بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات تشویشناک ہیں
گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے کے باعث حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے...
ہفتے کی صبح حب میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آر سی ڈی ہائی وے پر گڈانی موڑ کے قریب ٹریفک حادثے کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی خبر نے ہر درد مند پاکستانی کو اشک بار کردیا۔ وہ جو اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے محوسفر تھے، جل کر راکھ ہوگئے، جو منتظر تھے ان کی آنکھیں اپنوں کو دیکھنے کے لیے پتھرا گئیں، آہ! سوختہ لاشیں ، جن کو ان کے پیارے پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اسپتالوں کے مردہ خانوں میں مرنے والے لواحقین کی آہ وبکا سے دل پھٹ رہے تھے۔ دو مسافر بسوں، آئل ٹینکر اور ٹرک میں ہولناک تصادم کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 38 افراد جاں بحق اور 8 زخمی ہوگئے، سوختہ لاشوں کی شناخت ناممکن تھی، بسیں کوئٹہ اور تربت سے کراچی جا رہی تھیں، زیادہ جانی نقصان تربت سے کراچی جانے والی بس میں ہوا۔ پہلے ایک بس ٹینکر سے ٹکرائی جس کے بعد پیچھے سے آنے والی بس بھی دوسرے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ دونوں حادثے قدرے فاصلے پر ہوئے تاہم یقیناً پہلا حادثہ ہی دوسرے حادثے کی وجہ بنا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حادثے کی جگہ سڑک پر پیچیدہ خم ہے جو تیز رفتاری کے باعث حادثے کا موجب بنا ہے۔ ابتدائی تحقیقات اور عینی شاہدین کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی بسوں کے نیچے تیل کے نصب ٹینک پھٹنے سے آگ لگ گئی، متعدد لوگ بروقت بسوں سے باہر نہ آسکنے کی وجہ سے بری طرح جھلس گئے۔ ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ بسوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لسبیلہ کی حدود میں لیویز، پولیس، کسٹم اور کوسٹ گارڈ سمیت درجنوں چیک پوسٹیں قائم ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے سارے محکموں کے اہلکاروں کی آنکھوں میں ٹرانسپورٹر دھول کیسے جھونک سکتے ہیں، ایسا ہرگزممکن نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ چیکنگ پر مامور اہلکار اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں، دولت کی اندھی ہوس ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔
اس المناک سانحے کا ایک اور درد ناک پہلو بھی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سوختہ مریضوں کے علاج کے لیے کراچی میں صرف ایک برنس سینٹر ہے، جب کہ عباسی شہید اور جناح اسپتال میں سرے سے کسی برنس سینٹر کا وجود نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا علاج کیا صرف 66 بستروں پر مشتمل برنس سینٹر میں ہوسکتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے کا چلن حادثات میں بے پناہ اضافے کا سبب بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں آئے روز قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع کثیر تعداد میں ہوتا رہتا ہے۔ اول تو نجی بس یا ٹینکر سروس کے ڈرائیور اپنی طویل ڈیوٹی کے اوقات جو بعض اوقات سولہ یا اٹھارہ گھنٹے بھی ہوتے ہیں، مسلسل ڈرائیونگ کے نتیجے میں ہونے والی تھکاوٹ کے باعث ڈرائیور نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان اپنی مالی بچت کی خاطر دو ڈرائیورز کی جگہ ایک ڈرائیور سے کام لیتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات کی اکثریت ان پڑھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے، ٹریفک قوانین سے عدم آگاہی بھی حادثات کا بنیادی سبب ہے، اگر ڈرائیور حضرات کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے ہوں تو حادثات میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں چلنے والی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہے، متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔ گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے کے باعث حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ڈرائیور حضرات کا اوور اسپیڈنگ اور اوور ٹیکنگ کا شوق بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں اگر اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھا جائے تو ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جب کہ ہزاروں ہی زخمی ہوکر زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جب کہ خطے کے دیگر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک نے حادثات کے واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا ہے۔ پاکستان میں روڈ اینڈ سیفٹی کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد شاذ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے، نیز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش جب تک عام نہیں ہوگی، اس وقت تک ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حادثے کی جگہ سڑک پر پیچیدہ خم ہے جو تیز رفتاری کے باعث حادثے کا موجب بنا ہے۔ ابتدائی تحقیقات اور عینی شاہدین کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی بسوں کے نیچے تیل کے نصب ٹینک پھٹنے سے آگ لگ گئی، متعدد لوگ بروقت بسوں سے باہر نہ آسکنے کی وجہ سے بری طرح جھلس گئے۔ ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ بسوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لسبیلہ کی حدود میں لیویز، پولیس، کسٹم اور کوسٹ گارڈ سمیت درجنوں چیک پوسٹیں قائم ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے سارے محکموں کے اہلکاروں کی آنکھوں میں ٹرانسپورٹر دھول کیسے جھونک سکتے ہیں، ایسا ہرگزممکن نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ چیکنگ پر مامور اہلکار اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں، دولت کی اندھی ہوس ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔
اس المناک سانحے کا ایک اور درد ناک پہلو بھی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سوختہ مریضوں کے علاج کے لیے کراچی میں صرف ایک برنس سینٹر ہے، جب کہ عباسی شہید اور جناح اسپتال میں سرے سے کسی برنس سینٹر کا وجود نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا علاج کیا صرف 66 بستروں پر مشتمل برنس سینٹر میں ہوسکتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ پاکستان میں ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے کا چلن حادثات میں بے پناہ اضافے کا سبب بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں آئے روز قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع کثیر تعداد میں ہوتا رہتا ہے۔ اول تو نجی بس یا ٹینکر سروس کے ڈرائیور اپنی طویل ڈیوٹی کے اوقات جو بعض اوقات سولہ یا اٹھارہ گھنٹے بھی ہوتے ہیں، مسلسل ڈرائیونگ کے نتیجے میں ہونے والی تھکاوٹ کے باعث ڈرائیور نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان اپنی مالی بچت کی خاطر دو ڈرائیورز کی جگہ ایک ڈرائیور سے کام لیتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات کی اکثریت ان پڑھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے، ٹریفک قوانین سے عدم آگاہی بھی حادثات کا بنیادی سبب ہے، اگر ڈرائیور حضرات کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے ہوں تو حادثات میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں چلنے والی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہے، متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔ گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے کے باعث حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ڈرائیور حضرات کا اوور اسپیڈنگ اور اوور ٹیکنگ کا شوق بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں اگر اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھا جائے تو ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جب کہ ہزاروں ہی زخمی ہوکر زندگی بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جب کہ خطے کے دیگر ممالک اور ترقی یافتہ ممالک نے حادثات کے واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا ہے۔ پاکستان میں روڈ اینڈ سیفٹی کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد شاذ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے، نیز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش جب تک عام نہیں ہوگی، اس وقت تک ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔