بس حادثے میں جاں بحق افراد کی لاشیں ایدھی مرکز سے آبائی علاقوں کو روانہ
نئے ماڈل کی بس کا ایمرجنسی ڈور اور رفتار ٹھیک تھی، حادثہ ائرکنڈیشن میں شارٹ سرکٹ سے پیش آیا، موٹروے حکام
کراچی سے اندرون سندھ جانے والی مسافر بس میں نوری آباد کے قریب لگنے والی آگ سے جھلس کر جاں بحق 18 افراد کی لاشیں کراچی میں سہراب گوٹھ ایدھی مرکز لائی گئیں، جہاں سے غسل و کفن کے بعد آبائی گاؤں خیرپور ناتھن شاہ روانہ کردی گئیں۔
حادثے کے حوالے سے موٹروے ایم نائن کے کمانڈنٹ آفیسر سید فرحان احمد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حادثے کا شکار بس نئے ماڈل کی تھی جب کہ بس کا ایمرجنسی ڈور بھی ٹھیک کام کر رہا تھا اور رفتار بھی قانون کے مطابق تھی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق بس کے عقبی حصے میں ائرکنڈیشن میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگی تھی۔
بس کے اگلے حصے میں سوار مرد اور بڑی عمر کی خواتین ایمرجنسی دروازے سے اترنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم عقبی حصے میں سوار تقریباً 20 سال تک کی عمر کی خواتین اور بچے آگ کی لپیٹ میں آگئے، جن میں سے 8 خواتین و بچے موقع پر جاں بحق ہوئے جب کہ دیگر 10 خواتین و بچے اسپتال پہنچنے تک دم توڑ چکے تھے جب کہ حادثے میں 3 افراد زخمی ہوئے۔
بس میں عملے کے 3 افراد کے علاوہ 52 مسافر سوار تھے، جن میں سے 18 افراد جاں بحق ہوئے اور دیگر کو متبادل بس کے ذریعے آبائی گاؤں روانہ کردیا گیا۔ اس موقع پر سعد ایدھی نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملنے پر وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی سے نوری آباد پہنچے جبکہ وہاں پہلے سے موجود ان کے رضاکار فوری طور پر امدادی کارروائی شروع کر چکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جاں بحق افراد کی لاشیں جھلس کر کوئلہ بن گئی تھی۔ ایک خاتون ایسی بھی تھیں، جنہوں نے حادثے کے وقت اپنے بچے کو بچانے کے لیے اپنی گود میں دبوچ لیا تھا ۔ ماں اور بچے کی لاشیں جھلس کر آپس میں چپک گئی تھیں، جنہیں غسل و کفن کے وقت الگ نہیں کیا گیا، دونوں کی تدفین ایک ساتھ ہوگی۔
جاں بحق افراد کے رشتے دار مظفر مغیری نے بتایا کہ جھلس کر ہلاک ہونے والے تمام افراد سیلاب متاثرین ہیں۔ سیلابی پانی کے باعث کراچی کے علاقے منگھوپیر میں منتقلی کے بعدمعمول زندگی بحال ہونے پر پورا خاندان اپنے گاؤں واپس جا رہا تھا اور بس میں اس خاندان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ جاں بحق ہونے والے تمام افراد 6 بھائیوں کی فیملی ہیں اور سب کا تعلق ایک ہی گھر سے ہے۔
حادثے کے حوالے سے موٹروے ایم نائن کے کمانڈنٹ آفیسر سید فرحان احمد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حادثے کا شکار بس نئے ماڈل کی تھی جب کہ بس کا ایمرجنسی ڈور بھی ٹھیک کام کر رہا تھا اور رفتار بھی قانون کے مطابق تھی۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق بس کے عقبی حصے میں ائرکنڈیشن میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگی تھی۔
بس کے اگلے حصے میں سوار مرد اور بڑی عمر کی خواتین ایمرجنسی دروازے سے اترنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم عقبی حصے میں سوار تقریباً 20 سال تک کی عمر کی خواتین اور بچے آگ کی لپیٹ میں آگئے، جن میں سے 8 خواتین و بچے موقع پر جاں بحق ہوئے جب کہ دیگر 10 خواتین و بچے اسپتال پہنچنے تک دم توڑ چکے تھے جب کہ حادثے میں 3 افراد زخمی ہوئے۔
بس میں عملے کے 3 افراد کے علاوہ 52 مسافر سوار تھے، جن میں سے 18 افراد جاں بحق ہوئے اور دیگر کو متبادل بس کے ذریعے آبائی گاؤں روانہ کردیا گیا۔ اس موقع پر سعد ایدھی نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملنے پر وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی سے نوری آباد پہنچے جبکہ وہاں پہلے سے موجود ان کے رضاکار فوری طور پر امدادی کارروائی شروع کر چکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جاں بحق افراد کی لاشیں جھلس کر کوئلہ بن گئی تھی۔ ایک خاتون ایسی بھی تھیں، جنہوں نے حادثے کے وقت اپنے بچے کو بچانے کے لیے اپنی گود میں دبوچ لیا تھا ۔ ماں اور بچے کی لاشیں جھلس کر آپس میں چپک گئی تھیں، جنہیں غسل و کفن کے وقت الگ نہیں کیا گیا، دونوں کی تدفین ایک ساتھ ہوگی۔
جاں بحق افراد کے رشتے دار مظفر مغیری نے بتایا کہ جھلس کر ہلاک ہونے والے تمام افراد سیلاب متاثرین ہیں۔ سیلابی پانی کے باعث کراچی کے علاقے منگھوپیر میں منتقلی کے بعدمعمول زندگی بحال ہونے پر پورا خاندان اپنے گاؤں واپس جا رہا تھا اور بس میں اس خاندان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ جاں بحق ہونے والے تمام افراد 6 بھائیوں کی فیملی ہیں اور سب کا تعلق ایک ہی گھر سے ہے۔