حکومت طالبان مذاکرات میں نئی پیش رفت

حکومت کی طرف سے طالبان کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ طالبان کو اپنے ڈسپلن میں نہ آنے والے گروپس کی نشاندہی کرنا ہو گی


Editorial March 23, 2014
حکومت کی طرف سے طالبان کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ طالبان کو اپنے ڈسپلن میں نہ آنے والے گروپس کی نشاندہی کرنا ہو گی . فوٹو:پی آئی ڈی

حکومت اور طالبان شوریٰ میں براہ راست مذاکرات کے سلسلے میں ہونے والے معاملات میں نئی پیشرفت ہوئی ہے' براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کا تعین کر لیا گیا ہے تاہم اس کا باضابطہ اعلان آیندہ چند روز میں کیا جائے گا۔ مذاکرات کے لیے جگہ کا تعین کرنے اور معاملات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ہفتہ کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی زیر صدارت پنجاب ہائوس اسلام آباد میں حکومتی و طالبان کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں حکومتی کمیٹی کے ارکان حبیب اللہ خٹک' ارباب عارف' فواد حسن فواد اور رستم مہمند جب کہ طالبان رابطہ کار کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق' پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ شریک ہوئے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین کے حوالے سے ابھی صورت حال واضح نہیں اور اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ہوں گے' میر علی میں اسکائوٹس ٹریننگ کیمپ موزوں جگہ ہے' یہاں ہیلی پیڈ بھی موجود ہے' طالبان کمانڈوز کو بھی یہاں پہنچنے میں آسانی ہوگی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کی طرف سے مذاکرات وزیرستان میں کرنے پر اصرار کیا گیا جب کہ حکومت کی طرف سے اصرار تھا کہ اگر مذاکرات وزیرستان ہی میں کرنا ہیں تو یہ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں ہو سکتے ہیں۔ ذرایع کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں جانب سے بنوں ایئر پورٹ کے مقام پر اتفاق ہو جائے گا کیونکہ یہ جگہ ڈرون حملوں سے بھی محفوظ ہے۔ ذرایع کے دعویٰ کے مطابق یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ ڈرون حملے میں مارے جانے والے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود بھی بنوں ایئر پورٹ پر حکومتی وفد سے ملنے کے لیے تیار تھے مگر انھیں اس کا موقع ہی نہ ملا اور وہ ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے طے پانے والے مقام کو صیغۂ راز میں رکھا جا رہا ہے جس کی مولانا سمیع الحق نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں جب مذاکرات ہوں گے تو سب جان جائیں گے کہ یہ کہاں ہو رہے ہیں۔ طالبان کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے مذاکرات کے وقت کے بارے میں واضح کیا کہ آیندہ دو تین روز میں دونوں کمیٹیوں کے ارکان طالبان سے مذاکرات کے لیے معینہ مقام پر جائیں گے۔

کچھ عرصہ پیشتر حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ رابطہ کار طالبان کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سود مند نہیں ہوں گے اور ناجانے انھیں نتیجہ خیز بنانے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا لہٰذا اگر معاملات کو مثبت انداز میں آگے بڑھانا ہے تو حکومت اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات ہونے چاہئیں۔ اس تجویز کے پیش کیے جانے کے بعد اس پر صلاح مشورے شروع ہو گئے اور یہ طے پایا کہ براہ راست مذاکرات ہی بہتر حل ہیں۔ اب براہ راست مذاکرات کے لیے جگہ کے تعین کا مسئلہ درپیش تھا، یہ خوش کن امر ہے کہ اس مسئلہ کو بھی بخوبی حل کر لیا گیا ہے اور اس کا اعلان بھی جلد کر دیا جائے گا۔ چونکہ اب مذاکراتی عمل انتہائی حساس مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اس لیے مذاکرات کے مقام کو صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے تا کہ وہ قوتیں جو مذاکرات کو ناکام بنانے کے درپے ہیں وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل کئی بار ڈیڈ لاک کا شکار ہوا مگر چونکہ حکومت اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں تھی اس لیے اس نے مذاکرات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دانشمندی اور حکمت سے عبور کیا اور مذاکرات کا دروازہ مستقل بند ہونے سے بچا لیا۔ طالبان سے مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت نے اعتماد کی فضا کو شدید نقصان پہنچایا مگر حکومت نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دے کر صورت حال کو سنبھال لیا۔ حکومت اور طالبان کے درمیان جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی بات چلی اسی دوران اس سلسلے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا رہا چونکہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ اور پر خلوص تھی اس لیے ان ناخوشگوار واقعات کو مذاکرات کی راہ میں دیوار نہ بننے دیا گیا۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی بعض گروپس کی جانب سے حملے جاری رہے جن سے طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

اب ذرایع کے حوالے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے طالبان کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ طالبان کو اپنے ڈسپلن میں نہ آنے والے گروپس کی نشاندہی کرنا ہو گی تا کہ حکومت ان گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔ حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ گروپ جو مذاکرات کے حامی ہیں ان سے مذاکرات کیے جائیں گے اور جو گروپس مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں' ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اب طالبان پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات مخالف گروپس کی نشاندہی کے لیے حکومت سے تعاون کریں تا کہ خطے میں امن کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔ مذاکرات کا اصل مقصد بھی امن کا صحیح معنوں میں قیام ہے اگر مذاکرات اپنا اصل مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک امر ہو گا۔

دوسری جانب اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئی ہیں کہ ملک کی عسکری قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کے لیے ٹائم فریم طے کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے' فوجی قیادت کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات کسی مقررہ میعاد کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچ جانے چاہئیں تا کہ عسکریت پسندوں کے وہ گروپ جو بات چیت کی آڑ میں محض وقت گزاری کے خواہاں ہیں' ان کے مقاصد پورے نہ ہو سکیں۔ یہ تجویز بالکل صائب ہے کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ٹائم فریم طے کیا جائے اور اسے طویل المدتی نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے امید ہے کہ فریقین جلد کسی سود مند نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور ملک میں امن و امان کا پھر سے دور دورہ ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں