سوات میں بدامنی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پُرامن طور پر منتشر
مظاہرین نے ڈرائیور کی لاش کے ساتھ 36 گھنٹے سے زائد وقت تک احتجاج کیا، جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوئے
خیبرپختونخوا کی وادی سوات میں اسکول وین ڈرائیور کی موت اور طالب علموں کے زخمی ہونے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کامیاب مذاکرات کے بعد پُرامن طور منتشر ہوگئے۔
ایک روز قبل خیبرپختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے گلی باغ میں نامعلوم مسلح افراد نے اسکول وین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق جبکہ دو طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔
حکام نے بتایا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر انتظار کر رہے تھے اور وین کے گزرتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ وہ حملے کے فوراً بعد فرار ہو گئے۔
سوات میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد شہریوں نے احتجاج کیا اور یہ 36 گھنٹوں تک جاری رہا۔ احتجاجی مظاہرین نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا۔
صحافی افتخار فردوس نے بتایا کہ مظاہرین 36 گھنٹے سے زائد ڈرائیور کی لاش کے ساتھ سڑک پر موجود رہے، بعد ازاں جرگے کے ساتھ اُن کے مذاکرات کامیاب ہوئے تو انہوں نے لاش کی تدفین اور مظاہرہ ختم ہونے کا اعلان کیا۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے پیچھے کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کا ہاتھ تھا، حالانکہ ابھی تک کسی دہشت گرد گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دریں اثنا، سماجی کارکنوں نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ "سوات میں اسکول وین پر حملہ اس ریاست کے لیے جاگنے کی کال کے طور پر کام کرے جو بظاہر خطے میں اپنی رٹ کھو رہی ہے"۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا آفتاب خان شیرپاؤ نے بھی حکومت کی جانب سے معاملے کی سنگینی کو تسلیم کرنے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔
شہریوں نے متعلقہ حکام کو ملزمان کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں نہ لانے کی صورت میں اسلام آباد تک مارچ کرنے کا انتباہ بھی دیا
ایک روز قبل خیبرپختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے گلی باغ میں نامعلوم مسلح افراد نے اسکول وین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق جبکہ دو طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔
حکام نے بتایا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر انتظار کر رہے تھے اور وین کے گزرتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ وہ حملے کے فوراً بعد فرار ہو گئے۔
سوات میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد شہریوں نے احتجاج کیا اور یہ 36 گھنٹوں تک جاری رہا۔ احتجاجی مظاہرین نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا۔
صحافی افتخار فردوس نے بتایا کہ مظاہرین 36 گھنٹے سے زائد ڈرائیور کی لاش کے ساتھ سڑک پر موجود رہے، بعد ازاں جرگے کے ساتھ اُن کے مذاکرات کامیاب ہوئے تو انہوں نے لاش کی تدفین اور مظاہرہ ختم ہونے کا اعلان کیا۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس حملے کے پیچھے کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کا ہاتھ تھا، حالانکہ ابھی تک کسی دہشت گرد گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دریں اثنا، سماجی کارکنوں نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ "سوات میں اسکول وین پر حملہ اس ریاست کے لیے جاگنے کی کال کے طور پر کام کرے جو بظاہر خطے میں اپنی رٹ کھو رہی ہے"۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا آفتاب خان شیرپاؤ نے بھی حکومت کی جانب سے معاملے کی سنگینی کو تسلیم کرنے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔
شہریوں نے متعلقہ حکام کو ملزمان کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں نہ لانے کی صورت میں اسلام آباد تک مارچ کرنے کا انتباہ بھی دیا