کراچی میں تشویشناک جرائم پر حکومتی سیاست
پولیس کے مطابق جو ڈاکو وہ پکڑتی ہے ان میں نصف عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں تو پولیس کیا کرے؟
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سرکاری ایڈمنسٹریٹر اور سندھ حکومت کے ترجمان نے کراچی کے عوام کی بجائے سندھ حکومت کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' کراچی میں جرائم کی صورت حال تشویشناک نہیں ، بعض واقعات میڈیا کی وجہ سے زیادہ سامنے آتے ہیں۔
کرائم کے تناسب کا موازنہ نہ کیا جائے'' البتہ ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی کو اپنے الفاظ کا مناسب چناؤ کرنا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ کراچی پولیس چیف نے کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم پر اپنی پولیس کی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے تاجروں اور شہریوں پر ہی الزامات لگائے تھے کہ وہ کراچی کو بد نام کر رہے ہیں جرائم ہر جگہ ہوتے ہیں کراچی میں جرائم کی صورت حال اتنی خراب نہیں جس کا واویلا کیا جا رہا ہے۔
پولیس چیف کا بیان تو حیران کن تھا ہی مگر کراچی سے تعلق رکھنے والے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ نے شہریوں کے زخموں پر نمک ضرور چھڑک دیا ہے کہ کراچی میں جرائم کی صورت حال تشویشناک نہیں ہے۔
کراچی کے آیندہ میئر بننے کے آرزو مند کو تو کراچی کے عوام کا ترجمان ہونا چاہیے تھا اور اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ کراچی میں جرائم تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں مگر انھوں نے حقائق کے برعکس عوام کی بجائے سندھ حکومت کی ترجمانی کی۔
کراچی کے پولیس چیف کو اپنے پہلے بیان کے بعد یہ تسلیم کرنا ہی پڑا کہ اسٹریٹ کرائم کراچی کا بڑا مسئلہ ہے پولیس اور تاجر مل کر اسٹریٹ کرائم کا قلع قمع کریں گے۔
انھوں نے یہ کہہ کر وضاحت کی کہ کاروباری برادری کے حوالے سے میرے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے یہ وضاحت ''کاٹی'' کی تقریب میں دی جہاں تاجروں نے پولیس چیف کو بتایا کہ غیر مقامی افراد لوٹ مار کی وجہ اور چھپرا ہوٹل جرائم کے مرکز بنے ہوئے ہیں اور کراچی کے صنعتی علاقوں میں خاص کر ہر ماہ کی یکم سے 12 تاریخ کے دوران صنعتی ملازمین کو لوٹا جاتا ہے کیونکہ انھی دنوں میں ملازمین کو تنخواہ ملتی ہے جو ڈاکو دن دہاڑے ان سے چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔
کراچی پولیس چیف اپنے موقف پر قائم ہیں کہ کراچی میں جرائم کی شرح گھٹ گئی ہے۔ پولیس کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ اسٹریٹ کرائم خصوصاً چوری ڈکیتی کی وارداتوں کی ایف آئی آر درج ہی نہیں کرتی اور جرائم سے متاثر ہونے والوں کو تھانوں میں اس قدر پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ رپورٹ درج کرائے بغیر لوٹ جاتے ہیں۔
چوری، ڈکیتی کی چھوٹی وارداتوں اور اسٹریٹ کرائم کے دوران لٹنے والے خود ہی صبر کرلیتے ہیں کہ ہونا کچھ نہیں پولیس پریشان کرے گی بہتر ہے کہ نقصان برداشت کرلیا جائے اور موبائلوں کی پرانی سمیں بند کرا کر نئی سمیں اور پرانے سستے والے موبائل خرید کر گزارا کیا جائے۔
اسٹریٹ کرائم میں قیمتی موبائل رکھنا لوگوں نے چھوڑ دیا ہے اس لیے گزارے کے لیے لوگ اب پرانے اور سستے موبائل رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کی صرف ایک دن کی خبروں کے مطابق بینکوں میں رقم جمع کرانے یا رقم نکلوانے والوں کو اب بینکوں کے سامنے بھی لوٹا جا رہا ہے جبکہ بینکوں سے نکل کر جانے والوں کا تعاقب کرکے انھیں راستے میں اور گھروں کے سامنے تک لوٹنے کی وارداتیں تو پہلے ہی عام تھیں مگر اب اہم اور دن رات مصروف رہنے والی شاہراہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ضلع وسطی میں راشد منہاس روڈ ایک مصروف شاہراہ جہاں سڑک عبور کرنا بھی مشکل ہوتا ہے مگر وہاں تجارتی سینٹر کے قریب دن دہاڑے یوٹیوبرز اور صحافیوں سے قیمتی کیمرے اور لینس چھین لیے گئے اور دو سال کی محنت سے جمع کرکے خریدا گیا ان کا سامان لوٹ لیا گیا اور لٹنے والے بے بس یوٹیوبرز سڑک پر ہی رونے پر مجبور ہوگئے۔
خبر میں مزید بتایا گیا کہ کراچی میں اب شہری تو کیا مشرف کالونی میں پولیس اہلکاروں کو بھی لوٹا گیا اور ڈاکوؤں نے پولیس اہلکار کا سرکاری اسلحہ بھی چھین لیا۔
کے پی سے تعلق رکھنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ کراچی جرائم کا گڑھ بن گیا ہے یہ ان کا سیاسی نہیں حقیقی بیان ہے ، کیونکہ گزشتہ نو ماہ میں کراچی میں 79 ہزار اسٹریٹ کرائم ہوئے جن میں 75 شہری ڈاکوؤں سے مزاحمت پر قتل کیے گئے اور لاتعداد زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق جو ڈاکو وہ پکڑتی ہے ان میں نصف عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں تو پولیس کیا کرے؟ کراچی کے 38 ہزار شہری اپنے موبائل فونز سے محروم ہوئے جبکہ بیس ہزار بڑی وارداتیں ہو چکی ہیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس مکمل طور سیاسی ہو چکی جس کا کام صرف مال کمانا ہے۔ سیاسی بنیاد پر تعینات ہونے والی پولیس کو سیاستدانوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جن پر حکومت ہاتھ کبھی نہیں ڈالے گی اور کراچی کے عوام لٹیروں کے ہاتھوں نہ جانے کب تک یوں ہی لٹتے رہیں گے؟