دنیابھرکی طرح پاکستان میں بھی11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جاتاہے

بیورو میں مقیم بچوں میں 90 فیصد لڑکیاں ہیں، چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو

فوٹو فائل

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، خاندان سے متعلق کوئی علم نہیں، بس اتنا یاد ہے ماں نے مجھے ہمسایوں کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ شام تک واپس آجائے گی اور آج تک نہیں لوٹی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق دنیا بھر کی طرح پاکستان میں آج 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اورانہیں صحت، تعلیم، روزگار سمیت زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے جاتے ہیں،لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورومیں مقیم لاوارث اوربے سہارابچوں میں نوے فیصد لڑکیاں ہیں جو زندگی کی راہ میں آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

چودہ سالہ فرح کا تعلق لاہور سے ہے مگر وہ گزشتہ 7 برسوں سے لاہور کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں مقیم ہے، آنکھوں میں بہتر مستقبل کے سپنے سجائے وہ اپنی ایک بہن کے ساتھ یہاں زندگی گزار رہی ہیں۔

فرح نے نمائندہ ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی والدہ فوت ہوچکی ہیں جبکہ وہ اپنے والد سے متعلق کچھ نہیں جانتی ہیں۔ ان کے ماموں نے ہی ان دونوں بہنوں کو یہاں چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں داخل کروایا جبکہ ان کے دوبھائی ماموں کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے بھائی اور ماموں ہر ہفتے انہیں ملنے آتے ہیں۔ فرح نے مزید کہا کہ وہ پڑھ لکھ کر سائنسدان بننا چاہتی ہیں۔


چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں مقیم ایک اور 15 سالہ مہوش نے ایکسپریس کو بتایا کہ اسے اپنے خاندان بارے کوئی علم نہیں ہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ اس کی سگی ماں نے اسے ہمسایوں کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شام تک واپس آجائے گی لیکن اتنے سال بیت گئے ماں واپس نہیں آئی، وہ آج بھی اپنی ماں کی راہ دیکھتی ہے۔ مہوش نے بتایا کہ وہ سکول جاتی تھی لیکن جب میری ماں واپس نہیں آئی توہمسایوں نے سکول بھیجنا بندکردیا اورمجھے یہاں چھوڑ گئے۔اب میں یہاں پڑھ رہی ہوں۔اس سال فرسٹ ائیرمیں داخلہ لیا ہے۔

معاشی تنگدستی، والدین میں علیحدگی اور والدین کی وفات سمیت کئی حالات اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر خاندان اور رشتہ دار لڑکیوں کو قبول نہیں کرتے اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کا کہنا تھا کہ بیورو میں مقیم بچوں میں 90 فیصد لڑکیاں ہیں۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے سارہ احمد نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بعض لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بیٹے ان کے بڑھاپے اورخاندان کا سہارابنیں گے جبکہ بیٹیاں بوجھ ہیں۔کئی لوگ بیٹیوں کو پیداہوتے ہی ہسپتالوں میں چھوڑجاتے ہیں، کوئی ایدھی کے جھولے میں میں ڈال دیتا ہے توکوئی کسی سڑک اورپارک میں پھینک جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں بیورومیں کئی بچیاں ایسی ہیں جنہیں ان کے رشتہ دار بیوروکے باہرچھوڑکرچکے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورومیں مقیم بچوں میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔چائلڈپروٹیکشن بیورومیں ان لاوارث اور بے سہارا بچیوں کو خوراک ،رہائش اورتعلیم کے ساتھ ہنری مندی بھی سکھائی جاتی ہے
Load Next Story