سیاسی دباؤ کی تپش بورڈکے ایوانوں میں پہنچ گئی
ہر کوئی چیئرمین کے عہدے کو ہدف بنائے ہوئے ہے، مجھے پرواہ نہیں،رمیزراجہ
سیاسی دباؤ کی تپش پی سی بی کے ایوانوں میں محسوس ہونے لگی۔
اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ چیئرمین پی سی بی بھی بدلنے کی روایت رہی ہے، ایک انٹرویو میں ٹرم پوری کرنے کے امکانات پر رمیزراجہ نے کہا کہ یہ چیزیں اہم ہی نہیں ہیں،پتہ نہیں لوگوں کو اس پوزیشن کا اتنا کیوں خیال ہے،میں سجھتا ہوں کہ جو میں کرگیا شاید کوئی ایسی کارکردگی نہ دہرا سکے، میں اس کی ضمانت دے سکتا ہوں۔
چیئرمین بورڈ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس آپشنز بے انتہا ہیں، ان کا کام یہی ہے کہ کرکٹ کی سمت درست کریں،قطع نظر اس بات کے کہ کیا پریشر سامنے آتے ہیں،ان میں مصنوعی اور کچھ پریشر دباؤ ہوتے ہیں، ہر کوئی اس عہدے کو ہدف بنائے ہوئے ہے، مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ میرے ساتھ پرستار اورمیرا پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری ٹیم اور اس کی پرفارمنس ہے،یہ ٹیم اچھا کرے گی تو میں یہاں رہوں گا،نہیں کرے گی تو میں یہاں کیسے رہوں گا،ٹیم ہارتی ہے تو میں ہارتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ یہ میری ناکامی ہے،میں مطمئن انسان ہوں، پریشر لینے والا نہیں ہوں۔
حکومت جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے کال وصول نہ کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اب ہم کافی عرصے سے رابطے میں ہیں،اس وقت شاید وہ بھی محتاط تھے اور میں بھی تھا۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے سوال پر رمیز راجہ نے کہا کہ اداروں کو اپنی ٹیمیں بنانا ہیں،جب وہ ایسا کرلیں گے تو بیٹھ کر ان سے بات کریں گے،اس وقت جو سسٹم چل رہا ہے اس کے نتائج سامنے آنے لگے،اگر نوکری اور ذرائع معاش کے مواقع سامنے آتے ہیں تو ان کو روکنا نہیں چاہیے۔
ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی تعداد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ تو اداروں کو دیکھنا ہے کہ کتنی ٹیمیں بنانی ہیں۔
اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ چیئرمین پی سی بی بھی بدلنے کی روایت رہی ہے، ایک انٹرویو میں ٹرم پوری کرنے کے امکانات پر رمیزراجہ نے کہا کہ یہ چیزیں اہم ہی نہیں ہیں،پتہ نہیں لوگوں کو اس پوزیشن کا اتنا کیوں خیال ہے،میں سجھتا ہوں کہ جو میں کرگیا شاید کوئی ایسی کارکردگی نہ دہرا سکے، میں اس کی ضمانت دے سکتا ہوں۔
چیئرمین بورڈ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس آپشنز بے انتہا ہیں، ان کا کام یہی ہے کہ کرکٹ کی سمت درست کریں،قطع نظر اس بات کے کہ کیا پریشر سامنے آتے ہیں،ان میں مصنوعی اور کچھ پریشر دباؤ ہوتے ہیں، ہر کوئی اس عہدے کو ہدف بنائے ہوئے ہے، مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ میرے ساتھ پرستار اورمیرا پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری ٹیم اور اس کی پرفارمنس ہے،یہ ٹیم اچھا کرے گی تو میں یہاں رہوں گا،نہیں کرے گی تو میں یہاں کیسے رہوں گا،ٹیم ہارتی ہے تو میں ہارتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ یہ میری ناکامی ہے،میں مطمئن انسان ہوں، پریشر لینے والا نہیں ہوں۔
حکومت جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے کال وصول نہ کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اب ہم کافی عرصے سے رابطے میں ہیں،اس وقت شاید وہ بھی محتاط تھے اور میں بھی تھا۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے سوال پر رمیز راجہ نے کہا کہ اداروں کو اپنی ٹیمیں بنانا ہیں،جب وہ ایسا کرلیں گے تو بیٹھ کر ان سے بات کریں گے،اس وقت جو سسٹم چل رہا ہے اس کے نتائج سامنے آنے لگے،اگر نوکری اور ذرائع معاش کے مواقع سامنے آتے ہیں تو ان کو روکنا نہیں چاہیے۔
ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی تعداد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ تو اداروں کو دیکھنا ہے کہ کتنی ٹیمیں بنانی ہیں۔