زمین اپنے زیور سے محروم ہو رہی ہے
پاکستان کے درخت جس آشوب سے دوچار ہیں اس کے متعلق ماحولیات والوں کا رونا گانا تو ہم‘ آپ نے بہت سنا
پاکستان کے درخت جس آشوب سے دوچار ہیں اس کے متعلق ماحولیات والوں کا رونا گانا تو ہم' آپ نے بہت سنا۔ درخت دوست اکا دکا تنظیم وقتاً فوقتاً اپنی جس تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہے وہ بھی ہم اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں۔ اخباری خطوط کے کالموں میں اس باب میں جس غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے اس سے بھی ہم آپ خوب واقف ہیں۔ اب ایک آرٹسٹ کا اخباری بیان بھی ملاحظہ کیجیے۔ یہ اعجاز الحسن ہیں ہمارے زمانے کے نامور مصور' ہم نے تو انھیں مصور ہی کے طور پر جانا ہے۔ ویسے سیاسی حلقوں میں وہ پیپلزپارٹی کے لیڈر کے طور پر زیادہ جانے جاتے ہیں۔ وہ بھی ہوں گے۔ مگر ہمیں مصور اعجاز الحسن سے غرض ہے۔ انھیں دنوں ایکسپریس میں ہم نے ان کا ایک بیان پڑھا ہے۔ کہتے ہیں کہ درخت زمین کا زیور ہیں۔
یہ بیان اعجاز الحسن ہی دے سکتے تھے۔ کیونکہ وہ تو اس زیور کے پارکھ ہیں۔ انھوں نے اپنی مصوری میں اس زیور کو خوب خوب برتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنی تصویروں کا ایک مرقع شایع کیا تھا۔ درختوں کو انھوں نے کس کس آن میں دیکھا ہے' کیا کیا اس کا جلوہ مشاہدہ کیا ہے اور کس جذبے سے اس کی تصویر کشی کی ہے جیسے درختوں کے بیچ گھومتے پھرتے خود درخت بن گئے ہوں۔ مگر اب جب خود ان کے قدموں تلے سے زمین اپنے زیوروں کے ساتھ کھسکتی نظر آرہی ہے تو ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔ یہ بیان اس ذیل میں آتا ہے۔ ارے جب اس دیار میں درخت ہی نہ رہیں گے تو ان کی مصوری کو غذا کہاں سے میسر آئے گی۔ مطلب یہ کہ ان کی مصوری بھی تھرپارکر کی قحط زدہ مخلوق کی صف میں کھڑی غذا کے لیے ترستی نظر آئے گی۔
اگے چل کر انھوں نے کہا ہے کہ درختوں سے ہمیں پھل پھول بھی ملتے ہیں اور سایہ بھی میسر آتا ہے۔ خیر پھل پھول تو زیورات کے ذیل ہی میں شمار ہوں گے یا یوں کہہ لیجیے کہ درخت سوہنی دھرتی کی بھاری پوشاک ہیں تو گل پھول جھمکے' بندے' بالیاں' بلاق' اور نتھ۔ پھل سمجھ لو کہ کڑے' جھانجھن' اور بچھوئے۔
باقی رہا درختوں کے طفیل ٹھنڈی چھاؤں میسر آنے کا معاملہ تو ہمارا ایک شاعر برسوں پہلے یہ خوش خبری سنا گیا تھا کہ ؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
بیشک اس زمانے میں شجر سایہ دار بہت تھے۔ شیر شاہی سڑک پر یہاں سے وہاں تک جا بجا پیاؤ اور گھنے سایہ دار درخت، کٹورا بجتا ہے اور مسافروں کو پکارتا ہے کہ یہاں آؤ۔ یہاں آب حیات ہے۔ پانی پیو کہ رحمت رب جلیل ہے اور پیپل کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھو۔ یہاں ٹھنڈی ہوا بھی آئے گی۔ اور اگر گیان دھیان کی طرف کچھ دھیان ہے تو پاس ہی برگد کا پیڑ ہے۔ اس کی چھاؤں میں اتنی شانتی ملے گی کہ پل بھر کے لیے مہاتما بدھ بن جاؤ گے۔
مگر اس شاعر کو یہ کب خبر تھی کہ اس دیار میں ایک ایسا وقت آئے گا جب شہر میں پیادوں پر زمین تنگ ہو جائے گی اور ان کے قدموں تلے کا فٹ پاتھ موٹرسواروں کی شاہراہ میں ضم ہو جائے گا اور شہر سے باہر رستے میں آنے والے مسافر نواز درخت مسافروں کو دھوپ میں تپتا چھوڑ کر درخت اسمگلروں کی مرضی کے آگے سرجھکا چکے ہوں گے اور باغ جس کا نام پاکستان ہے ؎
وہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا
اعجاز الحسن نے ایک مصور کی حیثیت سے ان درختوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تو کر دیا جن سے رنگ اور شادابی لے کر انھوں نے کینوس پر گلکاری کی ہے۔ مگر کیا اس سے پورا حق ادا ہوگیا۔ وہ یہ نہ بھولیں کہ درخت اپنے چاہنے والوں سے توقعات بھی رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پر ان سے حق رفاقت ادا کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ ہم نے کسی بھلے وقت میں اپنے ایک کالم میں اس درخت کا ذکر کیا تھا جس نے راج گوپال اچاریہ کے خواب میں آ کر اپنا مقدمہ لڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور یہ ہم نے السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کی ایک اشاعت میں اچاریہ جی کے ایک مضمون سے اشارہ لے کر کیا تھا۔
راج گوپال اچاریہ نے اپنے اس مضمون میں اپنے کسی ہمسائے کا ذکر کیا تھا جس نے اپنے درختوں سے یارانہ دوستانہ اس حد تک بڑھا لیا تھا کہ ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ شہر کی کارپوریشن نے اپنے کسی منصوبے کے تحت ان درختوں کو کاٹ ڈالا۔ وہ شخص جو اپنے ان درختوں سے گھل مل کر باتیں کیا کرتا تھا بہت رویا۔
مقتول درختوں میں سے ایک درخت اچاریہ جی کے خواب میں آیا اور فریاد کی کہ ہم پر ظلم ہوا ہے۔ ہمیں بلاوجہ قتل کیا گیا ہے۔ آپ ہمارے قتل کا مقدمہ لڑیں۔
راج گوپال اچاریہ یہ کچھ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ مقدمہ تو میں نے نہیں لڑا۔ اخبار میں ایک خط لکھتے ہوئے اپنے اس خواب کا ذکر کیا۔ مگر میرے کانگریسی رفقا اس پر بہت بگڑے' چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ ادھر تحریک گرم ہے۔ ہمارے کتنے رفیق جیل پہنچ چکے ہیں اور ادھر راجہ جی درختوں اور خوابوں کی باتیں کر رہے ہیں۔
راج گوپال اچاریہ نے درختوں کے قتل کا مقدمہ نہیں لڑا۔ لیکن اٹلی میں نامی گرامی اطالوی ناول نگار البرٹو مو راویہ نے ایک درخت کے قتل پر سچ مچ اتنا تاؤ کھایا کہ عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ اس کی رپورٹ ہم نے اس وقت کی ٹائم کی ایک اشاعت میں پڑھی تھی۔ شہر روم کے مرکزی چوک کے بیچوں بیچ ایک اونچا گھنا درخت کتنے زمانے سے کھڑا تھا۔ اس شہر کی کارپوریشن نے بھی اس درخت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو شہروں کی انتظامیہ ان کے ساتھ کرتی چلی آئی ہے۔ سڑک کو وسیع کرنے کے نام پر اس نے اس بزرگ درخت پر آرا چلا دیا۔
تب البرٹو مو راویہ باہر نکلا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ مقدمہ یوں پیش کیا کہ کارپوریشن نے ہمارے عزیز دوست کو قتل کیا ہے۔ اس پر ارتکاب جرم کی دفعہ لگائی جائے اور جرم کی سزا دی جائے۔
اور اب ایک جاتک کہانی سن لیجیے۔ جنگل میں کھڑے ایک چندن کے پیڑ کو آگ لگ گئی۔ اس درخت کی شاخوں کے بیچ جتنے پرندے اپنے گھونسلوں میں بیٹھے تھے وہ تڑپ کر نکلے اور پھڑ پھڑا کر اڑ گئے۔ ہاں ایک مور شاخ پر ٹکا اسی طرح چپ چاپ بیٹھا رہا۔ ایک راہ گیر نے چلتے چلتے اسے دیکھا' ٹھٹھکا ' اور بولا کہ اے مور تو دیکھتا نہیں کہ چندن شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ سارے پرندے اڑ چکے ہیں۔ تو کیوں بیٹھا ہے۔ تجھے اپنی جان عزیز نہیں۔
مور بولا ''اے شخص'' میں نے اس چندن کے سائے میں بہت موسم گذارے ہیں۔ جاڑے' گرمیاں' برسات' اس کی شاخوں کے بیچ بہت سکھ پایا ہے۔ اب کہ وہ مشکل میں ہے' میں اسے چھوڑ کر چلا جاؤں ۔ یہ کچھ اچھی بات نہیں۔ سو جو اس کا حال' وہ میرا حال''۔
چندن تھوڑی ہی دیر میں جل کر کھڑنک ہو گیا۔ اس کے ساتھ مور بھی جل گیا۔ یہ جاتک سنا کر مہاتما بدھ نے انکشاف کیا کہ بھکشوؤ، وہ مور میں تھا۔ میں نے اپنا حق رفاقت ادا کیا۔ اس کے ساتھ میرے اس جنم کا انت ہو گیا۔
یہ ہے جنم جنم کی کہانی آدمی اور پیڑ کی دوستی کی۔ و نیز غداری کی' آدمی ہی نے اس سے دوستی کے حق کو نبھایا بھی اور آدمی ہی نے اس سے اپنے مفادات کے چکر میں دغا بھی کی۔ اب بھی کر رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں درخت کٹ رہے ہیں' جنگل اجڑ رہے ہیں' زمین کے زیورات لٹ کھسٹ رہے ' مگر کیا درختوں کی بربادی کے بعد مورکھ آدمی چین سے رہ سکے گا۔ مگر زندگی کی بھاگ دوڑ میں اس کے پاس ایسا سوچنے کا وقت نہیں ہے۔