قوانین میں خامیاں دور کرنے کیلیے الگ ادارہ بننا چاہیے بابراعوان

پراسیکیوشن محکمہ خزانے کا زیاں ہے، شوکت جاوید، سہولیات ناکافی ہیں، علی اشفاق


Monitoring Desk March 23, 2014
حکومت مراعات بڑھائے، پراسیکیوٹرجنرل اسد جوادکی تکرار میں عمران خان سے گفتگو فوٹو: ایکسپریس/فائل

سینیٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ پاکستان میں قانون سے متعلق عوام کو آگاہی ہے اور نہ ہی دی جارہی ہے، انھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کس جگہ سے کس طرح انصاف حاصل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس نیوزکے پروگرام تکرار میں میزبان عمران خان سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ملک میں نئے قوانین بنانے کی کوئی ضرورت نہیں، ایساادارہ بنانا چاہیے جو قانون میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے درست کرے، درمیانہ طبقہ تو کہیں نہ کہیں اپنے مسائل کا حل تلاش کرلیتا ہے لیکن بہت غریب اور بہت امیر قانونی پیچیدگیوں میں الجھ جاتے ہیں، کچھ محکموں میں زیادہ کاریگر لوگ موجود ہیں۔ پراسیکیوٹرجنرل پنجاب اسد جواد گھرال نے کہا کہ پراسیکیوٹر کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے، پراسیکیوٹر کو 17 ویں گریڈ کی مراعات دی جاتی ہیں، اتنی رقم وکیل ایک دن میں کمالیتا ہے۔

پراسیکیوٹر تحقیقات نہیں کرتا، تحقیقات تفتیش کار ہی کرتا ہے، آج تک کسی پراسیکیوٹر کی کرپشن کی شکایت نہیں ملی، حکومت ان کی حوصلہ افزائی کے اقدام کرے۔ سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید نے کہا کہ سارے قانون کابیڑہ غرق کردیا گیا ہے، پہلے پراسیکیوشن خود پولیس کرتی تھی، 2002 میں پراسیکیوشن کا نیا محکمہ بنادیا گیا، ایڈووکیٹ جنرل کے پرانے سسٹم کے تحت کام ہونا چاہیے، پراسیکیوشن کے محکمے پر بھاری رقم ضائع کی جارہی ہے، بہت سے دہشتگرد صرف اس وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں کہ ایف آئی آر میں ان کا نام نہیں تھا حالانکہ یہ کس قانون میں لکھا ہے ایف آئی آر میں نام درج کرنا ضروری ہے۔ سینئر وکیل علی اشفاق نے کہا کہ پراسیکیوشن کے ادارے کے دعوے بے بنیاد ہیں، ایف آئی آرکا اندراج ہر شخص کا بنیادی حق ہے، ہمارے ہاں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ مفت کا وکیل بھی ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔