توانائی کے ماحول دوست منصوبوں کی ضرورت

امریکا، چین اور ترقی یافتہ یورپی ممالک اپنے ملک میں اس سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پریشان ہیں


Editorial October 12, 2022
امریکا، چین اور ترقی یافتہ یورپی ممالک اپنے ملک میں اس سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پریشان ہیں (فوٹو : انٹرنیٹ)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تھر میں 175ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں ، آیندہ سال تک تھر کے کوئلے سے ملکی معیشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ پاور پروجیکٹ میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 2640 میگا واٹ ہوجائے گی ، تھر کے کوئلے سے دس روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے تھرل کول بلاک ٹو سندھ اینگرو کول مائن کمپنی کے توسیع منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔

یہ بات درست ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ توانائی تھرمل پاور اور خصوصا کوئلے سے حاصل کی جارہی ہے، تھر کے علاوہ کئی منصوبے کول پاور کے ہی ہیں ، جن میں کئی پلانٹ بیرون ملک سے کوئلہ درآمد کریں گے اور کچھ تھر کا کوئلہ استعمال کریں گے۔

تمام پاور پلانٹس چین سے درآمد کیے جا رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت جہاں بھی کول پاور پلانٹس استعمال ہو رہے ہیں وہاں سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی متعارف کرائی جاچکی ہے اور کئی ممالک میں اس کو مزید جدید بناکر الٹرا سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے جس سے نہ صرف خطرناک گیسوں بلکہ خطرناک دھاتوں کا اخراج بھی کم کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اس سے بجلی کی قیمت بڑھ جائے گی۔

اب اس ضمن میں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری دیرپا ترقی کے لیے کون سے ذرایع ہمارے لیے مفید ہیں؟ کیا ہمارے پاس ایسے ذرایع موجود ہیں جو ماحول دوست بھی ہوں اور سستے بھی؟ کیا ہم اپنی عوام کو بہتر ماحول اور ایک بلند معیار زندگی، معاشی کامیابی کے ساتھ دے سکتے ہیں؟ توانائی کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔

لہٰذا حکومت کو ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں توانائی کے وہ ذرایع استعمال کیے جائیں جو لوگوں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائیں، کم قیمت ہوں، کاربن کا اخراج بھی نہ کریں۔

پاکستان کا شعبہ توانائی بڑی حد تک حیاتیاتی توانائی ( فوسل فیولز ) پر انحصار کرتا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ توانائی فراہم کرنے والے نظام کی مہارت کو بھی محدود کرتا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ پانی اور ہوا کو ٹھنڈا کرنے والے آلہ جات کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں توانائی کی ضروریات بڑھ چکی ہیں۔ لہٰذا توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف ایک ماحول دوست ذرایع کی ضرورت ہے، جیسے جوہری توانائی پاکستان سے ہونے والے اخراج میں کمی کے لیے ایک راستہ دکھاتی ہے۔ یہ وہ موثر ذریعہ ہے جو ہوا اور شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کے برعکس بلا تعطل بڑے پیمانے پر بجلی فراہم کرتا ہے۔

جوہری توانائی سال کے نوے فیصد وقت میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس کے مقابلے میں ہوا اور شمسی توانائی محض پچیس تا چالیس فیصد وقت بجلی پیدا کرتے ہیں۔ مزید برآں درکار سامان کے ضمن میں جوہری توانائی کے لیے درکار لوازمات فی الحال دیگر ذرایع کی نسبت کہیں زیادہ کم ہوتے ہیں۔ اس کے لیے یورینیئم کی معمولی مقدار درکار ہوتی ہے کیونکہ جوہری انشقاق قدرتی ایندھن کے مقابلے میں آٹھ ہزار گنا زیادہ موثر ہوتا ہے۔

فی الوقت پاکستان میں دستیاب کل توانائی میں جوہری توانائی کا حصہ 1.9 فیصد ہے ، جب کہ فرانس جیسے ممالک میں ستر فیصد بجلی کم اخراج کے حامل ذرایع سے پیدا کی جاتی ہے۔ چنانچہ توانائی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف سستے بلکہ ماحول دوست اور مستقبل میں فائدہ مند ذرایع کو کام میں لانا ہوگا۔

بجلی دو طریقوں سے بن سکتی ہے، ایک تو جنریٹر چلانے سے جس کے لیے ٹربائن کو گھومنا پڑتا ہے۔ دوسرا شمسی توانائی کے ذریعے، ٹربائن گھومنے والا ذریعہ کئی طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً پانی سے، بھاپ یا ہوا کے زور پر اس کو گھما سکتے ہیں۔ ہوا، شمسی توانائی اور کچھ نئے ذرایع کو متبادل ذرایع میں شمار کیا جاتا ہے۔

توانائی کا سب سے سستا ذریعہhydropower یعنی پن بجلی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس پر اتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اس کے ماحولیاتی اثرات بھی دیگر روایتی ذرایع کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ پن بجلی کے منصوبے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں ڈیم (Reservoir) بنایا جاتا ہے۔ اس کے ابتدائی اخراجات اور قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ قیمت وصول ہو جاتی ہے۔ دوسرا اسٹریمنگ ہائیڈرو پاور ہے جس میں ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بجلی، ندی یا دریا کے بہاؤ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔

اس کے چھوٹے چھوٹے بہت سے جنریٹرز لگ سکتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان کو چھوٹے ندی نالوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک درمیانہ جنریٹر ایک ہزار سے زائد گھروں کو بجلی فراہم کر سکتا ہے اور یہ ماحول پر کوئی منفی اثرات بھی نہیں ڈالتے ہیں۔

پن بجلی میں چونکہ ایندھن استعمال نہیں ہوتا، اس لیے اس کے ماحولیاتی اثرات کوئلے اور تیل کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور ان سے ہمالیہ اور قراقرم کے پگھلتے ہوئے گلیشئیرز کو بھی بچایا جا سکے گا کیونکہ یہ پہاڑوں پر موسم سازگار بنانے میں مدد دیتے ہیں۔

ہوا سے بجلی بنانے کا عمل اس وقت دنیا بھر میں کافی مقبول ہو رہا ہے اور کئی یورپی ممالک ہوا کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں جو بڑے منصوبے چل رہے ہیں وہ گھارو اور جھمپیر پر ہیں۔ ہوا کی اس راہداری میں ہوا کی رفتار نہایت تیز ہے اور یہاں کل پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس وقت ملک میں صرف 590میگاواٹ بجلی ہوا سے بن رہی ہے۔

ہوا جو کہ مفت حاصل ہوتی ہے، اس سے بجلی بنانے کو ایک ماحول دوست عمل سمجھا جاتا ہے تاہم ہوا کے زور پر ٹربائن یا جنریٹر چلانے کے لیے جو ٹیکنالوجی درکار ہے وہ اس وقت خاصی مہنگی ہے اور اس کے بھی ماحول پر کچھ نہ کچھ منفی اثرات ہوتے ہیں۔مثلاً شور وغیرہ' اور یہ سردیوں میں آنے والے پرندوں کے لیے بھی مضر ہوسکتے ہیں۔اس وقت موجودہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ ذریعہ مہنگا ہے اور وہاں زیادہ قابل استعمال ہے جہاں دیگر ماحول دوست ذرایع موجود نہ ہوں۔

شمسی توانائی پر بھی دنیا بھر میں بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہے جو پہلے سے سستی بھی ہے اور دیرپا بھی۔ اس کو ماحول دوست اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں بغیر کسی ایندھن کے محض سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان چونکہ سب ٹروپیکل ممالک میں آتا ہے، لہٰذا ہمیں دھوپ کئی گھنٹے خاصی شدت کے ساتھ ملتی ہے۔ لہٰذا شمسی توانائی کے مواقع ہمارے ہاں خوب ہیں۔

اس وقت بازاروں میں ہر سائز کی چھوٹی بڑی سولر پلیٹیں دستیاب ہیں۔ ان کی اوسط 25 سال تک گارنٹی ہوتی ہے۔ تاہم بظاہر مفت نظر آنے والی شمسی توانائی چونکہ صرف دن میں بجلی مہیا کر سکتی ہے، اس لیے رات میں بجلی حاصل کرنے کے لیے اس کو ذخیرہ کرنا پڑتا ہے (جو کہ ایک مہنگا کام ہے) یا پھر رات کو دیگر ذرایع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت ملک میں قائد اعظم پاور پلانٹ اور بہاولپور جیسے بڑے منصوبے کام کر رہے ہیں۔

یہ پلانٹ صرف 100 میگاواٹ بجلی بنا رہا ہے ۔ یہ ذریعہ صرف اس جگہ کارآمد ہے جہاں بجلی کی قومی ترسیل (نیشنل گرڈ) نہ ہو یا بجلی کا کوئی اور متبادل نہ ہو مثلاً دُور دراز کے گاؤں دیہات وغیرہ میں چھوٹے پیمانے پر بجلی کے استعمال کے لیے یہ موزوں ہے ، لیکن یہ بات واضح رہے کہ آنے والے وقت میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ توانائی کا یہ وسیلہ سب سے کارآمد ہوگا۔

اس وقت پاکستان میں ملکی پیداوار کا ایک بڑا حصہ تھرمل پاور پر منحصر ہے، اب تک ہم گیس یا تیل سے ہی بجلی بناتے آئے ہیں ، جب کہ کوئلے کا استعمال قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد رہا ہے۔ کوئلہ کا استعمال انسانی تاریخ میں نیا نہیں۔ اس کا شمار حیاتیاتی ایندھن میں ہوتا ہے اور اس کو ڈرٹی فیول کے نام سے جانا جاتا ہے، لہٰذا اسی طرح گزشتہ تین سالوں سے چین اپنے کوئلے کے استعمال کو کم سے کم تر کرتا جارہا ہے۔

کوئلے سے ہونے والی آلودگی ماحول کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے۔ ان میں آلودگی ، جیسے کہ بیشتر گیسیں اور خطرناک دھاتیں مثلاً مرکری (پارہ) اور سیسہ جو ذہنی معذوری اور دیگر خطرناک امراض کا باعث بنتے ہیں، جن کو روکنے کا کوئی خاص تدارک نہیں ہے۔

امریکا، چین اور ترقی یافتہ یورپی ممالک اپنے ملک میں اس سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پریشان ہیں اور دنیا بھر میں اب متبادل انرجی کے کھربوں ڈالر کے منصوبے عمل میں لائے جارہے ہیں ، جس کی بنیادی وجہ کاربن کے اخراج کو کم کرنا اور ماحول کی تباہی کو روکنا ہے، لہٰذا ہمیں توانائی کے متبادل ماحول دوست منصوبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں