اہم مسئلہ
یہ لاپتہ افراد بھی اگر ’’کسی ‘‘ جیب میں ہوں تو برائے مہربانی اب انھیں جیب سے نکال دیں
اپنے ذریعہ ابلاغ یعنی '' میڈیا'' میں ''لاپتہ '' افراد کا ذکر اکثر چلتا رہتاہے اوریہ خبر ابھی تک نہیں آئی ہے کہ ان لاپتہ افراد کاکچھ اتہ پتہ معلوم ہوسکاہو۔حضرت یوسف کو جب بھائیوں نے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور باپ کو ان کے خون آلود کپڑے دکھائے تو وہ جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہوا ہے چنانچہ قرآن میں حضرت یعقوب کی جو فریاد لکھی ہے، وہ بہت درد ناک ہے۔
تجھے کس کنوئیں میں ڈالا گیاہے، کس دریا میں بہایا گیا اورکس تلوار سے قتل کیاگیا ۔
قید میں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوارزنداں ہوگئیں
بڑی دردناک صور ت حال ہوتی ہے ،پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ زمین وہ جلتی ہے جس پر آگ جل رہی ہو، کسی کاکوئی مرجائے تو کچھ عرصے بعد صبرآجاتا ہے لیکن گم ہوجائے تو عمر بھر کا روگ لگ جاتاہے ۔
ہمارے ایک عزیزکا بیٹا انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاپتہ ہوگیا تھا، فوجی نہیں تھا، پرائیویٹ ٹرک چلاتا تھا، اسے ہرطرح سے یقین دلایا جاچکا کہ اس کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہاہے، وہ خود بھی مان چکا کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں رہاہے اورجب بھی ذکر کرتاہے تو مرحوم کے طورپر کرتاہے لیکن اس کاکہناہے کہ جب بھی میں شہر جاتا ہوں تولوگوں کی بھیڑ میں غیرارادی طور پر اپنے بیٹے کاچہرہ تلاش کرنے لگتا ہوں ۔پھر خود ہی خود کو یقین دلاتاہوں کہ وہ مرچکاہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہی متلاشی نظر دوڑانے لگتا ہوں ۔
کیاایسا کچھ نہیں ہوسکتا کہ ان بچاروں کو یہ یقین دلایاجائے کہ ان کے پیارے مرچکے ہیں، ہمارے پشتو کے ایک بہت بڑے محقق اسکالراورشاعر وادیب ہمیش خلیل کا بیٹا بھی ایک عرصہ ہوا قتل ہوچکاہے۔
نوشہرہ پولیس نے اس کی لاش کو دفن کرایاتھا جو ایک سنسان علاقے میں ملی تھی ،کوئی معلومات نہ ہونے پر اسے لاوارث کے طور پر دفن کرایاگیا لیکن اس کے بوٹ اور واسکٹ رکھے گئے جس سے کئی مہینے بعد باپ نے پہچان لیا کہ مرحوم اسی کا بیٹا تھا، غالباً لاش کی تصویر بھی اسے دکھائی گئی تھی لیکن وہ ابھی تک یقین اوربے یقینی کے درمیان لٹک رہاہے۔
کبھی کبھی اچانک خیال آجاتاہے کہ وہ کوئی اورہوگا، یہ بوٹ اورکپڑے بھی محض اتفاق سے مشابہ ہوں گے ،موہوم سی امید، ایک بے یقین سایقین ہروقت اسے لاحق رہتاہے۔ہم نے خود کئی بار اس کو دیکھاہے کہ جب وہ اچانک بیٹے کے زندہ ہونے کے دلائل دینے لگتاہے لیکن دوسرے لمحے وہ اس کے زندہ نہ ہونے کے دلائل دیتا ہوا دکھائی دیتاہے اورپھر یہ کہہ کر رونے لگتاہے کہ جب اسے قتل کیاجا رہا ہوگا تو اس کے دل میں کیاکیاآیا ہوگا۔
ایک اور ہمارا دوست کالام کا رہنے والا ہے، اس کاکم عمر بیٹا دریا میں ڈوب کرجاں بحق ہو چکاہے لیکن اس کی نعش نہیں ملی ہے تو ہروقت دریا کے کنارے ڈھونڈتا رہتا تھا کہ شاید اس کی نعش مل جائے لیکن اب اتنا فرق پڑچکاہے کہ کبھی کبھی اچانک دریاکے کنارے بیٹھ کر دریا کو تکتا رہتاہے ۔
بڑی دردناک دل بریدہ اورجگرپاش زندگی ہوجاتی ہے ان لوگوں کی جن کاکوئی پیارا اس طرح گم ہوجائے ۔خدا کسی کو بھی ایسا جانکاہ روگ نہ دے۔ اورحکومتی اداروں کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں پر ترس کھائے اوران کے گم شدہ پیاروں کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کریں ۔
یہ تو طے ہوچکاہے کہ کئی کئی سال کے گمشدہ یہ لوگ اب دنیا میں نہیں ہوں گے اوراگر ان کو یقین اوربے یقینی کی اس سولی، اس صلیب سے اتارا جائے تو کسی کاکچھ بھی نقصان نہیں ہوگا جو ہوچکاہے وہ ہوچکاہے ۔کسی طرح سے تغافل کا باب شک تو کھلے ۔
آخر میں ایک حقیقہ سنائیں۔محض تفنن طبع کے لیے۔جس مسجد میں ہم نمازپڑھتے ہیں، وہ سڑک کے کنارے ہے چنانچہ راہ چلتے ہوئے لوگ بھی اکثر نماز پڑھنے کے وقت آجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ علاقہ خٹک کا ایک شخص نماز پڑھنے کو رکا تو وضو کرتے ہوئے اس کی گھڑی گم ہوگئی ،وضو کرتے وقت اس نے گھڑی اتارکر وضوخانے میں سامنے رکھی تھی لیکن پھر بھول گیا، یاد آنے پر بہت ڈھونڈا، لوگوں سے پوچھا لیکن گھڑی غائب ہوچکی تھی، مسجد میں جو لاؤڈ اسپیکر انچارج تھا، اس نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان بھی کیا کہ اگر کسی کو ملی ہوتو واپس دی جائے لیکن پھر بھی گھڑی نہیں ملی، گھڑی کا مالک چلاگیا،کافی عرصے بعد اس اعلان کرنے والے نے خود بتایا کہ جب وہ گھڑی کی گمشدگی کا اعلان کر رہاتھا تو گھڑی خود اس کی جیب میں تھی۔
یہ لاپتہ افراد بھی اگر ''کسی '' جیب میں ہوں تو برائے مہربانی اب انھیں جیب سے نکال دیں اوران کے لواحقین کو اس مستقل عذاب سے نجات دلادیں۔
تجھے کس کنوئیں میں ڈالا گیاہے، کس دریا میں بہایا گیا اورکس تلوار سے قتل کیاگیا ۔
قید میں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوارزنداں ہوگئیں
بڑی دردناک صور ت حال ہوتی ہے ،پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ زمین وہ جلتی ہے جس پر آگ جل رہی ہو، کسی کاکوئی مرجائے تو کچھ عرصے بعد صبرآجاتا ہے لیکن گم ہوجائے تو عمر بھر کا روگ لگ جاتاہے ۔
ہمارے ایک عزیزکا بیٹا انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاپتہ ہوگیا تھا، فوجی نہیں تھا، پرائیویٹ ٹرک چلاتا تھا، اسے ہرطرح سے یقین دلایا جاچکا کہ اس کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہاہے، وہ خود بھی مان چکا کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں رہاہے اورجب بھی ذکر کرتاہے تو مرحوم کے طورپر کرتاہے لیکن اس کاکہناہے کہ جب بھی میں شہر جاتا ہوں تولوگوں کی بھیڑ میں غیرارادی طور پر اپنے بیٹے کاچہرہ تلاش کرنے لگتا ہوں ۔پھر خود ہی خود کو یقین دلاتاہوں کہ وہ مرچکاہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہی متلاشی نظر دوڑانے لگتا ہوں ۔
کیاایسا کچھ نہیں ہوسکتا کہ ان بچاروں کو یہ یقین دلایاجائے کہ ان کے پیارے مرچکے ہیں، ہمارے پشتو کے ایک بہت بڑے محقق اسکالراورشاعر وادیب ہمیش خلیل کا بیٹا بھی ایک عرصہ ہوا قتل ہوچکاہے۔
نوشہرہ پولیس نے اس کی لاش کو دفن کرایاتھا جو ایک سنسان علاقے میں ملی تھی ،کوئی معلومات نہ ہونے پر اسے لاوارث کے طور پر دفن کرایاگیا لیکن اس کے بوٹ اور واسکٹ رکھے گئے جس سے کئی مہینے بعد باپ نے پہچان لیا کہ مرحوم اسی کا بیٹا تھا، غالباً لاش کی تصویر بھی اسے دکھائی گئی تھی لیکن وہ ابھی تک یقین اوربے یقینی کے درمیان لٹک رہاہے۔
کبھی کبھی اچانک خیال آجاتاہے کہ وہ کوئی اورہوگا، یہ بوٹ اورکپڑے بھی محض اتفاق سے مشابہ ہوں گے ،موہوم سی امید، ایک بے یقین سایقین ہروقت اسے لاحق رہتاہے۔ہم نے خود کئی بار اس کو دیکھاہے کہ جب وہ اچانک بیٹے کے زندہ ہونے کے دلائل دینے لگتاہے لیکن دوسرے لمحے وہ اس کے زندہ نہ ہونے کے دلائل دیتا ہوا دکھائی دیتاہے اورپھر یہ کہہ کر رونے لگتاہے کہ جب اسے قتل کیاجا رہا ہوگا تو اس کے دل میں کیاکیاآیا ہوگا۔
ایک اور ہمارا دوست کالام کا رہنے والا ہے، اس کاکم عمر بیٹا دریا میں ڈوب کرجاں بحق ہو چکاہے لیکن اس کی نعش نہیں ملی ہے تو ہروقت دریا کے کنارے ڈھونڈتا رہتا تھا کہ شاید اس کی نعش مل جائے لیکن اب اتنا فرق پڑچکاہے کہ کبھی کبھی اچانک دریاکے کنارے بیٹھ کر دریا کو تکتا رہتاہے ۔
بڑی دردناک دل بریدہ اورجگرپاش زندگی ہوجاتی ہے ان لوگوں کی جن کاکوئی پیارا اس طرح گم ہوجائے ۔خدا کسی کو بھی ایسا جانکاہ روگ نہ دے۔ اورحکومتی اداروں کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں پر ترس کھائے اوران کے گم شدہ پیاروں کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کریں ۔
یہ تو طے ہوچکاہے کہ کئی کئی سال کے گمشدہ یہ لوگ اب دنیا میں نہیں ہوں گے اوراگر ان کو یقین اوربے یقینی کی اس سولی، اس صلیب سے اتارا جائے تو کسی کاکچھ بھی نقصان نہیں ہوگا جو ہوچکاہے وہ ہوچکاہے ۔کسی طرح سے تغافل کا باب شک تو کھلے ۔
آخر میں ایک حقیقہ سنائیں۔محض تفنن طبع کے لیے۔جس مسجد میں ہم نمازپڑھتے ہیں، وہ سڑک کے کنارے ہے چنانچہ راہ چلتے ہوئے لوگ بھی اکثر نماز پڑھنے کے وقت آجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ علاقہ خٹک کا ایک شخص نماز پڑھنے کو رکا تو وضو کرتے ہوئے اس کی گھڑی گم ہوگئی ،وضو کرتے وقت اس نے گھڑی اتارکر وضوخانے میں سامنے رکھی تھی لیکن پھر بھول گیا، یاد آنے پر بہت ڈھونڈا، لوگوں سے پوچھا لیکن گھڑی غائب ہوچکی تھی، مسجد میں جو لاؤڈ اسپیکر انچارج تھا، اس نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان بھی کیا کہ اگر کسی کو ملی ہوتو واپس دی جائے لیکن پھر بھی گھڑی نہیں ملی، گھڑی کا مالک چلاگیا،کافی عرصے بعد اس اعلان کرنے والے نے خود بتایا کہ جب وہ گھڑی کی گمشدگی کا اعلان کر رہاتھا تو گھڑی خود اس کی جیب میں تھی۔
یہ لاپتہ افراد بھی اگر ''کسی '' جیب میں ہوں تو برائے مہربانی اب انھیں جیب سے نکال دیں اوران کے لواحقین کو اس مستقل عذاب سے نجات دلادیں۔