پیدل حج رضائے الٰہی یا شہرت کی خواہش
سفر کے جدید ذرایع میسر ہونے کے باوجود یہ دونوں نوجوان اتنا طویل سفر پیدل طے کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
پاکستان اور بھارت سے دو نوجوان عثمان ارشد اور شہاب چتور پیدل حج پر جانے کےلیے سفر کرنے کی وجہ سے آج کل خبروں میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ان نوجوانوں کے اس مبارک سفر کے خوب چرچے ہیں اور دوران سفر دونوں کو ہی خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دونوں نوجوان اتنا طویل سفر پیدل طے کرکے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟
بھارتی نوجوان شہاب چتور نے چند ہفتے قبل بھارتی ریاست کیرالہ سے اپنے اس مذہبی سفر کا آغاز کیا تھا اور وہ کیرالہ سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے 2023 میں حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ اس دوران شہاب چتور پاکستان سے پیدل گزرتے ہوئے تفتان بارڈر کے ذریعے ایران پہنچیں گے اور پھر ایران سے عراق، کویت اور پھر اپنی آخری منزل مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔ جبکہ اوکاڑہ کے 25 سالہ نوجوان عثمان ارشد نے یکم اکتوبر سے اپنے اس سفر کا آغاز کیا ہے اور وہ تقریباً 8 ماہ بعد ایران، عراق اور کویت سے گزرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔
حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض کیا گیا ایک ایسا مقدس مذہبی فریضہ ہے جو خدا اور بندے کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اس ذاتی معاملے کی تشہیر اور علی الاعلان اس سفر پر روانگی کیا واقعی رضائے الٰہی کےلیے ہے یا یہ نوجوان ذاتی شہرت کی خواہش رکھتے ہیں؟
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آج جب سفر کے جدید ذرائع میسر ہیں اور وہ پیدل حج پر اٹھنے والے اخراجات سے کم بھی ہیں تو پھر یہ نوجوان کیوں اتنا طویل سفر پیدل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لیے تکلیف اٹھانا چاہتے ہیں؟ اگر نیت حج بیت اللہ کی سعادت ہے تو اس کےلیے دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور انڈیا سے ہر سال لاکھوں لوگ حج کےلیے جاتے ہیں، وہ بھی جاسکتے ہیں۔ اور اگر اس طویل سفر کا مقصد ذاتی شہرت حاصل کرنا ہے تو اس کےلیے سفر حج کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟
دونوں نوجوان رات کو جس شہر یا علاقے میں پہنچتے ہیں تو وہاں کسی ہوٹل یا پھر کسی میزبان کے ہاں قیام کرتے ہیں، جبکہ دن کے وقت سفر کرتے ہیں۔ عموماً دونوں نوجوان روزانہ 25 کلومیٹر سفر کررہے ہیں۔ اس سفر میں بیسیوں لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، انہیں ہار پہنائے جاتے ہیں اور استقبال ہوتا ہے جبکہ ہر ضلع کی پولیس سیکیورٹی کے طور پر ساتھ ہوتی ہے۔ کیا پیدل حج کا یہ سفر اس شہرت کےلیے کیا جارہا ہے یا پھر واقعی یہ لوگ ایک مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں؟
اس حوالے سے ایک دوست نے جامعہ بنوریہ کراچی کا ایک فتوی شیئر کیا، جو آن لائن بھی موجود ہے۔ سوال کیا گیا کہ
''اگر کوئی شخص ہندوستان کے کسی خطہ سے آج کے اس ہائی فائی دور میں پیدل حج کرنا چاہتا ہو، جبکہ اس کے پاس حج سفر کے تمام وسائل موجود ہوں یعنی ہوائی جہاز سے وہ سفر کرسکتا ہو اور اس کے علاوہ حج کے تمام اخراجات اور اس کا کاروبار بھی ہو اور اس کے جانے کے بعد بظاہر اس کے کاروبار پر اثر بھی پڑنے کا اندیشہ ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ پیدل حج کرنے سے زیادہ ثواب حاصل ہوگا۔ تو کیا ایسے شخص کو پيدل حج کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل حج کرنے کی زیادہ فضیلت بیان کی ہے؟''
جامعہ بنوریہ کے دارالفتا نے جو جواب دیا، وہ بھی حاضر ہے۔
''صورت مسئولہ میں پیدل حج پر جانا جائز ہے، بشرطیکہ شہرت اور نمود نمائش مقصود نہ ہو ۔ لیکن یہ سنت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ہی پیدل حج کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دشوار کاموں سے منع فرمایا ہے۔''
تاہم بعض علمائے کرام کے نزدیک کئی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پیدل حج کیا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سواری ہونے کے باوجود 25 حج پیدل سفر کرکے ادا کیے تھے۔
علمائے کرام کے مطابق حج کی فرضیت کےلیے یہ شرط ہے کہ مکہ معظمہ تک سواری پر پہنچنے کےلیے اخراجات، سفر کے ضروری مصارف اور واپسی تک اہل و عیال کے اخراجات کا بھی بندوبست ہو۔ جس کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ سواری پر جاسکے، اس پر پیدل جاکر حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیدل حج کرے تو ناجائز بھی نہیں۔ مگر اس کےلیے یہ شرط ہے کہ وہ پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہو، تاکہ راستے کی تکلیف سے دلی تنگی اور دشواری پیش نہ آئے اور یہ پیدل چلنا محض ثواب اور رضائے الٰہی کےلیے ہو، شہرت اور ناموری مقصود نہ ہو۔
اپنے اس فعل کو اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے شہرت دینا ناجائز ہے۔ جن بزرگوں نے پیدل حج کی سعادت حاصل کی انہوں نے حتی الامکان چھپانے کی سعی کی اور اس کی غرض بھی ریاضت اور نفس پرقابو پانا تھا، نہ کہ سنت نبوی کی اتباع، کیوں کہ آپؐ نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ہی اس کی کوئی ترغیب دی۔ علمائے کرام کے مطابق اگر اخلاص کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر، دل میں معمولی بھی ریاکاری و ناموری نہ ہو، تو پھر پیدل سفر حج جائز ہے۔
عثمان ارشد اور شہاب چتور دونوں ہی نوجوان ہیں اور غالباً دونوں غیرشادی شدہ ہیں۔ یہ طویل سفر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کےلیے کررہے ہیں یا پھر ان کا مقصد صرف ذاتی شہرت اور ریکارڈ قائم کرنا ہے، یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم یہ تو طے ہے کہ اس طویل سفر میں وہ اکیلے نہیں بلکہ ہر جگہ ایک ہجوم ان کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کی ویڈیو بنانے والی ٹیم، پولیس، سیکیورٹی، ہر شہرمیں مہمان نوازی۔ پنجاب کی حد تک تو شاید ان کےلیے اتنے سیکیورٹی کے مسائل نہیں ہوں گے لیکن بلوچستان میں پاک ایران بارڈ تک کا سفر انتہائی مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے۔ یہاں تو اکثر ایران جانے والے زائرین کو گولیاں مار دی جاتی ہیں، تو ان نوجوانوں کےلیے الگ، الگ یہ سفر طے کرنا اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بھارتی نوجوان شہاب چتور نے چند ہفتے قبل بھارتی ریاست کیرالہ سے اپنے اس مذہبی سفر کا آغاز کیا تھا اور وہ کیرالہ سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرکے 2023 میں حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ اس دوران شہاب چتور پاکستان سے پیدل گزرتے ہوئے تفتان بارڈر کے ذریعے ایران پہنچیں گے اور پھر ایران سے عراق، کویت اور پھر اپنی آخری منزل مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔ جبکہ اوکاڑہ کے 25 سالہ نوجوان عثمان ارشد نے یکم اکتوبر سے اپنے اس سفر کا آغاز کیا ہے اور وہ تقریباً 8 ماہ بعد ایران، عراق اور کویت سے گزرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔
حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض کیا گیا ایک ایسا مقدس مذہبی فریضہ ہے جو خدا اور بندے کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اس ذاتی معاملے کی تشہیر اور علی الاعلان اس سفر پر روانگی کیا واقعی رضائے الٰہی کےلیے ہے یا یہ نوجوان ذاتی شہرت کی خواہش رکھتے ہیں؟
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آج جب سفر کے جدید ذرائع میسر ہیں اور وہ پیدل حج پر اٹھنے والے اخراجات سے کم بھی ہیں تو پھر یہ نوجوان کیوں اتنا طویل سفر پیدل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لیے تکلیف اٹھانا چاہتے ہیں؟ اگر نیت حج بیت اللہ کی سعادت ہے تو اس کےلیے دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور انڈیا سے ہر سال لاکھوں لوگ حج کےلیے جاتے ہیں، وہ بھی جاسکتے ہیں۔ اور اگر اس طویل سفر کا مقصد ذاتی شہرت حاصل کرنا ہے تو اس کےلیے سفر حج کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟
دونوں نوجوان رات کو جس شہر یا علاقے میں پہنچتے ہیں تو وہاں کسی ہوٹل یا پھر کسی میزبان کے ہاں قیام کرتے ہیں، جبکہ دن کے وقت سفر کرتے ہیں۔ عموماً دونوں نوجوان روزانہ 25 کلومیٹر سفر کررہے ہیں۔ اس سفر میں بیسیوں لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، انہیں ہار پہنائے جاتے ہیں اور استقبال ہوتا ہے جبکہ ہر ضلع کی پولیس سیکیورٹی کے طور پر ساتھ ہوتی ہے۔ کیا پیدل حج کا یہ سفر اس شہرت کےلیے کیا جارہا ہے یا پھر واقعی یہ لوگ ایک مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں؟
اس حوالے سے ایک دوست نے جامعہ بنوریہ کراچی کا ایک فتوی شیئر کیا، جو آن لائن بھی موجود ہے۔ سوال کیا گیا کہ
''اگر کوئی شخص ہندوستان کے کسی خطہ سے آج کے اس ہائی فائی دور میں پیدل حج کرنا چاہتا ہو، جبکہ اس کے پاس حج سفر کے تمام وسائل موجود ہوں یعنی ہوائی جہاز سے وہ سفر کرسکتا ہو اور اس کے علاوہ حج کے تمام اخراجات اور اس کا کاروبار بھی ہو اور اس کے جانے کے بعد بظاہر اس کے کاروبار پر اثر بھی پڑنے کا اندیشہ ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ پیدل حج کرنے سے زیادہ ثواب حاصل ہوگا۔ تو کیا ایسے شخص کو پيدل حج کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل حج کرنے کی زیادہ فضیلت بیان کی ہے؟''
جامعہ بنوریہ کے دارالفتا نے جو جواب دیا، وہ بھی حاضر ہے۔
''صورت مسئولہ میں پیدل حج پر جانا جائز ہے، بشرطیکہ شہرت اور نمود نمائش مقصود نہ ہو ۔ لیکن یہ سنت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ہی پیدل حج کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دشوار کاموں سے منع فرمایا ہے۔''
تاہم بعض علمائے کرام کے نزدیک کئی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پیدل حج کیا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سواری ہونے کے باوجود 25 حج پیدل سفر کرکے ادا کیے تھے۔
علمائے کرام کے مطابق حج کی فرضیت کےلیے یہ شرط ہے کہ مکہ معظمہ تک سواری پر پہنچنے کےلیے اخراجات، سفر کے ضروری مصارف اور واپسی تک اہل و عیال کے اخراجات کا بھی بندوبست ہو۔ جس کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ سواری پر جاسکے، اس پر پیدل جاکر حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیدل حج کرے تو ناجائز بھی نہیں۔ مگر اس کےلیے یہ شرط ہے کہ وہ پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہو، تاکہ راستے کی تکلیف سے دلی تنگی اور دشواری پیش نہ آئے اور یہ پیدل چلنا محض ثواب اور رضائے الٰہی کےلیے ہو، شہرت اور ناموری مقصود نہ ہو۔
اپنے اس فعل کو اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے شہرت دینا ناجائز ہے۔ جن بزرگوں نے پیدل حج کی سعادت حاصل کی انہوں نے حتی الامکان چھپانے کی سعی کی اور اس کی غرض بھی ریاضت اور نفس پرقابو پانا تھا، نہ کہ سنت نبوی کی اتباع، کیوں کہ آپؐ نے نہ پیدل حج کیا اور نہ ہی اس کی کوئی ترغیب دی۔ علمائے کرام کے مطابق اگر اخلاص کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر، دل میں معمولی بھی ریاکاری و ناموری نہ ہو، تو پھر پیدل سفر حج جائز ہے۔
عثمان ارشد اور شہاب چتور دونوں ہی نوجوان ہیں اور غالباً دونوں غیرشادی شدہ ہیں۔ یہ طویل سفر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کےلیے کررہے ہیں یا پھر ان کا مقصد صرف ذاتی شہرت اور ریکارڈ قائم کرنا ہے، یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم یہ تو طے ہے کہ اس طویل سفر میں وہ اکیلے نہیں بلکہ ہر جگہ ایک ہجوم ان کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کی ویڈیو بنانے والی ٹیم، پولیس، سیکیورٹی، ہر شہرمیں مہمان نوازی۔ پنجاب کی حد تک تو شاید ان کےلیے اتنے سیکیورٹی کے مسائل نہیں ہوں گے لیکن بلوچستان میں پاک ایران بارڈ تک کا سفر انتہائی مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے۔ یہاں تو اکثر ایران جانے والے زائرین کو گولیاں مار دی جاتی ہیں، تو ان نوجوانوں کےلیے الگ، الگ یہ سفر طے کرنا اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔