مخالف سیاستدان کو بہتر اور کرپشن سے پاک تک ماننے کو تیار نہیں ۔اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان کا ٹارگٹ ملک کا سب سے مضبوط منظم ادارہ ہے جس سے انھیں شکایت ہے کہ اس نے میری اطلاع کے باوجود میری حکومت بچانے میں مدد نہیں کی تھی کیونکہ مذکورہ ادارے کے بڑوں نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی غیر سیاسی رہنے اور ملکی سیاسی صورت حال میں نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی تحسین ملک بھر میں ہوئی مگر عمران خان نے بالاتروں کے اس اچھے فیصلے کو پسند کرنے نہیں کیا تھا اور یہ بھی اقرار کیا تھا کہ میری حکومت ان ہی کی وجہ سے قائم تھی اور حکومت کی ہر ضرورت پر انھوں نے بھرپور مدد کی تھی جس پر اس وقت کی اپوزیشن بالاتروں سے ناراض تھی اور ہر جمہوری دور کی طرح سیاست سے دور اور غیر جانبداری کا مطالبہ کرتی تھی اور الزام لگاتی تھی کہ آر ٹی ایس کے ذریعے عمران خان کو اقتدار دلایا گیا تھا۔
بالاتروں نے جب نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا تو عمران خان ان سے بھی ناراض ہو گئے اور انھوں نے کھلے عام الزام تراشی شروع کردی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا تو وہ ان سے بہت خوش تھے مگر جب موجودہ عدالتیں تحریک عدم اعتماد کے روز رات کو کھلیں تو عمران خان ان سے بھی ناراض ہوگئے حالانکہ جولائی میں عدالتی فیصلے نے پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت قائم کرا دی تھی۔
عمران خان ماضی میں پولیس افسروں کو دھمکیاں دیتے رہے اور پھر انھوں نے خاتون جج کو بھی کھلے عام دھمکی دی تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایکشن لیا۔ کسی عدالت نے عمران خان کے الزامات اور بے سروپا بیانات پر کبھی ایکشن نہیں لیا جس پر وہ بڑھتے چلے گئے اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پی ٹی آئی کے سوا کوئی سیاسی پارٹی ملک کا کوئی بھی ادارہ عمران خان سے محفوظ نہیں ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی سیاسی حالت پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف بھی مظاہرہ کیا ہے۔
لگتا ہے ملک میں سیاستدان اور ریاستی ادارے عمران خان کے بے سر وپا الزامات سے محفوظ نہیں رہے ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی کو تو اس کا سدباب کرنا چاہیے ورنہ ملک میں کی جانے والی بے عزتیاں خونی صورت حال اختیار نہ کرلیں۔